امریکا کی جنگ کس نے لڑی

پاک فو ج کے ترجمان نے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے متنازعہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے...


Zamrad Naqvi November 21, 2013

پاک فو ج کے ترجمان نے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے متنازعہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ہزاروں پاکستانی شہریوں اور فوجیوںکی شہادت کی توہین کی گئی ہے۔ ترجمان نے امیر جماعت اسلامی سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کے عوام ہوں یا خواص ان پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے ہر شعبہ زندگی اور مکتبہ فکر کے لوگوں کی اکثریت انتہا پسند اور عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیوں کے سخت خلاف ہیں۔ ویسے بھی ایسا ممکن نہیں کہ عوام دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والوں سے محبت کریں۔ سید منور حسن نجانے کیسے حقائق کو نظر انداز کر گئے۔ جماعت اسلامی کو اس بیان سے سیاسی طور پر خاصا نقصان پہنچے گا۔ 2013 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو سوائے خیبر پختونخوا کے کہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی' پنجاب میں جماعت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا' سندھ کی بھی یہی صورت حال رہی' کراچی جہاں کبھی جماعت اسلامی بہت اہم سیاسی جاعت رہی ہے' وہاں بھی اسے ماضی جیسی مقبولیت حاصل نہیں رہی' اب امیر جماعت کے حالیہ متنازعہ بیان اور پاک فوج کے ردعمل سے اسے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امیر جماعت اسلامی کے بیان کے بعد اہم قدم وزیر اعظم نواز شریف نے اٹھایا۔ انھوں نے بنفس نفیس جی ایچ کیو ہیڈ کوارٹرز پہنچ کر شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بعض رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے حالیہ بیانات سے ہمارے فوجی جوانوں کے دل دکھے ہیں لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پوری قوم آپ کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوںکا نذرانہ دینے والے شہدا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اپنے اس بیان کے ذریعے نواز شریف نے بہت کچھ واضح کر دیا لیکن کاش وہ دہشت گردی کی جنگ اور دہشت گردوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کا نام بھی لے لیتے جس کی وجہ سے پوری قوم ذہنی انتشار اور خلجان کا شکار ہے۔

دہشت گردوں کے چہرے سے نقاب ہٹ جاتی۔ شاید ان کے خیال میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ اس کاوقت اس وقت آئے گا جب طالبان سے مذاکرات اپنے منطقی انجام سے دو چار ہو چکے ہوں گے لیکن افسوس کہ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔1980ء کی دہائی میں جماعت اسلامی' جمعیت علمائے اسلام اور دوسری مذہبی جماعتیں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہی تھیں۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے کیا کھویا کیا پایا وہ بھی آج ہر ایک کے سامنے ہے۔افغانستان بھی تباہ ہوا اور پاکستان کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔ نہ کشمیر آزاد ہوا نہ دہلی کریملن اور واشنگٹن پر اسلام کا جھنڈا لہرایا جس کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اگر اس امریکی جنگ کے نتیجے میں کسی کو فا ئدہ ہوا تو وہ امریکا ہی تھا کہ وہ اس جنگ کے نتیجے میں پوری دنیا کا بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گیا۔

لاکھوں افغان اور پاکستانی مسلمان اس امریکی جنگ میں مارے گئے، دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں مسلمان بھی مارے گئے جب کہ امریکا کا ایک فوجی بھی مارا نہیں گیا۔اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس جنگ میں امریکا کی ''سرمایہ کاری'' اربوں ڈالر میں تھی جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں منشیات کی فروخت سے حاصل کی گئی۔منشیات کی اس تجارت نے پاکستان میں نوجوانوں کا جو حال کیا ہے، اس کا احوال بھی سب جانتے ہیں، علاوہ ازیں سوائے ایران کے مشرقی وسطیٰ کے تمام تیل کے ذخائر امریکا کے قبضے میں آ گئے' یہاں تک کہ سامراج کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی۔عراق برباد ہوا، صومالیہ میں امن غارت ہوا، لیبیا میں سٹسم تباہ ہوگیا، شام اوریمن خانہ جنگی کا شکار ہیں۔

آج پاکستانیوں کو طعنہ دینے والے کہ وہ امریکی غلام ہیں ذرا یہ تو بتائیں کہ ان کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے !!! جب وہ امریکیوں سے ڈکٹیشن لے کر افغانستان کی جنگ میں امریکی مقاصد کو آگے بڑھا رہے تھے جس میں افغان اور پاکستانی طالبان کے رہنماؤں کے علاوہ پاکستان کی تمام بڑی مذہبی جماعتیں اور ان کے سربراہ شریک تھے۔ سابق امریکی صدر ریگن سے یہ جملہ منسوب ہے کہ افغان مجاہدین کا رتبہ امریکا کے بانیان کے ''مساوی'' ہے۔

ریگن نے ان کی تعریف کیوں کی کہ طالبان اور مذہبی جماعتوں نے لاکھوںمسلمانوں کو مروا کر پوری دنیا پر امریکا کی بادشاہت قائم کرا دی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان گروہوں' جماعتوں کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ مسلمانوں کی ہولناک تباہی و بربادی کو پیش نظر رکھیں۔ اس کا فیصلہ مسلم دنیا خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں نے کرنا ہے جس کے نتیجے میں یہ پورا خطہ امریکی غلامی میں چلا گیا۔ رہے۔ نام اللہ کا۔

جنوری' فروری 14ء بتائے گا کہ طالبان کے خلاف آپریشن کب ہو گا۔
نومبر کا آخر اور دسمبر کا شروع پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں