بھوک کے مارے کدھر جائیں
یہ معاشی ناہمواریوں کا سلسلہ ہے جو غریب عوام کی چھاتی پر مسلسل مونگ دلے جارہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جو نکلی تو اس ملک کو مدینہ طرز کی ریاست بنانے کے لیے تھی لیکن یہ مجبوراور بے بس عوام کا قبرستان بنتا نظر آرہا ہے۔ دعویٰ کرنے میں کوئی حرج نہیںلیکن دعویٰ کرکے اس کے برخلاف اقدامات ہوں گے پھر کوئی چین سے نہیں بیٹھے گا۔
ملک میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے عوام کے ناک میں دم کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی اس سوچ میں ڈوبا ہوا ہے کہ حکمران کس اقتصادی ترقی کے ڈھول پیٹ رہے ہیں جو غریب عوام کے منہ سے نوالہ تک چھیننے کو آ پہنچی ہے۔جمہوریت اگر لوگوں کے لیے ہے تو اس سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہونا فطری عمل ہے۔ کسی بھی ملک کے عوام اپنی حکومت اور پالیسی ساز ریاستی اداروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل میں ہر ممکن کوشش کریں گے۔
خصوصاً جن ممالک میں جمہوریت رائج ہو وہاں عوامی توقعات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔اچھے دنوں کی نوید اپنی جگہ اہمیت ضرور رکھتی ہے لیکن جب تک یہ بھلے دن روز مرہ زندگی میں دکھائی نہ دیں تب تک عوام کے لیے تسلی اور تشفی کے پہلو نکلنا محض خام خیالی ہے۔ہمارے ہاں چونکہ بیشتر مسائل کا تعلق معاشی بدحالی اور ناتجربہ کاری سے جڑے ہیں، ایسے میں عوام کی حکومت سے یہ امید بھی رہتی ہے کہ وہ گرانی میں کمی کا باعث بننے والے اقدامات کرے گی۔
یہ بھی واضح رہے کہ ہر بار انتخابی مہم کے دوران مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ جب ہماری سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو ان کے خیالات عوامی ترجمانی کرتے ، جونہی ان کے ہاتھ اقتدارتک پہنچتے ہیں تو رویے یکسر بدل جاتے ہیں۔تب انھیں بھی وہ مسائل دکھائی دینے لگتے ہیں جو ان سے قبل موجود رہنے والے مقتدر طبقے کے لیے کار حکومت میں رکاوٹ تھے۔اس کے باوجود یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم عوامی مسائل حل کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔
عوام چونکہ سادہ دل ہوتے ہیں سو ہر بار اُن دعوؤں اور وعدوں کے دامِ فریب میں آہی جاتے ہیں۔2018ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے اور جس تبدیلی کا فریب دیا ، گزشتہ ڈیڑھ سال کی حکومتی کارکردگی نے سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔
حکومت کی اقتصادی ٹیم کا پاؤں عوام کی گردن اور ہاتھ جیب پر ہیں۔ ٹیکسوں کی شرح، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کسی جگہ پر حکومت کی رٹ دکھائی نہیں دے رہی، کراچی سے خیبر تک ہر شے کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اضافے نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری ہے، غربت اور معاشی ناہمواری بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قباحتیں موجودہ حکومت کی خود پیدا کردہ ہیں ، ان کی پالیسیاں ایسے حالات پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔
حکومت خود اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران ملک میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے، میڈیا انڈسٹری کا ہی جائزہ لے لیں، جسے ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے موجودہ حکومت نے اس کا گلا دبانے سے بھی گریز نہیں کیا، ہزاروں میڈیا ورکر اس دور میں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ، ہزاروں لوگ جو اپنی ملازمتیں بچانے میں کامیاب ہوئے ان کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوچکی ہے، باقی جو بچے ہوئے ہیں انھیں ہر وقت بیروزگاری کا خوف کھائے جارہا ہے۔
حکومت کی ناتجربہ کار معاشی ٹیم کی پالیسیوں نے اس ملک میں امیر اور غریب کے درمیان تفریق کو جتنا بڑھاوا دیا ہے ، اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔ یہ معاشی ناہمواریوں کا سلسلہ ہے جو غریب عوام کی چھاتی پر مسلسل مونگ دلے جارہا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام اصلاحات کا طالب ضرور ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غریبوں کی جیبوں پر ہی ہاتھ صاف کیا جائے۔
ریاست مدینہ میں حضور اکرم ؐ سے لے کر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ تک ہر شخص کا معیار زندگی بلند ہوا۔ یہ کیسی ریاست ہے جہاں آئے دن لوگوں کا معیار زندگی بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ کل تک جو گاڑی پر سفر کرتا تھا آج موٹر سائیکل پر آگیا ہے، موٹر سائیکل والا سائیکل اور سائیکل والا پیدل۔ کل تک جو دو وقت کی روٹی کھاتا تھا آج اسے ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ گھر سے فٹ پاتھ تک پہنچ چکے ہیں، جن کی عزت نفس فٹ پاتھ پر سونے کی اجازت نہیں دیتی وہ ٹرین تلے آکر خود کشی کر لیتا ہے۔
چند روز قبل ایک خاتون نے اپنے بچوں سمیت یہی کیا۔ حکومت کو یہ بات نجانے کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ معاشی ترقی کے لیے معاشی استحکام کا ہونا لازم ہے ، اس وقت وفاقی حکومت تجارتی بینکوں ، اسٹیٹ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں سے جتنے زیادہ قرضے حاصل کر رہی ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان مالیاتی اداروں کے مجموعی کریڈٹ کا ایک بڑا حصہ حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے لے لیتی ہے حالانکہ موجودہ حکومت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ہم خود انحصاری کی پالیسی اپنائیں گے، سادگی کا کلچر لائیں گے، لیکن یہ بھی محض دعویٰ ہی رہ گیا۔
کوئی یہ بات بتانے کو تیار نہیں کہ آخر کون سا ایسا طوفان آگیا تھا جس کی وجہ سے چینی 55 روپے سے 90روپے فی کلو گرام تک پہنچ چکی ہے، دالوں اور آٹے کی قیمتیں کیوں بے قابو ہوگئیں، گاڑیوں کی قیمتیں کیوں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں،اس بحران سے کس نے ، کتنا فائدہ اٹھایا ، کیا حکومت قوم کو حقائق بتانا پسند کرے گی؟ ذمے داروں کو کٹہرے میں لائے گی ، یا سبسڈی دے کر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کو ہی کامیاب بنایا جائے گا۔ ریاست مدینہ میں جو شخص مصنوعی بحران پیدا کرکے ناجائز منافع خوری کرتا کیا اسے آزاد چھوڑا جا سکتا تھا؟ بدقسمتی سے یہاں پاکستان کو مدینہ طرز کی ریاست بنانے کے دعویدار حکمران غریب عوام کے لیے وبال جان بن چکے ہیں۔
آیے !آپ کو مدینہ طرز کی ریاست کی ایک جھلک دکھاتے ہیں جہاں حضرت عمربن عبدالعزیز ؓ مسند پر جلوہ افروز ہیں، ان کے سامنے مال غنیمت آتا ہے، فرمانے لگے ''اسے لے جاکر معاشرے کے غریبوںاور مستحقین میں تقسیم کردو۔'' آواز آئی ''اے امیر المومنین اسلامی سلطنت میں کوئی بھی فقیر نہیں رہا'' اللہ اکبر۔ آپؓ نے فرمایا''پھر اس مال سے اسلامی لشکر تیار کیا جائے۔''بتایا گیا اسلامی لشکر ساری دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پھر آپؓ نے فرمایا''نوجوان بچوں اور بچیوں کی شادیاں کردو۔'' رپورٹ دی گئی شادی کے خواہش مندوں کی شادیوں کے بعد بھی مال بچ گیا ہے۔
فرمایا ''دیکھو یہودی اور عیسائیوں میں سے کسی پر قرض ہے تو وہ اداکردو۔'' یہ کام بھی کردیا گیا پھر بھی مال بچ گیا۔ فرمایا ''اہل علم کو مال دیا جائے۔'' ان کودینے کے بعد بھی مال بچ گیا۔ فرمایا ''اس کی گندم خرید کر پہاڑوں کے اوپر ڈال دو کہ مسلم سلطنت میں کوئی پرندہ بھی بھوکا نہ رہے۔'' یہ ہے ریاست مدینہ، جہاں ہر روز لوگوں کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوا۔ اگر اس ملک کو مدینہ طرز کی ریاست بنانا ہے تو سب سے پہلے یہاں اس نظام کو نافذ کرنا ہوگا جو خلفائے راشدین نے اپنایا۔ اس کے بغیر کوئی ایڑی چوٹی کازور لگا لے مدینہ کی ریاست تو دور کی بات ، اس کی کوئی جھلک بھی نظر نہیں آئے گی۔
بدقسمتی سے حکومتی اقدامات حالات کوخونی انقلاب کی جانب دھکیل رہے ہیں، اگر یہ حالات اسی نہج پر آگے بڑھتے رہے تو پھر صرف غریب ہی نہیں مریں گے، امیر بھی محفوظ نہیں رہیں گے، جو گاڑیوں میں سفر کر رہے ہیں سڑکوں پر غریبوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی اپنا قبلہ درست کرے۔ حکومت کی بے حسی پر اپوزیشن خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، اگر اپوزیشن نے اپنا رویہ نہ بدلا اور عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا تو اس ملک میں عوام ہی حکمران ہوں گے اور عوام ہی اپوزیشن۔