بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔


Shahbaz Anwer Khan/Basheer Wasiq February 16, 2020
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو:فائل

دی گریٹ لیڈر ( جلد اول)
مصنف: منیر احمد منیر۔۔۔۔۔قیمت:700 روپے۔۔۔۔صفحات:348
ناشر:ماہنامہ آتش فشاں، 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاون لاہور(03334332920)



ہمارے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح پر بے تعداد کتابیں لکھی جا چکی ہیں کسی نے ان کی شخصیت کے سیاسی پہلو کو موضوع بنایا ہے تو کسی نے ذاتی زندگی کو، مگر منیر احمد منیر صاحب کی کتاب ' دی گریٹ لیڈر' ان سب سے ہٹ کر ہے وہ اس لئے کہ اس میں ان افراد کے انٹرویوز شامل کئے گئے ہیں جو قائد اعظم کی گورنر شپ کے زمانے میں ان سے وابستہ رہے، انھوں نے جو بیان کیا وہ خود دیکھا یا پھر ان کے ساتھ بیتا، یوں قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں جاننے کے لئے ایک رنگا رنگ گلدستہ تیار کیا گیا ہے جس میں ان کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ بہت سے ایسے پہلوؤں سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے جو پہلے سامنے نہیں لائے گئے ۔

قائد اعظم کے چیف سکیورٹی آفیسر ایف ڈی ہنسوٹیا نے انکشاف کیا کہ پاکستان کو وجود میں آئے دو روز ہی ہوئے تھے کہ رات گئے دو مسلح ہندو گورنر جنرل ہاؤس کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ سپاہی نے دیکھ لیا۔ اس کے ساتھ کشمکش کے باعث وہ قائد اعظم تک نہ پہنچ سکے اور بھاگ گئے۔

قائد اعظم اس وقت کام میں مصروف تھے انھوں نے اس واقعہ کا قطعاً نوٹس نہ لیا۔دراصل وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے، انھیں جب بھی سکیورٹی کا کوئی سپاہی نظر آتا، کہتے '' اگر میری موت کا وقت آن پہنچا تو ایک ہزار سپاہی بھی میری جان نہیں بچا سکیں گے۔'' سابق وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ نے اعتراف کیا کہ یہ ٹھیک بات ہے کہ انھوں نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔اگر پڑھتا تو اعتراض ہوتا کہ یہ منافق ہے۔ اسی طرح اے ڈی سی کیپٹن( جو بعد میں جنرل بنے) گل حسن نے بتایا '' جب قائد اعظم کا بھائی ان سے ملنے آیا تو انھوں نے بغیر اپوائنمنٹ ملنے سے انکار کر دیا اور اس کے وزٹنگ کارڈ پر '' قائد اعظم کا بھائی'' کے الفاظ کاٹتے ہوئے کہا ، اسے کہو اس پر صرف اپنا نام لکھے۔ نئی نسل کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

جرم سیاست
مصنف: میاں منظور احمد وٹو۔۔۔۔قیمت: 2000 روپے
صفحات:416۔۔۔۔ناشر: احمد پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور



اگر عوام کی خدمت کرنا ہو تو اس کے لئے سیاست کا شعبہ بہترین ہے کیونکہ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد آپ کو لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے مسائل سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور پھر منتخب ہونے کے بعد ان کے مسائل حل کرنے یا کرانے کے اختیارات بھی مل جاتے ہیں ۔ تاہم سیاست کے خارزار میں آبلہ پائی بھی کرنا پڑتی ہے کیونکہ مخالفین ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آتے اور بدنامی کا طوق بھی مقدر ٹھہرتا ہے۔

میاں منظور احمد وٹو پاکستان کے ممتاز سیاستدان ہیں، 1964ء میں ممبر بنیادی جمہوریت سے سیاست کی ابتدا کی۔ پھر یونین کونسل کا الیکشن لڑتے رہے، 1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل اوکاڑہ ، 1985ء میں ممبر صوبائی اسمبلی و سپیکر صوبائی اسمبلی، 1988ء میں ممبر صوبائی اسمبلی و سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب،1990ء میں ممبر قومی اسمبلی ، 1993ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب، 2008ء میں ممبر قومی اسمبلی و وزیر صنعت و پیداوار منتخب ہوئے ۔

1999 تا 2002ء پابند سلاسل رہے۔انھوں نے یہ کتاب اسیری کے دنوں میں ہی لکھی، یہ اس کا تیسرا ایڈیشن ہے جس میں اضافے کئے گئے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے اس وقت اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''دنیا بھر کے اہل سیاست کی روایت ہے کہ نازک سیاسی موضوعات پر وہ خود قلم اٹھاتے ہیں اور اپنے سیاسی کیریئر کے کارناموں اور غلطیوں کی تحریر کے ذریعے سے وضاحت کرتے ہیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کی کتاب ' جرم سیاست' اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ منظور وٹو صاحب نے اپنی خود نوشت میں پاکستان کے حالیہ سیاسی واقعات کے کئی خفیہ گوشوں کو بے نقات کر کے تاریخی فریضہ سر انجام دیا ہے۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

افکار قائد اعظمؒ
مصنف: شاہد رشید۔۔۔۔قیمت: درج نہیں۔۔۔۔صفحات:407
ناشر:نظریہ پاکستان ٹرسٹ، شاہراہ قائداعظم،لاہور(042 99233521)



ہمارے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی جتنی بھی تعریف کی کم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے ہی اوصاف سے متصف کیا تھا، زندگی کے جس بھی شعبے میں بھی قدم رکھا کامرانیاں ان کے قدم چومتی رہیں، بیرسٹر بن کر عملی زندگی میں قدم رکھا تو برصغیر کے ممتاز قانون دانوں میں شمار ہونے لگے، سیاست میں قدم رکھا تو تھوڑے ہی عرصہ میں سیاست کے ایوانوں میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ ان کی کامیابیوں کی بڑی وجہ ذہانت اور بصیرت کے ساتھ ساتھ قول و فعل میں مطابقت تھی جو وہ کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے۔ اصول پرستی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے قائد اعظم کے فرمودات جمع کر کے کمال کر دیا ہے کیونکہ قائد کے فرمودات کو زندگی کے ہر شعبہ کے حوالے سے پیش کر دیا گیا ہے اور یہی حیران کن بات ہے، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف کو تحقیق کے لئے کتنی محنت کرنا پڑی ہو گی۔

ابواب کے عنوانات جیسے آزادی،آئین، اقلیتیں، اللہ کی حاکمیت بحیثیت گورنر جنرل، پیغمبر اسلام ﷺ ، تعلیمات قرآن، خواتین، زبان، صنعت و معاشیات، مسلم اور ہندو ، کشمیر اور دیگر ریاستیں ، سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ قائد اعظم نے زندگی کے کسی بھی شعبے کو رہنمائی کے اصول فراہم کرنے سے خالی نہی چھوڑا، یہ تو مصنف کا کمال ہے کہ انھوں نے قائد کے افکار عالیہ ایک جگہ یکجا کئے ہیں ۔ یہ کتاب ہمارے قومی رہنماؤں کو بالخصوص رہنمائی کا درس دیتی ہے، انھیں ہر شعبہ زندگی کے لئے رہنمائی ملے گی، اگر وہ رہنمائی حاصل کرنا چاہیں تو، ورنہ ہمارے رہنماؤں کی اکثریت کا اس وقت جو حال ہے اس پراللہ کی پناہ مانگنا پڑتی ہے۔ نوجوان نسل کو بھی اس کا ضرور معالعہ کرنا چاہیے۔

اچھل ندیاں تارو ہوئیاں
مصنف: عذرا وقار۔۔۔۔قیمت:350 روپے۔۔۔۔صفحات:258
ناشر: سچیت کتاب گھر، گنگارام چوک، لاہور ((042 36308255)



زندگی سمے کا دھارا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا، کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہ انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے وقت کو کیسے بیتائے، مگر زندگی میں ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب زندگی پر انسان کا اختیار نہیں رہتا اور وقت کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے، ایسے ہی لمحوں کی وجہ سے تقدیر پر یقین کرنا پڑتا ہے جس کے آگے انسان بے اختیار ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی کی کہانی دوسروں کے آگے رکھنا ذرا مشکل تجربہ ہے کیونکہ زندگی میں آنے والے نشیب فراز کو بے کم و کاست بیان کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔عذرا وقار نے بھی اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے، ان کا انداز بہت بے تکلّفانہ ہے، تحریر چاشنی سے بھرپور ہے ۔

قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو ۔ وہ معمولی تجربات کو بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔ نئی نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے اس سے ایک تو انھیں سیکھنے کا موقع ملے گا دوسرے وہ اس دور کی تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کریں گے۔

خواب سے آگے
شاعر:امداد آکاش۔۔۔۔قیمت: 600 روپے۔۔۔۔صفحات:144
ناشر:بک ہوم، مزنگ سٹریٹ، لاہور(042 37231518)



غزل شاعری کی خوبصورت ترین صنف ہے، جس میں شاعر اپنے دل کی بات یا محسوسات کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کرتا ہے، جس سے قاری خواب وخیال کے عالم میں کھو جاتا ہے، امداد آکاش نے بھی اپنے محسوسات غزل کی صورت میں پیش کئے ہیں، ان کا انداز بڑا دلفریب ہے، جیسے کہتے ہیں،

تشنہ لب، خاک بہ سر، آبلا پا بیٹھا ہے

خشک دریا میری دہلیز پہ آ بیٹھا ہے

اے میری خواہش بیتاب مجھے تھام کے رکھ

مے کا ساگر ہوا پایاب مجھے تھام کے رکھ

آخری اوراق پر نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں، ان میں بھی انداز بہت خوبصورت ہے۔ ان کی کتاب شاعری میں اچھا اضافہ ہے۔ مجلد کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

A Soul That Ran Wild
شاعرہ : ماہین رسول۔۔۔۔قیمت: 1000روپے۔۔۔۔صفحات:312
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور(04237245072)



اپنی بات کہہ دینا بڑی بات ہے اور ببانگ دہل کہنا اس سے بڑی بات ہے، ماہین رسول نے اپنے خیالات ، جذبات اور محسوسات کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان میں مشاہدے اور محسوسات کا مادہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے، اور وہ ان پر بند باندھنے کی بجائے انھیں آگے بڑھنے کا راستہ دیتی ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے بپھرے ہوئے دریا پر بند باندھا جائے تو وہ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے مگر دریا کو کھلے میدان میں بہنے کا موقع ملے تو وہ دھیرے دھیرے شانت ہو جاتا ہے، شاعرہ نے اپنے خیالات کے بپھرے ہوئے دریا کو رخ دیدیا ہے اب یہ کچھ بہا کر لے جانے کی بجائے شانت ہو جائے گا، تاہم زمانے کی قید اپنی جگہ ہے جس کا بڑا ہتھیار وقت ہے اور یہی آہستہ آہستہ مرہم بنتا ہے۔ انھیں آگے بڑھتے رہنا ہو گا ۔ زیر تبصرہ کتاب انگریزی ادب میں خوبصورت اضافہ ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

۔۔۔

لاہور: شہر پُرکمال



کہتے ہیں، شہر بھی لوگوں کی طرح شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور اپنی حدود میں داخل ہونے والوں پراپنی شخصیت کے متنوع بھید وا کرتے ہیں۔ یہ کسی زندہ شہر اور اس میںوارد ہونے والے مسافر پر منحصر ہے کہ اُن میں باہمی محبت کا رشتہ استوار ہوگا یا پھر نفرت کا۔۔۔۔ اُن میں دوستی پروان چھڑے گی یا عداوت شہر جسے اپنا لے اُسے اوج کمال نصیب ہو اور جسے رد کردے اُسے برباد کرکے رکھ دے۔ صرف مسافت ہی ہمیں بتا سکتی ہے کہ ہم کس شہر کے ہم مزاج ہیں۔ کون شہر ہمیں سینے سے لگائے گا اور کون دھتکار دے گا۔

تاریخ انسانی میں عظیم شہروں کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔ ایسا بارہا ہوا کہ کوئی پورا عہد ایک شہر کی عظمت اور چکا چوند سے ممتاز ہوا۔ لاہور بھی دنیا کے اُن شہروں میں شمار ہوتا ہے جو کسی خطہ عرض یا کسی ملک کی حددود میں سمانے کے باعث نامور نہیں، بلکہ ملک اور خطے کو اپنی ہمہ جہت شخصیت کے سحر سے پُرکشش بناتا ہے۔ بے مثال گلوکار مہدی حسن نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے بزرگوں نے نصیحت کی تھی کہ لاہور میں بیٹھ کر ریاضت کرو کیونکہ معیار فن میں اس شہر کا مزاج اتنا کڑا ہے کہ فنکار کو تلوار کی دھار پر چلنے کے قابل بنا دیتا ہے۔

زیر نظر کتاب ''لاہور: شہر پرکمال'' ایک ایسے شخص کی کاوش ہے جو خود لاہور کے عشق میں گرفتار ہے۔ محمود الحسن کی لاہور سے محبت کا سب سے موثر حوالہ ادب اور ادیبوں کے ساتھ اُس کی مثالی رفاقت ہے اور لاہور وہ شہر ہے، کہ اس کا نام اُردو ادب کے سفر میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتاب دراصل صاحب کتاب کے اُن تین تفصیلی مضامین پرمشتمل ہے جن میں اُردو ادب کی تین نامور شخصیات کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیال لال کپور کی اِس شہر کے ساتھ شیفتگی کا حال بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضامین اس لیے نہیں لکھے گئے تھے کہ کتاب بنیں گے بلکہ ایف سی کالج کے پروگرام میں پڑھنے کے لیے کرشن چندرپر مضمون لکھا (کرشن چندر ایف سی کالج سے فارغ التحصیل تھے) تو دو ایسی شخصیات راجندر سنگھ بیدی اور کنھیال لال کپور بھی سامنے آگئیں کہ لاہور سے جن کی انسیت کرشن چندر ہی کی طرح مثالی تھی اور وہ بھی تقسیم کے بعد لاہور کے ہجر میں تڑپتے رہے۔

لہٰذا محمودالحسن نے ان پر بھی اسی طرز کے مضامین قلم بند کیے جو شائع ہوئے ۔ پھر یہ ممکن ہوگیا کہ انہیں ایک کتاب کی شکل دی جاسکتی ہے۔ دیباچہ شمس الرحمن فاروقی جیسے عالم بے بدل کے قلم سے ہے جو اس کتاب کو مزید معتبر بناتا ہے۔ ان تینوں ادیبوں کے لاہور کے بارے میں احساسات آج کے دور میں ایک نایاب اثاثہ ہیں کیونکہ جس لاہور نے یہ احساسات پیدا کیے وہ اب ناپید ہے اور جو کچھ بچ رہا ہے وہ بھی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ پیرس، لندن اور سینٹ پیٹرس برگ جیسے شہروں کے باسیوں نے تو قدیم زمانے کی ایک ایک اینٹ کو اصل حالت میں سلامت رکھنے کے لیے جان لڑائی ہے لیکن ہم نے ماضی کی ان یادگاروں کو مٹنے دیا ہے۔ لاہور کی حقیقی روح کی پرچھائیں اب ہمیں ایسی کتابوں کے صفحات پر ہی ملیں گی۔ کتاب کی پیش کش کا انداز انتہائی شاندار ہے۔اس کتاب کو قوسین پبلشرز نے شائع کیا ہے جو ریڈنگز (گلبرگ) اور کتاب سرائے غزنی سٹریٹ اردو بازار ، لاہور (03009401474) سے حاصل کی جاسکتی ہے۔قیمت 500روپے ہے۔

۔۔۔

زنگار نامہ



اُردو کالم نگاری میں کتنے ہی معرکے کیوں نہ سر ہوئے ہوں، اس کی تعریف کا چوکٹھا ابتداء میں بہت غیر لچکدار ہوا کرتا تھا اور ماضی میں اردو دان طبقے کے نزدیک یہ ایک سنجیدہ بحث ہوا کرتی تھی کہ کسی تحریر کو کالم قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ جس طرح مغرب میں زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ علمی و فکری کام ہوا اور پھر عملی سطح پر اس کے ایسے ہوشربا مظاہر سامنے آئے کہ کوئی ان کے اثرات سے الگ تھلگ نہیں رہ پایا۔ علم و ہنر کے میدانوں میں ارتقاء کی لگامیں جس کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اس کا فکر و فلسفہ پوری دنیا کے معاشروں کی صورت گری پر لازماً اثر انداز ہوتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ جیسے اردو ادب مغربی ادب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تو کالم نگاری کا ہنر کیونکر نئے رجحانات سے الگ تھلگ رہ سکتا تھا۔ لہٰذا ہماری کالم نگاری نے بھی تنوع کی نئی وسعتیں دریافت کیں۔

عامر ہاشم خاکوانی ہمارے ملک کے ان تھوڑے سے کالم نگاروں میں شامل ہیں جو نہ تو حادثاتی طور پر اس میدان میں آئے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے شعبے میں پہلے سے موجود اپنی شہرت کی طاقت کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس رزم گاہ میں اترے ہیں۔ جس طرح نوجوان انجینئر، ڈاکٹر اور پائلٹ بننے کا سپنا دیکھا کرتے ہیں۔ عامر نے اپنی نوجوانی میں خود کو ایک کالم نگار کی حیثیت سے آئیڈیلائز کیا تھا، اس حیثیت کو پانے کے خواب دیکھے اور پھر اس کے لیے جان بھی ماری۔ کالم نگاری میں ان کی حقیقی اننگز کے آغاز اور بڑھت کے جاں گسل مراحل سے مجھ سے بڑھ کر کوئی واقف نہیں کیونکہ میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔

روزنامہ ایکسپریس کے دور میں ان کا شاید ہی کوئی کالم ایسا ہو جو چھپنے سے پہلے میں نے نہ پڑھا ہو اور اس کالم کی تعمیر کے لیے صاحب کالم جو ڈھیروں صفحات کھنگالا کرتے تھے وہ سب سرگرمی میری بغل والی میز پر ہوا کرتی تھی۔ عامر خاکوانی کی کالم نگاری کا جو سب سے نمایاں وصف ہے وہ کسی تجزیے سے نتائج اخذ کرنے کے عمل میں معاملے کے تمام فریقوں سے برابری اور توازن کے ساتھ رجوع کرنا ہے۔ انہوں نے ملکی سیاست و دیگر متنازع معاملات پر رائے زنی کرتے ہوئے کبھی اپنی ذاتی پسند ناپسند کو غالب نہیں آنے دیا۔

اگر کسی شخصیت یا جماعت کی کھل کر حمایت کی تو کسی مایوس کن رویے یا عمل کی گوشمالی میں بھی کوئی رو رعایت نہیں کی۔ انہیں معاشرتی معمولات میں بگاڑ، علم سے دوری، تعلیمی سرگرمیوں سے تربیت کے رخصت ہوجانے اور اپنی روایات اور فنون سے دوری جیسے رویوں پر شدید دکھ کا احساس ہے اور ان کے کالموں میں ان موضوعات کا ذکر جابجا ملے گا۔

زیر نظر کتاب ان کے کالموں کا دوسرا مجموعہ ہے جو گزشتہ 8 برسوں میں چھپنے والے کالموں میں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ اس انتخاب میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے صرف وہی تحریریں شامل ہوں جن کا اثر وقتی نہیں بلکہ دائمی ہوتا ہے اور پڑھنے والے کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہیں۔ کل 90 تحریروں کو موٹیویشنل کالم، عمل خیر، کتابوں کی دنیا، زندگی، نقطئہ نظر، معلومات/ شخصیات اور خاندان/ تربیت کے عنوانات کے تحت منظم کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ''سبق جو کالم نگاری کے سفر میں سیکھے'' کے عنوان سے انتہائی مفید تحریر شامل ہے جس میں ان تمام سوالوں کا جواب موجود ہے جو نو آموز کالم نگاروں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے جسے نئی سوچ پبلشرز، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور (قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن) نے شائع کیا ہے۔اس نمبر

(03404235023) پر گھر بیٹھے بھی منگوائی جاسکتی ہے۔

416 صفحات کی کتاب کی قیمت700روپے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔