خودکشی سے پہلے

خودکشی کرنے سے پہلے جو موت کی سختی بیان کی گئی ہے، اس پر یقین کرلیا جائے تو ہم کبھی خودکشی کے قریب نہ جائیں


دنیا بھر میں خودکشی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجھے ایسے لگا کہ میری سانس بند ہورہی ہے اور میں اب چند لمحوں کا مہمان ہوں۔ موت گویا میرے سامنے کھڑی تھی۔ مجھے جتنی تیراکی آتی تھی، وہ سب پانی کی گہرائی کے سامنے بے بس ہوچکی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ہار ماننے کے قابل نہ رہتا، میں نے ہار ماننے کا فیصلہ کرلیا، اور بچاؤ بچاؤ پکارنا شروع کردیا۔

مگر شاید بہت دیر ہوچکی تھی، میرے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ لیکن اب چِلانے کے سوا کوئی اور راستہ بھی نہ تھا۔ میں نے اپنی پوری قوت مجتمع کرکے ایک بار پر باہر کھڑے لائف گارڈز کو مدد کےلیے پکارا اور مسلسل پکارا۔ اچانک مجھے اپنے اوپر دباؤ کا احساس ہوا اور اگلے ہی لمحے میں باہر تھا۔ دونوں لائف گارڈز میری حالت دیکھ کر مسکرا رہے تھے، مگر میں ان کی استہزائیہ ہنسی کی پرواہ کیے بغیر زندگی بچ جانے پر شکر ادا کررہا تھا۔ میں نہ صرف زندہ تھا بلکہ بزرگوں کی بات کی حقانیت بھی مجھ پر آشکار ہوچکی تھی۔

یہ آج سے چار سال پہلے کی بات ہے۔ واٹر پارک کی سیر کرتے میں جیسے ہی ایک ایسی سلائیڈ کے پاس پہنچا جس پر واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ صرف تیراک ہی اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ پیالہ نما اس سلائیڈ کے آخر میں آپ گہرے پانی میں اس طرح گرتے ہیں کہ سر نیچے اور پاؤں اوپر۔ اور اس کے بعد آپ ماہر تیراک ہونے کی صورت میں ہی بچ سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود انتظامیہ نے انہونی سے بچنے کےلیے دو لائف گارڈ بھی کھڑے کیے ہوئے تھے۔ لائف گارڈز کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ انوکھا خیال آیا۔ میں نے بچپن میں کئی ایک ایسے واقعات سنے تھے کہ فلاں نے گندم میں رکھنے والی گولیوں سے زندگی کا خاتمہ کیا۔ گولیاں کھانے کے بعد جب گولیوں نے اپنا کام شروع کیا تو وہ پکارتا تھا کہ مجھے بچالو۔ میں جب بھی یہ بات سنتا تو سوچ میں پڑجاتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی خوشی سے زندگی کا خاتمہ کرتا ہے اور پھر جب موت یقینی ہوجاتی ہے تو بچاؤ بچاؤ کیوں پکارتا ہے؟

اس لیے میں نے لائف گارڈز کو اعتماد میں لے کر واٹر پارک میں یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تجربے کے بعد جو سنا تھا وہ سچ ثابت ہوگیا۔ وطن عزیز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ خودکشی کی سطح بڑھتی جارہی ہے۔ غریب، امیر ہر قسم کے افراد میں اپنی جان لینا عام سی بات بنتی جارہی ہے۔ ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو سال کے دوران 35 شہروں میں 300 افراد نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ گھریلو مسائل، بے روزگاری، گھریلو جھگڑے، صحت کے مسائل ان کی ایک بڑی وجہ ہیں۔

اگر ہم پوری دنیا کی بات کریں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ایک ملین افراد خودکشی کرتے ہیں۔ یعنی آپ یوں کہہ لیں کہ ہر چالیس سیکنڈ میں ایک فرد اور ہر روز تین ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں۔

میرا یہ کہنا ہے کہ اگر خودکشی کرنے سے پہلے کتابوں میں جو موت کی سختی بیان کی گئی ہے، اس پر یقین کر لیا جائے تو ہم کبھی بھی خودکشی کے قریب نہ جائیں۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے، اور ہم نے ہر صورت میں اپنا نقصان ہی کرنا ہے تو جیسا کہ جاوید چوہدری صاحب نے اپنے کالم میں ایک صاحب کا واقعہ بیان کیا کہ انہوں نے خودکشی کا ارادہ یہ سوچ کر ترک کردیا کہ میں یہ یقین کرلیتا ہوں کہ میں مرگیا ہوں۔ اور پھر انہوں نے اپنے نفس کو مار لیا، خود کو مردہ سمجھ کر ایک نیا سفر شروع کیا اور اب وہ فیکٹری اونر ہیں اور ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ تحریر پڑھئے: خود کشی سے پہلے

آئیے ہم بھی عزم کریں کہ جیسے بھی ہو، جیسے بھی حالات ہوں، نہ صرف خود اس حرام فعل سے بچیں گے بلکہ اپنے ارگرد موجود لوگوں کو بھی زندگی کی طرف لے کر آئیں گے۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یہ انسانیت اور اپنوں کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔