’’نثار عزیز اور نگہت بٹ‘‘
قلم اور کیمرے سے تعلق رکھنے والے دو اہم فن کار ہم سے جُدا ہو گئے ہیں۔
گزشتہ دنوں بالترتیب قلم اور کیمرے سے تعلق رکھنے والے دو اہم فن کار ہم سے جُدا ہو گئے ہیں، محترمہ نثار عزیز بٹ کی رحلت کی خبر تو مجھے رمیزہ نظامی کی معرفت مل گئی تھی مگر میں اس وقت کراچی کے موہٹہ پیلس والے مشاعرے میں شرکت کے لیے ائیر پورٹ لائونج میں بیٹھا تھا سو اُن کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو سکا مگر نگہت بٹ کے جانے کی خبر تو ملی بھی اس کی رحلت کے کئی دن بعد۔ ان دونوں باہنر خواتین سے تعارف کا سلسلہ گزشتہ چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔
نثار عزیز بٹ سے ذاتی سطح پر تعارف تو اُن کے ڈرامہ نگار اور بیوروکریٹ شوہر اصغر بٹ اور ان کے بڑے بھائی محترم سرتاج عزیز کی معرفت ہوا لیکن پھر وہ اپنے فن اور شخصیت کے حوالے سے ہر طرح کے حوالے سے آزاد اور بالاتر ہوتی چلی گئیں جب کہ نگہت بٹ ''وارث'' کی اُس ٹیم میں تھیں جن میں کام کرنے و الے فن کاروںکے کردار اُن کے اصلی ناموں سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل کر گئے۔
نگہت اُس ڈرامے میں منور سعید (یعقوب) کی بیوی بنی تھیں جو چوہدری حشمت کا شہر میں مقیم بیٹا اور اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا عادی ایک ایسا شخص تھا جو بظاہر بہت مہذب اور بااصول دکھائی دیتا تھا لیکن جس کے نزدیک رشتوں کی قدر و قیمت، جذبات کے بجائے مفادات سے متعین ہوتی تھی جب کہ اُس کی بیو ی یعنی نگہت بٹ ایک نیک دل اور رشتوں کا احترام کرنے والی قدرے معصوم عورت تھی جو اپنے شوہر کی خود غرضی اور خود پسندی کو ناپسند تو کرتی تھی مگر بوجوہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کر پاتی تھی۔
نثار عزیز بٹ بنیادی طور پر ایک فکشن رائٹر تھیں اُن کا تعلق اُس علاقے سے تھا جسے عام طور پر ''فاٹا'' کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جہاں کسی لڑکی کا لکھنا تو ایک طرف ''پڑھنا'' بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا لیکن تمام تر قبائلی اور ثقافتی پابندیوں کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے بھائی سرتاج عزیز کی طرح نہ صرف اپنی قابلیت کا لوہا منوایا بلکہ اُس پورے سماجی روّیئے کے مقابلے میں ایک روشنی کے مینار کی شکل اختیار کر گئیں جس زمانے میں انھوں نے لکھنا شروع کیا اُس وقت خواتین لکھنے والیاں آج کی نسبت بہت کم تھیں۔
حجاب امتیاز علی اور رشید جہاں کے بعد یا اُن کی وجہ سے جو راستہ کھلا اُس میں مختلف حوالوں سے تین بڑے اور اہم نام اپنے روّیوں کے عکاس اور نمایندے ٹھہرے۔ عصمت چغتائی کی بے باکی قرۃ العین حیدر کی فلسفیانہ گہرائی اور اے آر خاتون کی پردہ دار عورتوں کی دبی دبی لب کشائی وہ عناصر تھے جن سے بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی کا نسائی ادب تشکیل پا رہا تھا۔
نثار عزیز بٹ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس پورے منظر نامے کے ہر حصے سے رشتہ جوڑا اور یوں ایک ایسا راستہ بنایا جو آگے چل کر نہ صرف ان سے منسوب ہوا بلکہ اُن کے بعد کی پہچان بھی ٹھہرا۔ اُن کی ہم عصر خاتون لکھاریوں میں بانو قدسیہ، جیلانی بانو اور الطاف فاطمہ سمیت کئی اور اہم خواتین کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے کوئی چار پانچ برس قبل دوحہ قطر کی مجلس فروغ اُردو ادب نے جب انھیں اپنے عالمی ایوارڈ سے نوازا تو اُن کے بارے میں تعارفی مضمون پڑھنے کی ذمے داری مجھے سونپی گئی اور یوں مجھے اُن کی تحریروں کو تفصیل سے ایک ساتھ دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا ،یہ مضمون اب میری کتاب ''سچ کی تلاش میں'' بھی شامل ہے لیکن اس ہم سفری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اُن کی شخصیت کی اُن خوبیوں کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا جس سے بطور انسان بھی وہ اپنی مثال آپ ٹھہرتی رہیں، اس مضمون میں ان کے فن کی گہرائی اور تشہیر سے دُوری کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جس کی طرف ممتاز احمد خان نے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں اشارہ کیا ہے کہ ''کسی بھی ناول نگار کے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ وہ تقریباً ایک ربع صدی کے دوران ذہنی، فکری اور علمی طور سے تخلیق ناول کے عمل سے وابستہ رہے لیکن یہ حقیقت کافی افسوسناک ہے کہ فکشن کے ناقدین نے نثار عزیز بٹ کو وہ مقام نہیں دیا جس کی وہ مستحق تھیں''۔
اُن کے مشہور ناول''نگری نگری پھرا مسافر'' کے ایک کردار ''انگار'' کے بارے میں مرزا ادیب لکھتے ہیں کہ ''اُردو میں بہت کم ایسے ناول لکھے گئے ہیں جنھوں نے ہمیں اس قسم کے عظیم کردار دیے ہوں ''انگار'' جیسا کردار وہی ذہن تخلیق کر سکتا ہے جس کا مشاہدہ بڑا گہرا ہو اور نظر باریک صرف یہی نہیں بکہ وہ اپنے کرداروں کو وہ حرارت اور توانائی بھی دے سکتا ہو جس کے بغیر کردار زندہ کردار نہیں صرف کٹھ پتلیاں بن کر رہ جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں ''انگار'' بیمار جذباتی مگر متوازن دماغ کی لڑکی اُردو ادب میں ہمیشہ سانس لیتی رہے گی''
بانو قدسیہ اور خالدہ حسین کے بعد اب نثار عزیز بٹ کی رخصت یقینا اردو فکشن کے لیے ایک ایسی بڑی محرومی ہے جسے دیر تک محسوس کیا جائے گا۔ میں نے تقریباً پندرہ برس سے ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھنا چھوڑ رکھا ہے اس لیے نہ صرف کئی نئے آنے والے عمدہ اور باصلاحیت فن کاروں سے میری واقفیت محدود ہے بلکہ نگہت بٹ جیسے کئی فنکار فن کے ساتھ میں نے بہت زیادہ کام کیا ہے بھی نظر سے اوجھل سے ہو گئے ہیں۔
رُوحی بانو کے آخری دنوں کی خبریں تو بوجوہ میڈیا میں آتی رہیں اور اُس سے کسی حد تک رابطہ بھی رہا مگر گزشتہ دنوں یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ ہماری ایک بہت بڑی فنکار اور مجھے ذاتی طور پر عزیز ثروت عتیق بھی کئی برسوں سے ذہنی اختلال کا شکار ہے اور بے شمار اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں گونا گوں قسم کے رول کرنے و الی نگہت بٹ اپنے شوہر عابد بٹ کی وفات اور مختلف طرح کی بیماریوں کے باعث ایسی حالت نہیں ہے کہ اُس کے پاس گھر کا کرایہ دینے کے وسائل بھی نہیں ہیں، اُس کی رحلت کی خبر نے جہاں دل کو اداس کیا ہے وہاں بہت سے سوال بھی پھر سے تازہ کر دیے ہیں کہ جو معاشرہ بوقت ضرورت اپنے فن کاروں کو چھت کا سایا اور دو وقت کی روٹی فراہم نہیں کر سکتا وہ کیسا معاشرہ ہے؟
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ فن کاروں کے لیے نہ تو کسی قسم کی سوشل سیکیورٹی کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی اُ ن میں سے زیادہ تر کو اپنے کام کا اتنا معاوضہ ملتا ہے کہ چالیس برس تک مسلسل مصروف رہنے کے بعد نگہت بٹ جیسے فن کار اپنے گھر کا کرایہ تک ادا کرنے سے معذور ہو جاتے ہیں، سرکار نے اس کام کے لیے کچھ کمیٹیاں تو بنا رکھی ہیں جن میں سے کئی ایک کا میں خود بھی ممبر ہوں مگر نہ صرف اس طرح کے وظائف کی رقم بہت کم ہے بلکہ یہ عام طور پر انھیںوقت پر ملتی بھی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں اُن کے علاج معالجے کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
نگہت بٹ ایک بہت محنتی، ذمے دار، بااُصول، وقت کی پابند اور اپنے ہر رول کو پوری توجہ سے ادا کرنے کی عادی تھی۔ وہ بہت ملنسار اور خوش مزاج بھی تھی اور اتنے طویل کیرئیر میں اس کے نام کے ساتھ کوئی اسکینڈل بھی منسوب نہیں ہوا، ایسے اچھے انسان اور محنتی فن کار سے اس طرح کا سلوک روا رکھنا اور اسے اس کسمپرسی کے عالم میں رخصت کرنا یقینا ہم سب کے لیے ایک سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے۔ رب کریم اس کی مغفرت فرمائے اور اُس کے بعد آنے والوں کو ان امتحانوں سے محفوظ رکھے جو کسی بھی طرح سے جائز اور واجب قرار نہیں دیے جا سکتے۔