Blood over Different Shades of Green
یہ مختلف نسلی، مذہبی، ثقافتی اور معاشی اکائیوں کو جوڑ کر ایک یکساں برادری بنانے کا عمل ہے۔
جیوپولیٹیکل ، قومی اور بین الاقوامی امور کے مبصر حیدر مہدی نے میری یعنی اکرام سہگل اور ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کی کتابBlood over Different Shades of Green پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''قوموں کی تشکیل ان کے داخل سے ہوتی ہے اور جغرافیہ اس کی پہلی بنیاد ہے۔
یہ مختلف نسلی، مذہبی، ثقافتی اور معاشی اکائیوں کو جوڑ کر ایک یکساں برادری بنانے کا عمل ہے۔ قوم بننے کے عمل کی تکمیل کے لیے اس میں شامل تمام اکائیوں کو برابری دینے کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ صرف جھنڈے لہراکر اور گیت گاکر( یا ٹی وی ڈرامے بنا کر۔ راقم) جذباتی کشش رکھنے والی تخیلاتی قومی شناخت بنانا آسان ہے۔ لیکن ایسی کسی شناخت کو مستحکم بنیاد پر قائم رکھنے کے لیے وسائل میں شراکت، روزمرہ زندگی میں یکساں مواقعے اور ایک دوسرے کے عقائد و روایات کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے معاملے میں آغاز ہی سے ان بنیادی باتوں کو نظر انداز کیا گیا اور اسی کا خمیازہ 1971میں بھگتنا پڑا۔''
تبصرہ نگار کے لیے اکرام سہگل اور ڈاکٹر بٹینا روبوٹکا کی زیر تبصرہ کتاب کا یہ سب سے تکلیف دے اور دل گرفتہ کردینے والا اقتباس ہے۔
مجھے ایک فلسفی اور مصنف جارج سینٹیانا کا ایک قول یاد آتا ہے''جو تاریخ سے عبرت حاصل نہیں کرتے انھیں اسے دہرانے کے عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔'' یہی وجہ ہے اس اقتباس سے میرا دل درد سے بھر گیا۔
Blood over Different Shades of Green مشرقی پاکستان کے سانحہ پر بہترین اور سب سے زیادہ دل چسپ کتابوں میں شامل ہے۔
اس کتاب میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بننے والے ثقافتی، سماجی، اقتصادی، سیاسی، جغرافیائی، مذہبی، قومی اور انتظامی اسباب کا احاطہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ بدقسمتی سے صدیوں دلوں میں پلنے والے تعصب اور مشرقی حصے کے بھائیوں کے لیے مغربی پاکستان کا سوتیلوں جیسے سلوک کو بھی اس کے اسباب میں شامل کیا گیا ہے۔
جب میں نے یہ کتاب مکمل کی تو بار بار میرے ذہن میں یہ خیال گونجنے لگا کہ دونوں حصوں کی علیحدگی میں اتنا وقت کیسے لگ گیا۔ تاریخ سے گہری دلچسپی رکھنے والے مجھ جیسے قاری کے لیے بھی اس کتاب میں بیان کردہ کئی حقائق چشم کشا ہیں۔
شاید اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے بارے میں ہمارے نکتہ نظر پر24مارچ سے 16دسمبر 1971تک ہونے والے تشدد اور قتل و غارت گری کی گہری چھاپ ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ بنگالیوں کے لیے ان کی ثقافت اور بالخصوص زبان کی اہمیت کیا تھی۔ اور آخر کیا وجہ تھی کہ قیام کے فوری بعد ہی ملک میں اردو کو ''واحد قومی زبان'' کے طور پر نافذ کردیا گیا۔ اس فیصلے کی مخالفت اور متحدہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کی زبان بنگالی کو بھی قومی زبان کی حیثیت دلوانے کے لیے مشرقی بازو کے عوام کی مزاحمت، مظاہروں اورتصادم کی تفصیلات بھی اس کتاب میں آگئی ہیں۔
اردو کو واحد قومی زبان بنانے کے اعلان سے جن الم ناک حالات نے جنم لیا، اس کی جڑیں قائد اعظم کی تقریر سے جاملتی ہیں۔ لیکن اس کے صرف ایک برس بعد ہی بنگلہ کو قومی زبان بنا دیا گیا۔ لیکن اس وقت تک مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جاچکے تھے۔ پھر اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل بنگالی مسلمان قانون سازوں کی اکثریت اپنے قومی تفاخر کی وجہ سے ''متحدہ بنگال'' چاہتی تھی جب کہ ہندو نمایندوں نے تقسیم کے حق میں ووٹ دیا۔ شاید انھوں نے نہرو کی ایما پر ایسا کیا ہو؟
1954میں حسین شہید سہروردی نے جگتو فرنٹ بنایا اس میں پانچ جماعتیں شامل تھیں۔ عوامی لیگ کے شامل ہونے کی وجہ سے مولانا بھاشانی کو اس کا سربراہ ، مجیب کو جوائنٹ سیکریٹری اور 1940میں لاہور میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے اے کے فضل حق بھی اس میں شامل ہوئے۔ اس اتحاد نے مشرقی پاکستان اسمبلی کی 237میں سے 223نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ کا صفایا ہوگیا اور صرف 10نشستوں ہی پر کام یاب ہوسکی اور 5نشستیں کمیونسٹوںکوملیں۔
انھوں نے21نکات کی صورت میں جو مطالبات پیش کیے تھے ان کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی میں بنگالیوں کا احساس محرومی کس قدر شدید ہوچکا تھا۔ بنگلہ کو قومی زبان، صوبے کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری اور ملک کے دونوں حصوں کے مابین علاقائی خود مختاری کی بنیاد پر تعلقات، وفاق کے لیے صرف تین شعبے، دفاع، خارجہ اور کرنسی، یہ ان کے نمایاں ترین مطالبے تھے۔
عوامی لیگ بہت بڑی پیمانے پر رائے عامہ کو اپنے حق میں کرچکی تھی جس کی بدولت مغربی بازو میں اپنی اتحادی ریپبلک پارٹی سے مل کر 1954میں حسین شہید سہروردی برسر اقتدار آئے۔ صرف چار ماہ بعدانھیں برطرف کردیا گیا اور وزارت عظمیٰ کے لیے میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہو گیا جس کااختتام ایوب خان کے مارشل لا پر ہوا۔ بدقسمتی سے ایوب خان ذاتی طور پر بنگالیوں کو ناپسند کرتے تھے اور انھیں ''کم تر'' سمجھتے تھے۔ شاید اس کی وجہ انگریزوں کی بنائی گئی مارشل اور نان مارشل قومیتوں کی وہ تقسیم بھی تھی جس میں پختونوں کو جنگجو قوم قرار دیا گیا تھا۔
المیہ یہ ہے کہ اس احساس تفاخر نے حکومتی ترجیحات اور ملک کے دونوں بازوؤں کی تعمیر و ترقی کے لیے وسائل کی فراہمی میں بھی عدم توازن پیدا کردیا۔ شکست و ریخت کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ ایوب خان کے دس برسوں نے مشرقی پاکستانیوں کے احساس محرومی کو مزید گہرا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس کا منطقی نتیجہ 1966میں شیخ مجیب کے چھ نکات کی صورت میں برآمد ہوا۔ دسمبر 1970کے انتخابات اور 24مارچ 1971کو جنرل یحیی خان کی جانب سے اسمبلی کے اجلاس ملتوی ہونے کے بعد پیدا ہونے والے حالات و واقعات کو ایک وار ڈائری کی طرز پر قلم بند کردیا گیا ہے۔
جنرل یحیی اور جنرل حمید، جنرل پیرزادہ، جنرل عمر اور دیگر پر مشتمل ان کے ٹولے نے اس سانحے میں پست کرداری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہاں بھی ذوالفقار علی بھٹو ان سب پر بازی لے گئے۔ حصول اقتدار کے لیے بھٹو کی بے چینی کی وجہ سے مجیب اور یحیی کے مابین ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے حالاں کہ کئی امور پر اتفاق رائے ہوچکا تھا۔
مارچ 1971سے دسمبر تک ہونے والے واقعات انتہائی درد ناک ہیں۔ہر جانب سے ہول ناک زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن جس طرح بنگالی دعویٰ کرتے ہیں کہ تیس لاکھ افراد قتل ہوئے، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
میری رائے میں اس کتاب کا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین اجنبیت اور بیگانگی پیدا ہونے کے کیا اسباب ہوتے ہیں۔ حب الوطنی اور قومی سلامتی پر کسی ایک ادارے یا قومیت کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ وہ پاکستانیوں کے لیے پاکستانیت، قومیت، حب الوطنی یا قومی سلامتی کا مفہوم متعین کرنے کا حق کسی ادارے کو حاصل نہیں۔ اندھے شیشوں والے کالے ڈالوں سے قوموں کی تعمیر نہیں ہوتی۔
اکرام کے والد کا تعلق پنجاب سے تھا اور والدہ بنگالی تھیں، وہ اس دور کے واقعات میں براہ راست شامل بھی رہے لیکن یہ کتاب محض ان کے مشاہدات یا جذبات کی بنیاد پر نہیں لکھی گئی۔ اس میں پوری تحقیق ۔ معروضیت اور شفافیت کے ساتھ اس سانحے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا ہے۔