انتونیو صاحب مسئلہ کشمیر ہمارے لیے زیادہ اہم ہے

انتونیو گوٹیریس کی تمام تر توجہ افغانستان کے مسئلے پر ہے، مسئلہ کشمیر پر تو انہوں نے ذرا سی رسمی گفتگو ہی کی ہے


ضیا الرحمٰن ضیا February 19, 2020
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے پاکستان کا سہ روزہ دورہ کیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے پاکستان کا سہ روزہ دورہ کیا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان عالمی سطح کے دو اہم مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پہلا مسئلہ افغانستان کا ہے، جہاں امریکی افواج بڑی تعداد میں تعینات ہیں اور اب امریکی اپنی افواج کا افغانستان سے انخلا چاہتے ہیں۔ جس کےلیے انہیں پاکستان کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔

جیسے فوج کے افغانستان میں داخلے کےلیے پاکستان کی اشد ضرورت پڑی تھی اور پاکستان کو ڈرا دھمکا کر پاکستان سے تعاون حاصل کیا تھا۔ اب حالات ذرا مختلف ہیں۔ اسلیے پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے خوشامد کے ذریعے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ تو چونکہ امریکا کا اپنا ہے، اس لیے وہ جیسے تیسے اس مسئلے کو حل کر ہی لے گا۔ اس کےلیے اسے پوری دنیا کی حمایت بھی حاصل ہوجائے گی اور وہ طالبان کو بھی راضی کر ہی لے گا۔ پاکستان تو ویسے بھی ہر طرح کے تعاون کےلیے ہمہ وقت تیار ہے۔

ہمارے لیے زیادہ بڑا مسئلہ 'کشمیر کا مسئلہ' ہے۔ جہاں بھارتی افواج موجود ہیں اور بھارت ان کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ مسئلہ فقط پاکستان اور کشمیریوں کا ہے۔ اس لیے یہ ہمارے لیے نہایت پریشان کن مسئلہ ہے۔ اگر ہم مسئلہ کشمیر کو بھارت کا مسئلہ قرار دیں تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ بھارت نے تو بھاری تعداد میں فوج کشمیر میں تعینات کرکے وہاں قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کےلیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہم سے کشمیر حاصل نہیں کرسکتا، جبکہ اقوام متحدہ میں جانا یا عالمی برادری کو پکارنا بھی پاکستان کےلیے بے سود ہوگا۔ کیونکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کا ہے اور عالمی برادری امت مسلمہ کے مسائل پر توجہ نہیں دیتی، جبکہ اقوام متحدہ کی تو تخلیق کا مقصد ہی صرف غیر مسلموں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ UNO کا مطلب United Nations Organization نہیں، درحقیقت اس کا مطلب United Non-Muslims Organization ہے، جو فقط غیر مسلموں بالخصوص چند بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ہمارے اس بیانیے کو ثابت کرنے کےلیے اس ادارے کی تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔

اب جبکہ انتونیو صاحب پاکستان کے دورے پر ہیں، تب بھی ان کے بیانات دیکھ لیجیے۔ وہ پاکستان کے انہی دو مسائل پر گفتگو کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن اگر ان کی گفتگو پر ذرا گہری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی تمام تر توجہ افغانستان کے مسئلے پر ہے۔ مسئلہ کشمیر پر تو انہوں نے ذرا سی رسمی گفتگو ہی کی ہے۔ ہمارے رہنماؤں خاص طور پر آرمی چیف نے ان سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر پر بات کی۔ ان کی اپنی توجہ کا مرکز مسئلہ افغانستان ہے، اس لیے کہ اس کے ساتھ امریکا کے مفادات وابستہ ہیں اور اقوام متحدہ تو اسی کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر ان کی نظر میں کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ پہلے تو اسے عالمی سطح پر متنازعہ علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب سے بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دیا، تب سے اقوام متحدہ اور پوری دنیا سے یہ بیانات آرہے ہیں کہ دونوں ممالک خطے میں کشیدگی کو کم کریں یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت کشمیر میں ظلم و ستم بند کرے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ کشمیر میں رائے شماری کی جائے اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا خودمختار رہنا چاہتے ہیں۔ کشمیر میں رائے شماری کرانے کا مطالبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ بیان بھی حیران کن ہے جس میں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کشیدگی کو کم کریں۔ اس لیے کہ پاکستان نے کب کشیدگی کو ہوا دی ہے؟ یہ تو بھارت ہی ہے جو آئے روز ایل او سی پر واقع پاکستانی فوجی چوکیوں اور آبادیوں پر حملے کرتا رہتا ہے۔ کیا اپنا دفاع بھی کشیدگی میں اضافہ کرنا کہلاتا ہے؟ اب پاکستانی فوج بھارتی حملوں کا جواب بھی نہ دے تو پھر کیا خاموشی سے بھارت کو آزاد کشمیر میں بھی گھسنے کا موقع فراہم کردے؟ یہ ان کی بھارت نوازی ہی ہے کہ وہ براہ راست بھارت کو تنبیہ نہیں کرتے کہ پاکستان اتنے تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے لہٰذا تم بھی اپنی شرارتوں سے باز آجاؤ، ورنہ اقوام متحدہ کے فیصلے بھی تمہارے خلاف ہوں گے اور دنیا بھی تمہارے خلاف کھڑی ہوجائے گی۔

حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت نے خطے کا امن تباہ کر رکھا ہے۔ وہی ایٹمی جنگ کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے اور پاکستان کو چند سیکنڈ میں ختم کرنے کی بڑھکیں بھی مار رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے ہر موقع پر امن کی رٹ لگائے رکھی۔ اسی امن کی خاطر کشمیر بھی گنوا دیا۔ اس کے باوجود جب بھی تنبیہ کرنے کی باری آتی ہے تو پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہی تنبیہ کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کو کم کریں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے گریز کریں۔ یہی تو اقوام متحدہ کی غیر مسلموں کے مفادات کے تحفظ کی پالیسی ہے۔

پاکستانی قیادت کو چاہیے تھا کہ سیکریٹری جنرل کی توجہ مکمل طور پر مسئلہ کشمیر پر مرکوز رکھنے کی کوشش کرتے۔ وہ جہاں بھی جاتے ان کے سامنے کشمیر کی ہی بات کی جاتی۔ مسئلہ افغانستان پر ہمیں زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ وہ امریکا کا ذاتی مسئلہ ہے، وہ اسے حل کرکے ہی رہے گا۔ اگر نہیں کرے گا تو طالبان حل کرالیں گے۔ ہمیں کشمیر پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ہر حال میں کشمیر پر بات چیت کریں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری کو ایل او سی کا ایک جاندار دورہ بھی کراتے۔ جہاں وہ خود صورت حال کا مشاہدہ کرلیتے۔ وہاں کے رہائشیوں سے ملاقاتیں کرتے۔ وہاں کے عوام میں خوف و ہراس دیکھتے۔ وہاں بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے متاثر ہونے والے درودیوار کا مشاہدہ کرتے، تاکہ انہیں اچھی طرح یقین آجاتا کہ واقعی بھارت کی طرف سے زیادتیاں ہورہی ہیں۔ پھر ان سے عہد لیتے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کےلیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عمل کرائیں گے اور کشمیریوں کو بھارتی ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں