جنسی درندوں کی سزائے موت کے مخالف مرنیوالے بچوں کو اپنا سمجھیں

گزشتہ برس کے دوران پہلے 6 ماہ میں 1304 بچے زیادتی کا شکار ہوئے


عبید اللہ عابد February 12, 2020
سزائے موت کسی غیر انسانی جرم پر ریاست کی سنجیدگی کا غیر مبہم پیغام ہے (فوٹو : فائل)

PESHAWAR: پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر تنقید وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے، تنقید کرنے والے سزائے موت کے بعض فیصلوں پر بولتے ہیں اور بعض پر خاموش رہتے ہیں۔

جمعہ، سات فروری2020ء کو قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کرکے انھیں قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام سزائے موت کی قرارداد منظور ہونے پر 'سرعام سزائے موت' پر ایک بار پھر مباحثہ شروع ہوگیا۔ یہ قرارداد تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی اور وفاقی وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پیش کی۔ان کا کہنا تھا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرموں کے لئے وزیراعظم عمران خان سزائے موت چاہتے ہیں۔

تحریک انصاف کے اراکین کی اکثریت کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے اس قرارداد کی حمایت کی، تاہم اس مرحلے پر عجیب صورت حال دیکھنے میں آئی کہ بعض حکومتی وزرا نے نہ صرف قرارداد کی مخالفت کی بلکہ قرارداد کے خلاف سخت بیانات جاری کیے۔ مثلاً وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ''سر عام پھانسی اسلامی تعلیمات اور آئین کے منافی ہے،1994 میں سپریم کورٹ سرعام پھانسی کی سزا کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ سرعام پھانسی آئین کے ساتھ شریعت کی بھی خلاف ورزی ہے''، ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون آئین اور شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔

اسی طرح وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے ملزمان کو سرِعام پھانسی کی قرارداد کی مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کے قوانین تشدد پسندانہ معاشروں میں بنتے ہیں اور یہ انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے، بربریت سے آپ جرائم کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ دنیا کی تاریخ میں یہ سب ہو چکا ہے، اس طرح کی سزائیں قبائلی معاشروں میں ہوتی ہیں جہاں انسان اور جانور ایک برابر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہذب معاشرے مجرموں کو سزا سے پہلے جرم روکنے کی تدبیر کرتے ہیں، جبکہ اس طرح کی سزاؤں سے معاشرے بے حس ہو جاتے ہیں اور سزا اپنا اثر کھو دیتی ہے۔

فواد چوہدری کی مذکورہ ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ اللہ الحق ہے اور اس کا حکم الحق ہے، اسلامی سزاؤں کو ظلم و بربریت کہنے والے خود ظالم ہیں۔انھوں نے قبائلی معاشرہ کے خلاف فوادچودھری کے خیالات کا جواب دیتے ہوئے کہ ''(قبائلی معاشرہ ) دنیا کا سب سے مہذب معاشرہ ہے جہاں عورت کی عزت، بڑوں کا ادب اور پختون ولی ہے۔ قبائلی معاشرہ وہ ہے جہاں سر قربان کیا جاتا ہے لیکن عزت نہیں، مجھے فخر ہے اپنے قبائلی معاشرے پر''۔

علی محمد خان کی پیش کردہ قرارداد کی مخالفت وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے علاوہ پیپلزپارٹی کے اراکین نے بھی کی۔ پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کا موقف تھا کہ محض سزائیں بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے۔لاش کو سرعام لٹکانے پر پوری دنیا سے مخالفت سامنے آسکتی ہے۔اس لئے حکومت ایسے اقدامات سے گریز کرے۔ پھانسی کی سزا ممکن نہیں کیونکہ پاکستان پر اقوام متحدہ کے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور کوئی بھی معاشرہ اسے قبول نہیں کرے گا۔انھوں نے تجویز دی کہ سزا کو مزید سخت کردیں اور مجرم کو اتنی سزا دیں کہ وہ جیل ہی میں مر جائے۔

سوال یہ ہے کہ علی محمد خان کی پیش کردہ اس قرارداد کو کس قدر اہمیت حاصل ہے؟ ممتاز ماہر قانون، ڈائریکٹرجنرل شریعہ اکیڈمی ڈاکٹرمحمد مشتاق کہتے ہیں کہ قرارداد اور قانون کے بل میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر یہ قانون کا بل ہوتا تو یہاں سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں پیش کیا جاتا، جہاں سے منظوری کے بعد اسے دستخط کیلیے صدر کے پاس بھیجا جاتا، پھر یہ باقاعدہ قانون بن جاتا۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ قرارداد اگر کثرتِ رائے سے منظور ہو تو اس کی حیثیت محض ایک تجویز کی ہوتی ہے۔ ایک سفارش، جس پر عمل کرنا بہتر ہوتا ہے، ضروری نہیں''۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتاہے کہ اس قرارداد سے چند دن پہلے بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے خلاف سزا کا قانون قومی اسمبلی منظور کرچکی ہے، یہ قانونی مسودہ اب سینیٹ میں زیرِ غور ہے۔ سوال یہ ہے کہ برسرِ عام پھانسی کی شق اس موقع پر کیوں شامل نہیں کی گئی جب قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیاتھا؟ ڈاکٹرمحمد مشتاق کہتے ہیں کہ '' اُس موقع پر سٹینڈنگ کمیٹی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سزائے موت اور برسرعام پھانسی کی سزا کی مخالفت کی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخالفت تو اب بھی موجود ہے اور آج اس نے اس قرارداد کی بھی مخالفت کی ہے، تو پھر پیپلز پارٹی کی مخالفت کا عذر کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر یہ قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی ہوتی تو حکومت کیلیے ضروری ہوتا کہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ قانون میں اس شق کو شامل کرنے کی کوشش کرے اور اس مقصد کیلیے اسے قومی اسمبلی میں دوبارہ لانا ضروری ہوتا۔ اب یہ ضروری نہیں ہے''۔

ڈاکٹرمحمد مشتاق کہتے ہیں:''اگرچہ اس قرارداد کا متن کہتا ہے کہ یہ وزیراعظم کی خواہش ہے لیکن اسے پیش کیا گیا ہے ایک انفرادی قرارداد ہی کی حیثیت سے، خواہ اسے پیش کرنے والا ایک وفاقی وزیر ہی ہو۔ اس لیے بعض دیگر وفاقی وزرا کی جانب سے اس پر تنقید قانوناً جائز ہے۔ حیرت کی بات البتہ یہ ہے کہ وزیراعظم کی خواہش کو ایک وفاقی وزیر باقاعدہ قانونی مسودے کی صورت میں پیش کرنے کے بجائے محض ایک قرارداد کی صورت میں کیوں پیش کر رہا ہے؟''

پاکستان میں ایک طبقہ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی اس قرارداد میں شامل الفاظ 'سرعام پھانسی' ہی کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ وہ سزائے موت ہی کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ یہ سزا تعزیرات پاکستان میں مذکور تمام سزاؤں میں سب سے بڑی اور سخت سزا تصور کی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ جمہوری دنیا میں سزائے موت کو انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اکثر ممالک نے ختم کردیا تھا تاہم جلد ہی یہ خیال تبدیل ہوا، یوں مختلف ممالک نے اِسے چند قانونی ترامیم کے بعد اَزسر نو نافذ کردیا۔ ان ممالک میں امریکا بھی شامل ہے۔ اس وقت دنیا کے106ممالک کے قوانین میں کسی بھی جرم میں سزائے موت درج نہیں ہے۔

آٹھ ممالک میں بعض جرائم پر سزائے موت ختم کی گئی ہے تاہم سنگین جرائم میں موجود ہے۔ 28 ممالک کے قوانین میں سزائے موت موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد سے گریز کیا جاتاہے۔56 ممالک میں قانونی طور پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ عجیب امر یہ ہے کہ جن 106ممالک میں سزائے موت قانونی طور پر ختم کی گئی ہے، وہاں کی سیکورٹی فورسز اور ایجنسیاں ماورائے عدالت قتل کرتی ہیں اور انھیںاس کام سے روکا نہیں جاتا۔ بعض ممالک میں عدالتیں بھی اس ماورائے عدالت سزائے موت کو غلط خیال نہیں کرتیں۔

2018ء میں سب سے زیادہ سزائے موت چین میں دی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق چین میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ دوسرے نمبر پر ایران جہاں253 یا اس سے زائد افراد کو پھانسی پر لٹکایاگیا۔سعودی عرب میں 149، ویت نام میں 85،عراق میں52، مصر43، امریکا 25، جاپان15، پاکستان میں 14، سنگاپور میں 13، صومالیہ میں13، جنوبی سوڈان میں سات، بیلاروس میں چار، یمن میں چار، افغانستان میں تین، بوٹوسوانا اور سوڈان میں دو، دو جبکہ تائیوان اور تھائی لینڈ میں ایک، ایک فرد کو سزائے موت ہوئی۔ یعنی اس سال پاکستان کی نسبت سعودی عرب، ویت نام، عراق، مصر، امریکا اور جاپان میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے امریکا میں سزائے موت پانے والوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔

پاکستان میں سزائے موت ایک قانونی عمل ہے۔ اگرچہ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے سزائے موت پر پابندی عائد کر دی تھی، تاہم 2015ء میں میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے یہ پابندی ہٹا دی اور سزائے موت کو دہشت گردوں کے لئے مخصوص کردیا۔ پاکستان میں سزائے موت کو قانون سے خارج کرنے یا نہ کرنے کی بحث ان دنوں زوروشور سے جاری ہے۔ مخالفین اس سزا کے خلاف مختلف اعتراضات اٹھاتے ہیں مثلاً

پہلا اعتراض: سزائے موت ایک حتمی اور ناقابل واپسی سزاہے جس میں غلطی کا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایسے متعدد مقدمات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں سزائے موت پانے والے بعدازاں بے گناہ ثابت ہوئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں 1973 سے اب تک 150ایسے قیدی تھے جنہیں سزائے موت سنائی گئی لیکن بعد میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہوگئے اور کچھ ایسے بھی سزا یافتہ قیدی تھے جن کے مجرم ہونے پر شدید شکوک و شبہات تھے لیکن انہیں پھانسی دے دی گئی۔

دوسرا اعتراض: دنیا کے مختلف معاشروں میں سزائے موت دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں جرائم میںکمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔

تیسرا اعتراض:دنیا کے مختلف معاشروں میں ملزم کو اپنے دفاع کا پورا حق نہیں فراہم کیا جاتا، تشدد کے ذریعے اعترافی بیان لیاجاتاہے، ایسے ملزم کو سزائے موت دینا نہ صرف بدترین ناانصافی بلکہ قتل ہے۔

چوتھا اعتراض:دنیا کے بعض ممالک میں سزائے موت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

پانچواں اعتراض:مالی اور سماجی طور پر کمزور افراد چونکہ اپنے دفاع کے لئے مناسب وسائل اور حالات سے محروم ہوتے ہیں، وہ غربت کی وجہ سے اچھے وکیل کی خدمات حاصل نہیں کرسکتے،اس لئے ایسے غریب اور دبے ہوئے ملزمان مالی اور سماجی طور پر مضبوط افراد کے مقابل ناجائز طور پر ہار جانے کے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگرماتحت عدالت انھیں سزا سنادے تو اعلیٰ عدالتوں میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس معاشرتی المیہ کے سبب بھی سزائے موت کے غلط استعمال کا احتمال ہوتاہے۔

ان اعتراضات کے جواب میں معروف دانشور اور تجزیہ نگار ڈاکٹرعاصم اللہ بخش کاکہناہے کہ ''قصاص ہی میں حیات ہے ، یہ اللہ کا حکم ہے۔ فساد فی الارض کا معاملہ ہے، 'قتل کی سزا قتل' انسانی تاریخ میں سب سے کامیاب deterrent ہے۔ اس کے خلاف ہونے کے لیے جو حوصلہ چاہیے وہ ہمارے بس کی بات کہاں ؟ اس کے لیے''لبرل'' ہونا اولین شرط ہے۔

سزائے موت ریاست یا مقتدرہ کی سنجیدگی کے بارے میں غیر مبہم پیغام ہوتا ہے جس سے جرم تک پہنچنے کی راہ کے مسافر اپنے رویے پر نظرِ ثانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جن معاشروں میں سزائے موت ختم ہوئی، وہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا ہے کہ 'وہاں درج ہونے والے مقدمات اور جیلوں کی تعداد اس دعویٰ کا ساتھ نہیں دیتی۔ایسے تمام ممالک میں مملکت سے غداری کی سزا کیاہے؟ یہ جاننے کی ضرورت ہے، اس سے بھی کئی باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ وہاں غداری کو سنگین ترین جرم سمجھا جاتاہے اور اس کی سزا موت ہی ہوتی ہے۔ ہاں! یہ بات درست ہے کہ محض سزائے موت پر تکیہ ایک غلط بات ہوگی، دیگر عوامل پر بھی کام کرنا ضروری ہے جس میں معیشت، معاشرت اور قانون کی بالادستی بہت اہم ہیں۔''

یقیناً سزائے موت کے غلط استعمال کے نتیجے میں انسانیت ایک معصوم فرد سے محروم ہوجاتی ہے ، بالخصوص اس فرد کے پیارے اور دیگر خاندان والے مختلف النوع اثرات تلے دب جاتے ہیں۔ انھیں پہنچنے والے اس نقصان کی کسی بھی صورت میں تلافی ممکن نہیں۔ ظاہر ہے کہ غلط طور پر کسی کو سزائے موت دینا بذات خود دہشت گردی بلکہ اس سے بھی سنگین جرم ہے۔ چنانچہ اس سارے مسئلے کا حل ریاست کے پاس ہے کہ وہ صرف مجرم کو سزا دینے کا اہتمام کرے اور اپنے ہاں نظام انصاف کو اس قدر مضبوط اور صاف وشفاف بنائے کہ کسی بے گناہ کو سزا ہونے کا ایک فیصد بھی امکان نہ رہے۔ ریاست اس پورے عمل پر پورے خلوص اور تندہی کے ساتھ مسلسل محنت کرے، جدید ترین سائنسی خطوط پر نظام انصاف کو چلایاجائے۔

سزائے موت ختم کرنے سے معاشرے کو زیادہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مثلاً ذرا مقتول کے خاندان کے بارے میں تصور کیا جائے کہ وہ کس حال میں جیے گا جب قاتل کچھ عرصہ قید کی سزا پانے کے بعد واپس اسی معاشرے میں آکر دندانا شروع کردے۔ اس کا دوسرا نقصان زیادہ بڑا ہوگا کہ معاشرے میں قتل جیسے جرائم سنگین نہیں معمولی سمجھے جائیںگے۔ ظاہر ہے کہ قاتل اثرورسوخ والا ہوگا تو وہ زیادہ عرصہ جیل میں بھی نہیں رہے گا۔ ان حالات میں کوئی بھی فرد دوسرے فرد کو یہ سوچ کر قتل کردے گا کہ کون سا زیادہ عرصہ کی قید ہوگی۔

جہاں تک سزائے موت سے متعلق دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ سزائے موت سے جرائم میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ اعتراض سرے سے ہی درست نہیں ہے، سزا کا خوف بہت سوں کو جرم کا ارتکاب کرنے سے دور رکھتا ہے۔ جن 106ممالک میں سزائے موت کے قانون کا مکمل خاتمہ کیا گیاہے، وہاں قتل کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ مثلاً ہنڈراس میںقتل کی وارداتوںکی شرح 63.25 فیصد ہے۔ وینزویلا میں 56.3 فیصد، جنوبی افریقہ میں 35.9فیصد ،کولمبیا میں 24.9 فیصد، میکسیکو میں 24.8فیصد ۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان ممالک میں سزائے موت صرف قتل جیسے جرائم میں نہیں ملتیالبتہ ملک سے غداری پر سزا موت ہی ہوتی ہے۔

جن ممالک میں سزائے موت کا جزوی خاتمہ ہوا ، ان میں ایلسلواڈور جیسے ممالک بھی ہیں جہاں قتل کی وارداتوںکی شرح 108.64 فیصد ہے اور برازیل میں 30.5فیصد۔ جن ممالک میں سزائے موت کے قانون کا خاتمہ تو نہیں کیا گیا البتہ سزائے موت پانے والوں کو قید میں رکھا جاتاہے، وہاں قتل کی وارداتوں کی شرح 13 فیصد سے کم ہے، دوسرے الفاظ میں ان ممالک میں سزائے موت کا خوف موجود ہے، اس لئے اس خوف کے اثرات بھی قتل کے جرائم میں کمی کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

پاکستان سمیت جن ممالک میں سزائے موت کا قانون بھی موجود ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے، وہاں قتل کی وارداتوں کی شرح 10فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 4.2 فیصد ہے۔سعودی عرب جہاں قاتل کی گردن سرعام اڑائی جاتی ہے، وہاں قتل کی شرح 1.3فیصد ہے۔ا یران میں2.1 فیصد اور چین میں 0.6فیصد۔

اعدادوشمار کی روشنی میں اس تجزیے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ محض سزائے موت ہی قتل جیسی سنگین وارداتیں کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ معاشرے میں قتل جیسی وارداتوں کے دیگراسباب مثلاً معاشرتی اور معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ ایک ہمہ پہلو حکمت عملی اور جدوجہد کی جائے تو سنگین جرائم میں حقیقی کمی لائی جاسکتی ہے ۔ سزاؤں کے بغیر معاشروں میں ڈسپلن پیدا کرنا اور انھیں پُرامن بنانا ایک خوبصورت خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ جن ممالک کی معیشت بھی بہتر ہے، نظام انصاف بھی موثر ہے اور سزائے موت کا قانون بھی موجود ہے، وہاں قتل کے جرائم کی شرح انتہائی کم ہے، مثلاًسنگاپور (0.25فیصد) اور جاپان (0.31 فیصد)۔

دیکھا گیا ہے کہ سزاؤں کا خوف باقی نہ رہے تو لندن جیسے آئیڈیل پُرامن شہر بھی پرتشدد شہروں جیسا روپ اختیار کرتے ہیں۔اس مرحلے پر گزشتہ برس لندن میں ہونے والے فسادات کو ضرور مدنظر رکھاجائے جب سی سی ٹی وی جیسے کیمروں کا نظام معطل ہوا تو لندن کسی پُرتشدد افریقی شہر جیسا منظر پیش کرتا رہا۔ اسی طرح فرانس میں بھی ہوا۔ جن ممالک میں سزائے موت کا خاتمہ ہوا، وہاں سنگین جرائم میں اضافہ ہونے لگا نیتجتاً ان ممالک میں سزائے موت کو بحال کرنا پڑا۔

اس سے اندازہ ہوتاہے کہ معاشروں میں قیام امن کے لئے سزا اور جزا دونوں ضروری ہیں۔ اسی لئے شریعت اسلامیبھی قتل کے بدلے میں قتل کی سزا ہی کا حکم دیتی ہے۔ چونکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس میں اگر سزائے موت کا حکم ہے توساتھ ہی ساتھ سماجی معاشرتی اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام پر بھی زور دیا گیا ہے، حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ریاست میں قحط پڑا تو آپ ؓ نے چوری کی سزا موت روک دی ۔

کیونکہ جب تک ریاست شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کرتی، سزائیں دینے کا حق بھی نہیں رکھتی۔ انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے بغیر جرائم کی روک تھام ممکن نہیں۔ اسلامی تعلیمات میں تفتیش سے فیصلے تک کے پورے عمل کو صاف وشفاف بنانے پر زور دیاگیاہے۔ اس اعتبار سے ریاست کے لئے بھی احکامات موجود ہیں اور شہری کے لئے بھی۔ قصاص کے علاوہ دِیگر جرائم ارتداد، غداری، ملک کے خلاف بغاوت میں موت کی سزا دی جاتی ہے جو مروجہ طریقوں پر حکومت مجرم کو دے سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا برسرِ عام پھانسی سے واقعی سنگین جرائم کا تدارک ہوجائے گا، یا اس میں کمی ہوجائے گی، یا نہیں؟

ڈاکٹرمحمد مشتاق کہتے ہیں: '' یہ شرعی یا قانونی نہیں بلکہ سماجی سوال ہے۔ ہاں، اگر یہ بات حدود و قصاص کی سزاؤں کے متعلق ہوتی تو یہ یقیناً شرعی سوال ہوتا کہ کیا شرعاً حدود و قصاص کی سزا برسرِ عام دینا ضروری ہے یا نہیں؟ چونکہ یہ حدود یا قصاص کی سزا نہیں ہے، اس لیے اسے برسرِ عام دینے یا نہ دینے پر دونوں جانب سے بات کی جاسکتی ہے اور حکمران کو شرعاً یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شریعت کے نصوص اور قواعدِ عامہ کی حدود کے اندر رہ کر معاشرے سے فساد کے خاتمے کیلیے جو صورت مناسب سمجھے اسے اختیار کرے۔ بہ الفاظِ دیگر ، یہ شریعت کا نہیں بلکہ سیاسیہ شرعیہ کا مسئلہ ہے''۔

این جی اوز کی رپورٹ

سزائے موت کے مخالف تنظیموں مثلاً ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فاؤنڈیشن آف ہیومن رائٹس کا کہناہے کہ پاکستانی قوانین میں خامیاں موجود ہیں، اسی طرح پولیس افسران مقدمات کی ناقص تفتیش کرتے ہیں اور متعلقہ عدالتوں میں'استغاثہ کی کمزوریاں' بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فور ہیومن رائٹس کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں ایسے32 قوانین ہیں جن کی خلاف ورزی پر موت کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماتحت عدلیہ بالخصوص قتل کے مقدمات میں مقتول کے ورثا کے جذبات اور خود اپنی جان بچانے کے لیے ایسے فیصلے کردیتے ہیں جو اکثر اوقات قتل کے واقعات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ قتل کے مقدمات میں پراسیکیوشن کی کامیابی کا تناسب صرف20 فیصد ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ مقدمے کی صحیح طریقے سے تیاری نہ کرنا اور صحیح حقائق عدالت کے سامنے پیش نہ کرنا ہے۔ ماتحت عدلیہ میں زیادہ تر فیصلے سوشل جسٹس سسٹم کے تحت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں میں ایسے فیصلے کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں نظام عدل کی صورت حال یہ ہے کہ قتل کے ایک مقدمے کے اندراج سے لے کر اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں15 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے اور اس عرصے کے دوران مدعی مقدمہ اور ملزمان کے خاندانوں کے لاکھوں روپے وکلا کی فیسوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی خاندان کے فرد کو سزائے موت ہو جائے تو اس خاندان کے دوسرے افراد پر نفسیاتی اور معاشرتی دباؤ رہتا ہے جبکہ اس کے علاوہ مقدمات لڑنے کی وجہ سے سماجی اور اقتصادی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں جدید خطوط پر تفتیش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں اپنی مرضی کے گواہ پیش کرنے کی بجائے جائے حادثہ سے فرانزک بنیادوں پر ایسے شواہد اکھٹے کریں جسے کوئی عدالت جھٹلا نہ سکے۔ علاوہ ازیں پاکستانی حکام انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو ان عدالتوں میں بیٹھنے کی اجازت دیں جہاں پر ایسے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو جس میں ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔

سزائے موت کے قوانین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل

دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے میں سر فہرست تنظیم 'ایمنسٹی انٹر نیشنل' ہے۔ اس تنظیم نے1977ء میں سویڈن میں سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ایک کانفرنس منعقد کی جو1979 میں نوبل انعام حاصل کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔کانفرنس میں ایک عالمی منشور پیش کیا گیا جس میں تمام ممالک سے سزائے موت کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی۔

اسی سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا بھر کے ممالک میں سزائے موت کے اعداد شمار پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تب سے ہی اس تنظیم کو سزائے موت کو مانیٹر کرنے اور اس حوالے سے نگرانی کر نے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے ادارے کے طور پر جانا جانے لگا۔1981ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فرانس کے صدارتی انتخابات کے دوران فرانس میں سزائے موت کے خلاف لوگوں کو متحرک کرکے بھرپورمہم چلائی اور صدارتی امیدواروں سے سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جو بعد میں نو منتخب صدرنے منظور کرلیا اور فرانس میں سزائے موت ختم کردی گئی۔

نومبر2007 ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کی بعض دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں پچاس لاکھ لوگوں کے دستخطوں کے ساتھ ایک قرار داد پیش کی جس میں اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی کہ وہ سزائے موت کو دنیا بھر سے ختم کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ دسمبر2007 ء میں اقوام متحدہ نییہ قرار داد منظور کرلی۔

ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں اب تک 106 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا قانون مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے اور آٹھ ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کو فوج سے متعلق معاملات تک محدود کردیا گیا ہے جبکہ 28 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا خاتمہ تو نہیں کیاگیا لیکن سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے مجرم عمر قید کی سزا کاٹتے ہیں۔2008ء سے 2015 ء تک پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا لیکن آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تو سزاء پر عمل درآمد دوبارہ شروع کردیا گیا۔یوں اب 56 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کاقانون بھی ہے اور اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔

ہمیں ان کو مرتے دیکھنا ہے
(محمد عثمان جامعی)
ہماری آنکھوں نے دیکھے ہیں
ُگل جلائے ہوئے
فرشتے
روندے ہوئے
خون میں نہائے ہوئے

ہماری آنکھوں نے دیکھے ہیں
ننھے بے جاں جسم
کہ جانے کیسے چلے
جن کو باپ اٹھائے ہوئے

ہماری آنکھوں میں اترے ہیں ایسے نظّارے
کہ اپنے بچوں سے
آنکھیں ہیں
ہم چُرائے ہوئے

ہمارے بچے کہیں جنگلوں میں مارے گئے
ہم ان کے
کُرتوں کو
سینوں سے ہیں لگائے ہوئے

یہ آنکھیں نوچ لوکہ ان میں چبھتے جلتے ہیں
وہ عکس
جن میں ہیں
بچے نظر جھکائے ہوئے

ہماری آنکھوں میں پیوست تیر بن کر ہیں
وہ چہرے
آخری مسکان
مسکرائے ہوئے

ہماری آنکھوں میں کتنی ہی مائیں روتی ہیں
پھٹے کلیجے لیے
آنکھ خوں بہائے ہوئے

ہماری آنکھوں کو اب دیکھنا ہیں وہ منظر
کہ جن کو دیکھ کے دل کو قرار آجائے
گلی، جو بچوں سے خالی ہے ایک مدت سے
وہاں شریر ہنسی کی بہار آجائے
ہر ایک جس نے بھی پھولوں سے خوشبو چھینی ہے
گھسیٹا جائے وہاں تک کہ، دار آجائے

ہوس بھری ہوئی آنکھیں، سیاہی سے بھرے دل
ہمیں اب ان میں فقط خوف اُترتے دیکھنا ہے
جنھوں نے گڑیوں کو توڑا ہے، کلیاں مسلی ہیں
انھیں سسکتے ہوئے، بین کرتے دیکھنا ہے
وہ جن کے مارے ہوئے روز جیتے مرتے ہیں
اب ان کو پھانسی کے پھندے پہ مرتے دیکھنا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔