ایک دُھتکارا ہوا جیون

قصہّ ایک عظیم انسان کا، جو اس سماج کا ہیرو بن کر سامنے آیا جس نے اسے کچلا تھا


قصہّ ایک عظیم انسان کا، جو اس سماج کا ہیرو بن کر سامنے آیا جس نے اسے کچلا تھا

زندگی مُشکلات میں گھری ہوئی ہے، سُکون نہ قرار، بس ہر پَل اذیّت سے بھرا ہوا۔ جیون ہے کیا ہے یہ۔۔۔۔۔ ؟ ایک مُشکل سے بہ صد کوشش نکلتے ہیں تو دوسری سامنے کھڑی منہ چڑھا رہی ہوتی ہے، کچھ نہیں بچا، بس دُکھ ہی دُکھ ہیں، کَرب سے بھری ہوئی زندگی، کوئی کسی کا نہیں جی، ہر ایک اپنے پسینے میں ڈوبا ہُوا کرّاہ رہا ہے، اور کسے کہتے ہیں نفسانفسی، عسرت بھری زندگی۔ کسی کو دھن گننے کی فرصت نہیں اور کوئی عسرت و مفلسی کا مارا دھیلے کوڑی کو ترس گیا ہے، کیا ہے یہ سب کچھ، اور جب بالکل ہی مایوس ہوجاتے ہیں تو اس کا حل یہ نکالتے ہیں کہ اس سے تو موت ہی بھلی، لیکن پھر کوئی سوال اٹھاتا ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔۔۔۔۔ ؟ تو دانتوں تلے انگلی داب سوچ کے ساگر میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو عیش و عشرت بھری زندگی گزارنے والے بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں، ہاں ان کے الفاظ ضرور مختلف ہوں گے لیکن رونا ان کا بھی یہی ہے۔ لیکن کیا یہ جیون آج کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔؟

نہیں معلوم، آپ سلجھائیے اس گتھی کو، اور بُوجھیے یہ جیون پہیلی۔ فقیر تو کچھ نہیں جانتا جی، بس اتنا ہی!

گلہ نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا

یہی جو ہے، یہی ہوگا، یہی رہا ہوگا

ایک دن فقیر اور اس کے سنگی ساتھیوں نے اپنے بابا جی حضور کے سامنے یہی پہیلی رکھی تھی تو یاد ہے، بہت اچھی طرح سے کہ مسکرائے اور خاموشی اختیار کی۔ سب تو صابر تھے اور شانت کہ نوازے گئے تھے اس نعمت سے لیکن فقیر عجلت کا مارا، بے صبرا، بے علم و بے عمل، احمق و نادان اصرار کرتا رہا کہ خاموش کیوں ہیں، بتائیے ۔۔۔۔ ؟

اور جب ان کی خاموشی طویل ہوگئی تو فقیر کمّی کمین بول پڑا تھا، نہیں معلوم تو یہی کہہ دیجیے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ خاموشی عالم کا وقار اور جاہل کا پردہ رکھتی ہے، لیکن فقیر جیسے کو کیا کہا جائے کہ بس بے سر و پا بلاتکان بولتا چلا جاتا ہے، سچ یہ ہے کہ جو اندر سے خالی ہو ناں تو وہ فقیر کی طرح بلا سوچے سمجھے بولتا رہتا ہے اور اس فریب میں مبتلا کہ اس کی چرب زبانی علم ہے، آگہی ہے، رب تعالٰی رحم و کرم فرمائے۔

وہ دن تو گزر گیا اور بابا جی حضور خاموش رہے لیکن دوسرے دن خود ہی فقیر سے ہم کلام ہوئے اور پوچھا: تم جیون پہیلی کو بُوجھ سکے ۔۔۔۔ ؟ نہیں تو بابا جی! کچھ سمجھ نہیں آیا۔ یہ سن کر انہوں نے فقیر کے کاندھے پر پیار بھرا ہاتھ رکھا اور فرمایا: کب تک ایسا ہی رہے گا تُو پگلے! اتنی آسان جیون پہیلی بھی نہیں بُوجھ پایا، دیکھ اگر جیون سے مُشکلات نکال دیں تو کچھ باقی نہیں بچے گا، یہ مُشکل ہی تو جیون پر اُکساتی ہے، یہ دُکھ ہی تو سُکھ کو جنم دیتا ہے۔

بے قراری سکون کو جنم دیتی ہے، یہ مشکلات، دُکھ، کرب، بے قراری سب کچھ جیون کو جیون بناتے اور اسے آگے کی سمت رواں رکھتے ہیں، یہ نہ ہوں تو سمجھ لو کہ زندگی بھی نہ ہو، یہ سب کچھ زندگی کے لوازمات ہیں، اگر کوئی یہ چاہے اور وہ کتنا بڑا رئیس ہی کیوں نہ ہو کہ اس کی زندگی سے یہ سارے روگ نکل جائیں تب بھی نہیں نکلتے۔ تو پگلے بس یہی ہے پوری اور بھرپور زندگی جس میں یہ سب کچھ ہو، ورنہ تو جیون کچھ بھی نہیں، موت ہے اور مرے ہوؤں کی جگہ دنیا نہیں قبرستان ہے۔

جی بہت طویل تھی وہ نشست، چلیے سِرا تو آپ کو فقیر نے پکڑا دیا ہے، اب آپ اس ڈور کو خود سلجھائیے اور اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ جیون پہیلی کو بُوجھ لیں گے اور یقین جانیے، چاہے کچھ ہوجائے مسکرائیں گے۔

آج کل انڈیا میں مودی جیسے فاشسٹ لوگوں کا گروہ حکم راں ہے، کہنے کو تو وہاں جمہوریت ہے لیکن ہے کیا ۔۔۔۔ ؟ سبھی جانتے ہیں یہ جُھوٹ تو۔ مودی سرکار نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے، اس سے پہلے ننگ انسانیت مودی ٹولے نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تمام اصولوں، قاعدے قوانین، اقوام متحدہ، اور کیسی اقوام متحدہ کہ وہ تو اوّل دن سے عالمی ساہوکاروں کی زرخرید لونڈی بنی ہوئی ہے، لیکن چلیے اسے بھی رہنے دیجیے، کی قراردادوں کو بھی کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا اور عالمی احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے تمام تر حقوق کو جبراً غصب کرتے ہوئے پورے کشمیر کو کال کوٹھری میں بدل دیا ہے جو کئی ماہ ہوئے جاتے ہیں ہنوز ایک بدترین جیل ہے اور اس کے نہتّے اور مظلوم مسلمان قیدی بنا لیے گئے ہیں۔

ایسے قیدی جن کا اس دور جدید میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے کہ وہاں آخر وہ کس حال میں ہیں۔ مودی ٹولے نے اسی پر بس نہیں کی اور پھر اچانک ہی وہ وہاں شہریت کا کالا قانون لے کر آگئے ہیں جو سراسر مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھنے یا پھر انہیں دیس نکالا دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کالے قانون کے خلاف پورے انڈیا میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں لیکن مسلم خواتین بازی لے گئی ہیں اور وہ اس تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔ دلّی کا شاہین باغ ان کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لیکن دیکھیے اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں رب کی دھرتی پر، اچھے اور بھلے لوگوں سے دنیا خالی نہیں رہی کبھی بھی نہیں کہ وہاں کے انسان دوست ہندو، سکھ، مسیحی، جین، بدھ اور تو اور دہریے بھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اور ان کا ساتھ نبھا رہے ہیں کہ ہم ایسے کالے قانون کو کبھی نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ آپ تو باخبر ہیں جانتے ہی ہوں گے، آج کی برق رفتار دنیا میں بھلا کیا بات چھپی رہ گئی ہے۔ لیکن ہم تو جیون کتھا جی مشکلات بھری زندگی پر بات کر رہے تھے ناں تو اسی پر رہتے ہیں۔ یہ جو انڈیا کا ذکر بیچ میں آگیا تو اس کا جواز بھی بتائے گا فقیر۔

وہ بھی ایک بھارتی ہی تھا جو 14 اپریل 1891ء کو مہار ذات کے ایک غریب خاندان میں مہاؤ، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوا۔ اس لڑکے کے والد کا نام رام جی اور والدہ کا نام بھیما بائی تھا۔ عجیب جیون تھا اس بچے کا اور اسی کا کیا اس ذات کے تمام لوگوں کا ہی کہ جن کا جیون صرف اذیّت تھا اور اذیّت بھی کوئی ایسی ویسی۔ نہیں جی ان کی تکالیف، دکھوں، مسائل اور مجبوریوں کو بیان کرنے کے لیے موجودہ الفاظ اور جملے کفالت نہیں کرتے، ان کے لیے الگ سے کوئی لغت ترتیب دینا ہوگی۔ اونچ نیچ، چھوت چھات کا شاہ کار سماج، جسے سماج کہنا اس کی بدترین توہین ہے، لیکن کیا کریں، دھرتی رب کی ہے کہ وہی خالق ہے سب کا، وہی مالک ہے سب کا، وہی رب ہے سب کا۔ لیکن ان فرعون صفت انسان صورت شیاطین کا کیا کیجیے کہ وہ زمین پر خدا بن کر بیٹھ گئے اور مظلوم انسانوں کی زندگی اجیرن کر بیٹھے ہیں۔

اُس لڑکے کے من میں سمائی کہ وہ پڑھے گا، لیکن کہاں ۔۔۔۔ ؟ یہی اصل سوال تھا جس کا جواب ندارد۔ لیکن دُھن کے پکے اس لڑکے نے آخر اپنے باپ کو قائل کر ہی لیا تھا کہ وہ اسے کسی مکتب میں داخل کرائیں۔ مفلس اور دُھتکارے ہوئے انسان اس کے والد نے اپنی سی پوری کوشش کی لیکن کوئی اسے داخلہ دینے پر آمادہ نہ تھا۔ انسان کوشش جاری رکھے تو کچھ امید پیدا ہو ہی جاتی ہے تو ایک دن ایک اسکول کے ماسٹر صاحب نے کچھ شرائط کے ساتھ داخلے کی حامی بھرلی۔ اور وہ شرائط کیا تھیں، وہ اپنا ٹاٹ خود لائے گا، سب بچوں سے الگ ہوکر دُور بیٹھے گا، انہیں بہ راست نہیں دیکھے گا اور ان سے بات تو بالکل بھی نہیں کرے گا اور خاموشی کو بچھونا بنائے رکھے گا اور اس جیسی کئی شرائط۔ مجبور باپ نے ہر شرط مان لی تھی اور یوں وہ مکتب جانے لگا جہاں اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اسکول میں نل سے پانی پینے کی اسے اجازت نہ تھی اور گاؤں کے کنویں سے بھی پانی پینا ممنوع تھا۔

پانی پینے کے لیے اسے دو میل پیدل جانا پڑتا تھا۔ اونچی ذات کے دوسرے لڑکے اس سے شدید نفرت کرتے تھے۔ اس کا ہر پَل تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ اسے زدوکوب کیا جاتا اور اسے احتجاج تو دُور رونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ عجیب جیون تھا اس کا کہ جب کسی گلی سے گزرتا تو گلے میں گھنٹی باندھ لیتا تاکہ اونچی ذات کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیں اور وہ گزر سکے۔ کوئی حجام اس کے بال تراشنے کو تیار نہ تھا، یہ سب کام وہ خود یا اس کی بہنیں کردیا کرتی تھیں۔

ایک دن وہ ایک حجام کے پاس اپنے بال ترشوانے پہنچا، اس سے اتنا بڑا جرم سرزد ہوگیا تھا کہ پھر کیا تھا حجّام سمیت ہجوم نے اسے گھیر لیا اور اسے حجام کے پاس اپنے بال ترشوانے کی جرات کی سزا دی گئی اور اسے لہولہان کردیا۔ مکتب میں بھی ایک دن ماسٹر صاحب نے ایک امتحان لیا جس میں اونچی ذات کے بچے ناکام ہوگئے تھے اور بس وہی کام یاب ہوا تھا، مکتب میں چھٹی کے بعد اسے لڑکوں نے گھیر لیا اور پھر وہ تشدد کیا کہ وہ اپنی کٹیا تک پہنچنے سے بھی قاصر تھا۔ جتنا ظلم بڑھتا گیا اس لڑکے کا صبر اور عزم و ہمّت بھی بڑھنے لگی اور ان تمام مظالم کا سامنا کرتا رہا۔ ا

ن بدترین حالات میں بھی وہ ہر جماعت میں نمایاں اور امتیازی کام یابی حاصل کرتا چلا گیا۔ اس ذلّت بھرے مشکل جیون کے باوجود وہ کالج جا پہنچا تھا اور پھر وہ اپنی محنت و لگن سے الفنسٹن کالج کا سب سے پہلا دلت گریجویٹ بنا۔ اس نے حالات کے قدموں میں گرنا نہیں سیکھا تھا اور اس نے اپنی راہ خود نکالی تھی۔ مشکلات کا ہر سنگ میل اسے سفر کرنے سے نہیں روک سکا تھا اور ایک دن وہ اسکالر شپ ملنے پر وہ وکالت پڑھنے لندن پہنچ گیا۔ اس کا سفر جاری رہا اور وہ لندن سے امریکا کی کولمبیا یونی ورسٹی چلا گیا جہاں سے اس نے اقتصادیات میں ماسٹر اور 1923 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

اس کے بعد وہ پھر لندن جا پہنچا اور لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی دوبارہ کیا۔ اس کے بعد اس نے انڈیا کا رخ کیا اور ممبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ وہ اپنے مؤکلوں کو ہمیشہ کہتا تھا اپنے جھگڑے عدالت سے کراؤ گے تو بہت خرچ آئے گا اگر خود اپنے جھگڑے نپٹاؤ گے تو مفت میں کام ہو جائے گا۔ اس کا کہنا تھا اگر آپ کسی معاشرے کو ترقی پذیر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تعلیم کو عام کرنا ہوگا، تعلیم امتیازات و افتراق کا استحصال کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں استحصال کم سے کم ہوتا جاتا ہے ان بالا دست طبقات کی بالادستی خود بہ خود ختم ہوجاتی ہے، جو بے علم عوام کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔

اس نے اپنا جیون سدھانے کے بہ جائے اپنے جیسے مظلوم انسانوں کو ذلت کے جہنم سے نکالنے اور ان کی آواز بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے مراٹھی زبان میں ایک ہفت روزہ اخبار نکالا اور اس کا نام ''لوک نایک'' (گونگے لوگوں کا لیڈر) رکھا۔ اس نے اپنے جیسے مظلوموں کی فلاح و بہبود اور ان کی قانونی جنگ لڑنے کے لیے ''جنتا'' نامی اخبار بھی نکالا۔ پسے ہوئے دلت جن کا حق چھین لیا گیا تھا، کے لیے کئی ایسے اسکول کھولے جس میں ان کی اقامت بھی تھی، جن کا تمام خرچ وہ اٹھاتا تھا۔ اس نے سیاسی جنگ لڑنے کے لیے ایک نئی پارٹی بنائی۔

1930ء میں دلتوں کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے خلاف غیرمتشددانہ مزاحمت کے ذریعے سماجی اور سیاسی اصلاح کی تحریک برپا کی۔ وہ چھوت چھات اور تحقیر سے اتنا بددل ہوگیا تھا کہ اس نے ہُندو مت سے بغاوت کی اور مہاتما گوتم بدھ کا پیروکار بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے لاکھوں پیروکار بھی بدھ مت میں داخل ہوئے۔ وہ ان سب کا نجات دہندہ تھا۔

وہ گورنمنٹ لاء کالج میں پروفیسر رہا۔ 1926 سے 1937ء تک وہ مہاراشٹر اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور دلتوں کے نمائندے کے لیے حیثیت سے '' آزاد لیبر پارٹی'' کی بنیاد رکھی۔ 1942 میں شیڈیولڈ کاسٹ کی فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ 1942 سے 1946ء تک وہ اس کا کرتا دھرتا اور سرگرم قائد رہا۔ برصغیر پاک و ہند کی برطانوی استعمار سے آزادی میں وہ پیش پیش تھا۔

موہن داس گاندھی کی قیادت میں انڈیا کی آزادی کے بعد نئے ملک کا آئین بنانا مشکل ترین کام تھا جو موہن داس گاندھی نے اسے سونپ دیا اور اس نے انتہائی سوچ بچار اور گفت شنید کے بعد انڈیا کا آئین تیار کیا جو آئین ساز اسمبلی سے 26 جنوری 1950 کو منظور کرلیا گیا۔ اس طرح وہ انڈین آئین کا معمار بنا۔ آئین منظور ہونے سے ایک دن پہلے اس نے آئین ساز اسمبلی میں کم زور طبقوں، دلتوں اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کہا تھا: ''ہمیں ان بے کس اور بے سہارا لوگوں کے لیے بھیک نہیں برابری چاہیے۔ ہمیں خیرات نہیں چاہیے۔'' ہال تالیوں سے گونج اٹھا، تو ایک ممبر نے بہ آواز بلند کہا تھا: '' جب آنے والی نسل ان الفاظ کو دہرائے گی تو انہیں وہ یاد آئیں گے، جنہوں نے ایک روندے ہوئے طبقات کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ تہذیب کو ایک عنوان دیا، خودداری کے جذبے پیدا کیا، دلتوں کو عزت سے نہ صرف جینا سکھایا بل کہ مرنا بھی۔''

بھارت کا آئین بنا کر اس نے اپنی ایسی ذمے داری نبھائی کہ وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس نے انڈین آئین کی رُو سے اچھوت کا لفظ ہی لغت سے نکال دیا آج اس لفظ کا استعمال غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔ اسی آئین کی دفعہ 45 کے تحت چھے سے چودہ سال کے بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی قرار دی گئی ہے۔ وہ کہا کرتا تھا: ''ملک کی دولت بینکوں اور لاکروں میں نہیں بل کہ پرائمری اسکولوں میں ہے۔''

وہ ایک روشن خیال، بلند ہمت، عالی ظرف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے پس ماندہ طبقات کا مفکّر اور قائد تھا، جس نے دنیا سے کہا تھا: ''معاشرتی اتحاد کے بغیر سیاسی اتحاد ایک مُشکل عمل ہے، اگر یہ حاصل بھی ہوجائے تو اس میں استقلال کا ہونا اس طرح غیر یقینی ہے جس طرح ہوا کے تیز جھونکوں سے کسی بھی لمحے موسم گرما کے پودوں کا جڑ سے اکھڑ جانے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ صرف سیاسی اتحاد ہی سے ہندوستان ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے۔ لیکن ملک ہونا قوم ہونا نہیں ہوتا اور ایک ایسا ملک جو قومیت کا حامل نہیں ہوتا اسے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔''

وہ بھارت رتن تھا۔ اس کی گراں قدر خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے اسے وزیر قانون بناکر اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا، اس طرح اسے انڈیا کا پہلا وزیر قانون بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسے ''معمار آئین'' کہا جاتا ہے۔ اس نے 63 کتب تحریر کیں۔ 1990ء میں اسے اپنے ملک کے سب سے بڑے قومی اعزاز ''بھارت رتن'' سے نوازا گیا۔ یہ باکمال شخص 6 دسمبر 1956ء کو دہلی میں لاکھوں مظلوموں کو روتا چھوڑ اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ وہ ایک ایسی شخص تھا جو صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتا ہیں۔ وہ عظیم شخص اس دنیا سے تو رخصت ہوگیا مگر دنیا بھر کے انسان دوست اسے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے اور اس کے اصول مشعل راہ بنے رہیں گے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو کشمیر پر لشکر کشی اور ان کے حقوق غضب کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو مودی سرکار کبھی بھی شہریت کا کالا قانون نہیں بنا سکتی تھی۔ لیکن اس عظیم انسان نے جن لوگوں تربیت کی اور انہیں فکر و شعور سے نوازا اس کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور رکھیں گے اور ایک دن ہندتوا کے سرخیل مودی اور آر ایس ایس رسوائی کی دھول اپنے چہرے پر ملے نابود ہوجائیں گے۔

اس عظیم شخص کو آج ہم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ ایک بے مثل ماہر قانون، سیاست داں، ماہر تعلیم، اور معاشیات سب سے بڑھ کر مظلوموں کے حقوق کے علم بردار اور انسانی حقوق کے پاس دار تھے۔ لوگ انہیں عقیدت و احترام سے '' بابا صاحب امبیڈکر'' اور ''رام جی'' پکارتے ہیں۔

مت سہل ہمیں جانو پِھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں