عشق و عاشقی کے رشتے
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ بھارت کے علاوہ دوسری طرف ہمارے جگری دوست چینی ہیں جو ہر مشکل میں ہمارے مد دگار ہوتے ہیں۔
پاکستان کے دورے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان واپس ترکی پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں قیام کے دوران انھوں نے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے تبادلہ خیالات کے علاوہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا جس میں انھوں نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ پاکستان کو وہ اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور ان کا پاکستان کے ساتھ مفادات کا نہیں عشق کا رشتہ ہے۔
انھوں نے کشمیر کے مسئلے کو اپنا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی حیثیت ان کے لیے وہی ہے جو پاکستان کے لیے ہے یعنی انھوں نے واضح الفاظ میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کو نہ صرف دہرایا بلکہ اپنی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا۔ رجب طیب اردوان اس ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نسل نے اپنے بزرگوں سے برصغیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی میں دی گئی قربانیوں کی داستانیںاپنے کانوں سے سنی ہیں اور ان کو فراموش نہیں کیا ہے، ان کے دلوں میں آج بھی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے احترام اور محبت موجزن ہے۔
یہ بات الگ ہے کہ ماضی میں ترک خاتون اول نے اپنے گلے میں پہنا ہوا ہار اتار کر پاکستان کی خاتون اول کے سپرد کر دیا تھا، دراصل اس محترم خاتون نے برصغیر کی اپنی مسلمان بہنوں کی جنگ آزادی میں دی گئی ان قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی تھی جب برصغیر کی خواتین نے اپنے زیور اتار کر خلیفہ کی مدد کے لیے ترکی بھجوائے تھے تا کہ ان کو بیچ کر سامان حرب خریدا جا سکے لیکن بعد میں اس ہار کو ہماری ایک خاتون اول نے اپنے گلے کا ہار بنا لیا جس کو بعد میںان کے گلے سے بمشکل اتار کر سرکاری توشہ خانے میں جمع کرایا گیا۔
بات شروع کرنا چاہ رہا تھا کہ ترک صدر نے کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے جس پر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی آگ بگولا ہو گئے اور انھوں نے کشمیر میں اپنے غاصبانہ اور غیر قانونی اقدامات پر ڈٹے رہنے کا سخت موقف اپنایا ہے اور ترکی کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ دنیا کو یہ معلوم ہے کہ بھارتی ہمارے تاریخی دشمن ہیں، ایک طرف ہمارے مذہبی بھائی ترک ہیں جن کی سرحدیں تو ہم سے بہت دور ہیں لیکن دل ملتے ہیں اور ان دلوں کا حال ترک صدر نے خوب بیان کیا ہے بلکہ ان کے بیان نے بھارتی صفوں میں آگ لگا دی ہے ۔
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ بھارت کے علاوہ دوسری طرف ہمارے جگری دوست چینی ہیں جو ہر مشکل میں ہمارے مد دگار ہوتے ہیں ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ہمسائیوں میں سے کس کو کتنی فوقیت دیتے ہیں۔ ہمارے سفارتکاروں اور حکمرانوں پر یہ دن مشکل کے ہیں کیونکہ ہمیں امریکا نے الجھا رکھا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان چینی مصنوعات اور چین کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرے اور چین پر اپنا انحصار کم کرے۔ خطے میں اس مشکل صورتحال میں پاکستان کے لیے چین کے علاوہ ترک بھائیوں کی حمایت کسی خدائی مدد سے کم نہیں ہے کہ اسلامی دنیا میں کوئی تو ہے جو پاکستان کی کھلا کھلم حمایت پر کمر بستہ نظر آتا ہے۔
دنیا میں موجود دوسرے مسلمان ممالک کا رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ پاکستانی سادہ لوح جذباتی قوم ہیں جن کے لیے دوستی سے زیادہ مقدم کوئی چیز نہیں، ہمسائیہ ممالک میں چینی دوستی ہم پر لازم ہے تو سمندر پار ترک بھائیوں سے ہمارا رشتہ اس سے بھی بہت پرانا ہے ۔ چین نے آج تک جس طرح یہ دوستی نبھائی ہے وہ ملکوں کی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے اور بھارت جیسے کمینے ہمسائے کی موجودگی میں اس عجوبے کی سلامتی پاکستان کی سلامتی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو جو خارجہ امور کے اسرار و رموز کو جانتے تھے، ایک دن کہنے لگے اور یہ دن ان پر بڑی مشکل کے دن تھے، ایوب خان نے انھیں وزارت سے نکال دیا تھا اور وہ کچھ زیادہ ہی غم غلط کرنے لگے تھے۔
انھوں نے پنڈی کلب میں اپنے ایک ہم نشین سے کہا کہ تم خود اور تم اپنے آنے والوں کو بھی بتا دینا کہ کچھ بھی ہو جائے چین سے دوستی ہر حال میں قائم رکھنا، چین ناراض بھی ہو تو اسے ہر قیمت پر منا لینا، منت سماجت کر لینا مگر دوستی کا رشتہ ٹوٹنے نہ دینا۔ پاکستان کے لیے چین سے دوستی رکھنا اس کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ہے اور بھٹو مرحوم کی یہ بات ہم نے بارہا سچ ہوتے دیکھی ہے ۔ بھٹو صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ بھار ت سے مسلسل محاذ آرائی میں ہماری زندگی ہے اور سچ کہتے تھے ۔
ایک اور بات بھی یاد آ رہی ہے کہ یحییٰ خان کے دور میں ہم عالمی مالیاتی اداروں کے نادہندہ ہو گئے تھے جب ان کے بعد بھٹو کی حکومت آئی تو یہی صورتحال قائم تھی اور نئی حکومت نے بھی قرضہ کی قسط ادا نہیں کی تھی۔ ڈاکٹر مبشر حسن جو اس حکومت کے وزیر خزانہ تھے بتاتے تھے کہ ایک دن اس کے پاس چین کا سفیر ملنے آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس پاکستان کی بہت رقم پڑی ہے جس کی کوئی لکھت پڑھت نہیں ہے، ہم اس کا کیا کریں۔
ڈاکٹر صاحب کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، انھیں اس کا پس منظر معلوم نہیں تھا ۔ انھوں نے بات ٹالنے کے لیے کہا کہ آپ کے پاس رقم رکھی ہو یا ہمارے پاس ایک ہی بات ہے، اس کے بعد انھوں نے سیکریٹری خزانہ کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ چینی سفیر کیا کہتا تھا۔ سیکریٹری نے بتایا کہ نا دہندہ ہو جانے کے بعد ہمیں خطرہ تھا کہ ہماری رقم کہیں ضبط نہ کر لی جائے چنانچہ ہم نے اپنی تمام رقم چین کے پاس رکھوا دی۔ یہ رقم دستی دی گئی تھی جس کی کوئی تحریر وغیرہ نہیں تھی۔ یہ ان لاتعداد واقعات میں ایک سے ایک واقعہ ہے جب چین کو ہم نے اور چین نے ہمیں اپنا عزیز اور قابل اعتبار دوست جانا۔
بھارتیوں کے ساتھ تو تعلق اس قدر ناپائیدار ہے کہ نریند مودی کی پاکستان آمد اور اپنی خوشامد کو بھارت پہنچتے ہی بھول گئے تھے۔ ہمارے دوست چینی ہوں یا ترک وہ ہماری اس سادہ لوحی پر ہمیں دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں ۔ مجھے معلو م نہیں ہمارے حکمرانوں یعنی پاکستان کے نفع نقصان کے ذمے داروں کو صورتحال کی نزاکت کا احساس ہے یا نہیں لیکن ایک بات ہے کہ دو قوموں کے باہمی تعلقات کی نزاکتوں کو کاروبار کے ترازو پر نہیں تولا جا سکتا جس کا اظہار ترک صدر نے بر ملا کیا کہ ان کی دوستی مفادات کی نہیں بلکہ عشق کی دوستی ہے ۔
بہرکیف پاکستان کی قسمت میں جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور ہوتا رہے گا، دنیا کے بااثر حکمران پاکستان آتے رہیں گے کیونکہ پاکستان ایک عام سا ملک نہیں ہے، اس کا جغرافیائی محل وقوع ہی بہت اہم تھا، اس پر ایٹمی طاقت نے اسے ایک بہت بڑا ملک بنا دیا ہے۔ خدا کرے پاکستانی بھی اتنے بڑے ہو جائیں تا کہ عشق و عاشقی کے رشتے نبھا سکیں۔