بلدیاتی الیکشن کے لئے انتخابی مہم کا آغاز

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیاہے۔


رضا الرحمٰن November 20, 2013
سیاسی جماعتیں الائنس کی طرف بھی بڑھ رہی ہیں جس کیلئے رابطوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ فوٹو: فائل

کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے اُمیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز زور و شور سے کردیا ہے اور مختلف پینلز بنا کر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے اُمیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیئے ہیں ۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کا اعلان کیا ہے تاہم اس حوالے سے سیاسی جماعتیں الائنس کی طرف بھی بڑھ رہی ہیں جس کے لئے ان کے درمیان رابطے اور بات چیت کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جو کہ جنرل الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر اختلافات کا شکار نہیں ہوئی تھی تاہم بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پارٹی ٹکٹ کے اجراء پر اختلافات کا شکار ہوگئی ہے ۔گذشتہ دنوں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے عہدیداران نے پریس کانفرنس کرکے صوبائی جنرل سیکرٹری نصیب اﷲ بازئی کی تیس یوم کے لئے بنیادی رکنیت معطل کردی تھی۔

جبکہ دیگر رہنماؤں کی طرح شوکاز بھی جاری کیا تھا جس کے ردعمل میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی جنرل سیکرٹری نصیب اﷲ بازئی نے پارٹی کے صدر سے مشورے کے بعد ضلع کوئٹہ کے صدر صلاح الدین رند، جنرل سیکرٹری سحر گل خلجی اور دیگر ضلعی وسٹی عہدیداروں کی پارٹی رکنیت معطل کرکے شوکاز جاری کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان عہدیداران نے پارٹی کے آئین اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے جس کی بنیاد پر ان کی رکنیت معطل کرکے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ پارٹی میں بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی ٹکٹ کی تقسیم کے معاملے پر اس طرح کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے بعض پارٹی کے سینئر رہنما سرگرم ہوگئے ہیں اوراختلافات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اصل معرکہ میئر شپ پر ہوگا جس کے لئے ابھی سے تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر حکمت عملی طے کر رہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ سات دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ اپنے حمایتی اُمیدواروں کو کامیاب کراسکیں ۔7 دسمبر کے انتخابات کے بعد ہی اصل صورتحال سامنے آئے گی اور اس حوالے سے جو بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرے گی وہ میئر کے لئے اپنا اُمیدوار سامنے لائے گی۔ تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کوئی ایک سنگل جماعت اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

میئر کے انتخاب کے لئے بھی سیاسی جماعتوں کو پوزیشن واضح ہونے کے بعد کوئی الائنس بنا کر ہی کسی ایک موزوں اُمیدوار کو عہدے کے لئے سامنے لانا ہوگا۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات سے متعلق قائم آل پارٹیز مشاورتی کمیٹی کے اجلاس بھی مختلف اوقات میں جاری ہیں جس میں اے این پی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ 7 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں گیارہ مئی کے ڈرامے کو دوبارہ دوہرانے نہیں دیں گی۔



بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر حاجی اکبر آسکانی نے وزیراعلیٰ بلوچستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے حلقہ انتخاب میں مداخلت کر رہے ہیں اور ان کی مشاورت کے بغیر ان کے حلقے میں پوسٹنگ وٹرانسفر کر رہے ہیں ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے محکمے ماہی گیری میں بھی ان کی مشاورت کے بغیر پوسٹنگ وٹرانسفر کی گئی ہے اگر اس ٹرانسفر وپوسٹنگ کے احکامات واپس نہ کئے گئے تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان نے صوبائی مشیر اکبر آسکانی کی جانب سے وزیراعلیٰ پر تنقید کو بلا جواز اور حقیقت کے منافی قرار دیا اور کہا کہ موصوف کی حالیہ انتخابات میں کامیابی تاحال متنازعہ اور انصاف کی متقاضی ہے، حلقے کا ہر شخص ان کی کامیابی کی حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے جہاں تک ان کے حلقہ انتخاب کا معاملہ ہے ان کی پوزیشن تو یہ ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں اپنا ایک بھی اُمیدوار کھڑا نہیں کرسکے اور نہ ہی اب تک وہ اپنے حلقہ انتخاب جاسکے ہیں۔

نیشنل پارٹی کے ترجمان نے جواب میں یہ بھی الزام عائد کیا کہ پارٹی کے انتخابی منشور میں بلوچستان کے عوام بالخصوص ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ لوگوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ غیر قانونی شکار کا خاتمہ کرکے ٹرالر مافیا اور عوام دُشمن اقدامات کرنے والے کرپٹ عناصر کی سرکوبی کی جائے گی۔ نیشنل پارٹی اور وزیراعلیٰ بلوچستان ٹرالنگ اور غیر قانونی شکار کی اجازت دے کر غریب ماہی گیروں کا گلا نہیں گھونٹ سکتے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی کی بلیک میلنگ میں آئیں گے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مابین اس قسم کی بیان بازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات اور اتحاد میں کچھ گڑ بڑ ضرور ہے لیکن اس بارے میں دونوں جماعتوں کی قیادت کو مل بیٹھ کر ہی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا ہوگا کیونکہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے اپنے اپنے منشور ہیں اور مخلوط حکومت میں اس قسم کے حالات پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔

دوسری جانب بلوچ نیشنل فرنٹ، بلوچ سالویشن فرنٹ اور دیگر تنظیموں کی اپیل پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن اور گرفتاریوں کے خلاف مستونگ، قلات، نوشکی، خضدار، مشکے،آواران، تربت، پنجگور ،حب، چاغی، خاران اور دیگر علاقوں میں یوم شہداء بلوچستان کے موقع پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور ہڑتال کے دوران ان علاقوں میں تمام کاروباری مراکز بند اور ٹریفک معمول سے کم رہی جبکہ اس حوالے سے مختلف علاقوں میں فکری ریفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا اور شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

جہاں ایک طرف لاپتہ افراد کا لانگ مارچ کوئٹہ سے شروع ہو کر کراچی پہنچ چکا ہے وہاں دوسری جانب ژوب سے بھی ایک لانگ مارچ اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا ہے جس کے شرکاء ڈی آئی خان سے براستہ ژوب پشتون بیلٹ کیلئے ٹرانسمیشن لائن ، کوئٹہ سے گیس کی فراہمی اور دیگر بنیادی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں