عوام خود اپنے رہبر بن جائیں
زندگی میں ہم اکثر انتظار کرتے رہ جاتے ہیں، اچھے دنوں کا کبھی اچانک سے حالات کے...
زندگی میں ہم اکثر انتظار کرتے رہ جاتے ہیں، اچھے دنوں کا کبھی اچانک سے حالات کے بدل جانے کا سوچتے ہیں، کبھی کسی مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں۔ کسی ایسے رہبر کے خواب دیکھتے ہیں، جو زندگی کے تمام تر دکھ سکھوں میں بدل دے گا۔ یہ بات نہیں ہے کہ رہبر اور مسیحا نہیں آئے۔ وہ ہر تاریک دور میں روشنی کے پیامبر بن کر آئے ہیں۔ لیکن وہ ان قوموں کی زندگی میں آئے ہیں، جن کے دل یقین کا وصف رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں صورت حال مختلف رہی ہے۔ اور وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ امید کا دیا ہواؤں کے ہاتھ میں رکھ کے کسی نے اس کی لو کے جلتے رہنے کی تمنا کی ہو۔ ہم اکثر ایسی خواہشوں کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم معجزوں کا انتظار کرتے ہیں اور دل یقین کی قوت سے خالی ہوتے ہیں۔ لفظ آواز کا ساتھ نہیں دیتے۔ قوت گویائی کو بھی آواز کا سلیقہ چاہیے۔ وہ بات جو دل میں اتر جائے اور عمل کی تاثیر سے بہرہ ور ہو۔ عمل بھی خیال کی پختگی کا مرہون منت ہے۔ خیال، جو تعبیر کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر خیال کو یقین کی ہموار زمین چاہیے جہاں تصور کا بیج پنپ سکے۔
ورنہ یوں بھی اکثر ہوا ہے کہ زرخیز زمین میں بھی پودے مرجھا جاتے ہیں۔ جنھیں محبت کی روشنی، یقین کی ہوا اور تحفظ کا پانی نہ مل سکا ہو۔ پھلنے پھولنے و لہلہانے کے لیے ربط باہمی کا حسن چاہیے۔ جب رابطے مفقود ہوں تو منتشر رویے جنم لیتے ہیں۔ انتشار سے برائی جڑ پکڑتی ہے، اور جب برائی کا پودا تناور درخت بنتا ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جا سکتا۔ کوئی غلط رویہ اگر سر اٹھاتا ہے تو اسے فوری طور پر روک دینا چاہیے۔ کیونکہ منفی سوچ کو عمل کی طاقت مل جائے تو وہ برائی ایک دم جڑ پکڑتی ہے اور یہ زندگی برے رویوں کے جہنم میں جلنے لگتی ہے۔ مجھے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ہم سیموئل بیکٹ کے ڈرامے Waiting for Godot (ویٹنگ فار گوڈو) کے کردار ہیں۔ جو انتظار کر رہے ہیں۔ گوڈو جو مسیحا یا کوئی رہبر ہے۔ یہ کردار اسے نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ گوڈو امید کا استعارہ ہے، اندھیروں میں روشنی کی کرن ہے۔ حبس کے موسم میں ہوا کا تازہ جھونکا، زنداں میں آزاد فضاؤں کے خواب جیسا ہے، یہ رہبر آئے گا تو منتشر زندگی ترتیب کے حسن میں ڈھل جائے گی۔ گوڈو تبدیلی کی علامت ہے۔
مگر یہ تمام تر کردار انتظار کرتے رہ جاتے ہیں اور گوڈو آخری سین تک ظاہر نہیں ہوتا۔ امید ٹوٹ جائے تو پیچھے ایک خلا رہ جاتا ہے۔ عوام کی توقعات ایک فطری عمل ہے۔ توقعات جو اکثر پوری نہیں ہوتیں، خواب بھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ یہ کردار زندگی کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ لوگ مسلسل ناانصافی اور حق تلفی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ان کا قیمتی اثاثہ خواب دیکھنے کا عمل ہے۔ نجات دہندہ کے آنے کے خواب انھیں زندگی میں متحرک رکھتے ہیں، ورنہ ان کا حوصلہ کب کا ٹوٹ کر بکھر جاتا۔ یہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ تبدیلی، جستجو کی دین ہے اور جبر ہٹ دھرمی سے عبارت ہے، جو تبدیلی کو راستہ نہیں دیتا۔ یہ طویل رات کی طرح ہے، جس کے ہمسفر کمر بستہ، روشنی کی آس لیے اندھیروں سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ انسان اندھیروں سے مفاہمت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس کی آنکھیں روشن دن کے خواب دیکھتی ہیں۔ لیکن خوابوں کی قسمت مستقل گردش میں رہتی ہے۔ خوابوں کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہے۔ خوابوں کو قتل بھی کیا جاتا ہے۔
ان کی سر عام بولی بھی لگتی ہے اور انھیں روندا بھی جاتا ہے۔ خواب ہر طرح کا ظلم سہتے ہیں، مگر مرتے نہیں ہیں۔ خوابوں میں طاقت ہے کہ وہ جبری طلسم توڑ ڈالیں۔ خواب ہر دور میں مصلوب رہے، ان پر پہرے بھی رکھے گئے۔ ہر دور خوابوں کی نئی سوچ اور زاویوں سے بے اثر ہونے کا خدشہ رکھتا ہے۔ اور پھر جب ہر طرف ایک سا منظر دکھائی دیتا ہے تو ایک بار پھر مسیحا کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ہر نیا چہرہ رہبر حقیقی دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی منظر نامے پر بھی چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ الفاظ بدل جاتے ہیں مگر مفہوم وہی رہتا ہے۔ لوگ اس آنکھ مچولی سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب ان کے دل لفظوں سے نہیں بہلتے۔ وہ چہرے پہچاننے لگے ہیں۔ لفظوں کا پس منظر بھی سمجھ لیتے ہیں۔ مگر یہ پھر بھی ایسے رہبر کا خواب دیکھتے ہیں، جو ان کی سطح پر آ کر بات کرے۔ ان کے دکھ کی گہرائی کو محسوس کرے۔ ان کے غم کا مداوا کر سکے۔ انھیں راستہ دکھائے، ان کے آنسو پونچھے، ان کا پرسان حال بنے، کئی قوموں کی مثالیں ان کے سامنے ہیں، جو ظلم و جبر کے تاریک راستوں پر سفر کرتی رہیں۔ جن کے حالات ہمارے حالات سے زیادہ برے اور پیچیدہ تھے۔ مگر ان کی صفوں میں کھڑے ہوئے رہبر نے انھیں زوال پذیر ہونے سے بچا لیا۔
لیکن تیسری دنیا کے ملک، جو عظیم طاقتوں کے لیے سونے کی چڑیا کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے حالات نہیں بدلتے۔ یہ قومیں مسیحا کی منتظر رہتی ہیں۔ یہ معجزوں کا انتظار کرتی ہیں اور یہ بات بھول جاتی ہیں کہ معجزہ اندر کے یقین کا نام ہے۔ یقین جو محبت سے عبارت ہے، محبت جو بکھرنے نہیں دیتی۔ انتشار کو سمیٹ لیتی ہے۔ لیکن یقین متزلزل ہے اور ہر طرف نفرتوں کے مہیب سائے پھیلے ہیں۔ احساس بنجر زمین بنتا جا رہا ہے۔ زندگی کا نیوکلیس کھو چکا ہے۔ ایک خالی پن ہے جو ہجوم میں محو سفر ہے۔ ذات کی خود اعتمادی کا فقدان احساس محرومی کا خلا پیدا کر دیتا ہے اور معاشرہ جارحیت اور تشدد جیسے غیر انسانی رویے اپنا لیتا ہے۔ احساس برتری کی جڑیں بھی بعض اوقات احساس محرومی کے بیج سے پھوٹ نکلتی ہیں۔ پھر سماج زبان، نسل، مذہب و قومیت کے خانوں میں بٹ جاتا ہے۔ یہ مرکزیت کی نفی ہے۔ یہ انکار غیر انسانی رویوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور حق تلفی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔
ہر کوئی حقوق کی بات کرتا ہے مگر اپنے فرائض بھول جاتا ہے۔ حقوق و خواہش میں عدم توازن کی فضا انسانی زندگی کے توازن کو بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔ چین کے فلسفی لی ونگ انسانی زندگی کے المیے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ''سارے انسانی اعضا اپنے اپنے مقررہ کام کرتے ہیں۔ مگر دو عضو ایسے ہیں جو بالکل غیر ضروری ہیں۔ منہ اور پیٹ کی وجہ سے انسان صدیوں سے مصیبت میں مبتلا ہے۔ اسی منہ اور پیٹ کی وجہ سے روزی کمانے کا مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا ہے تو چالاکی اور عیاری، جھوٹ اور بددیانتی جیسے غیر انسانی رویے سر اٹھاتے ہیں۔ اور قانون وجود میں آتا ہے۔ اس قانون کی بدولت یہ حال ہوتا ہے کہ بادشاہ اپنے رحم و کرم سے کسی کی زندگی نہیں بچا سکتا، ماں باپ کی محبت دست و پا ہو جاتی ہے۔ انسانیت بے معنی ہو جاتی ہے۔ گویا یہ پیٹ ایک غار ہے، اتھاہ سمندر ہے جو کبھی نہیں بھر سکتا اور اس کی طلب کبھی پوری نہیں ہوتی۔''
یہ حقیقت ہے کہ یہ اقتدار کی بھوک جو عالمی قوتوں کی پہچان بن چکی ہے، ایک گہری کھائی کی طرح ہے، جس میں ہمارے جیسی منتشر قومیں گرتی چلی جاتی ہیں۔ ان قوموں کے لیے کوئی مسیحا نہیں آتا اور یہ پستی کی طرف گامزن رہتی ہیں۔ گوڈو کی طرح مثالی رہبر محض ایک علامتی کردار بن کے رہ جاتا ہے۔ عوام جب تک اندر کی طاقت سے لاعلم رہتے ہیں۔ کٹھ پتلی تماشہ جاری رہتا ہے۔ اگر وہ جان لیں کہ کوئی رہبر نہیں آئے گا۔ انھیں اپنا رہبر خود بننا پڑے گا تو پھر مثبت تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔