عالم اسلام کے خلاف مغرب کی ’’اصل‘‘ سازش

خود ساختہ جنت سے باہر نکلیں، یہ دیکھیے کہ ’’امت مسلمہ‘‘ علم کے میدان میں کہاں کھڑی ہوئی ہے؟


سالار سلیمان February 25, 2020
مغرب کی سازشیں ایسی ہیں جہاں ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آئے دن ہم یہی سنتے رہے ہیں کہ عالم اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے، مغرب عالم اسلام کے خلاف سازش کررہا ہے۔ مہنگائی ہورہی ہے تو سازش۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے تو سازش۔ حکمران کرپٹ ہیں تو سازش۔ فلم فلاپ ہوئی ہے تو سازش۔ گانا ہٹ نہیں ہوا تو سازش۔ ہماری ناک ہی بڑی عجیب ہے کہ خلا سے بھی سازش کی بو سونگھ لیتی ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سازش نہیں ہے۔ ہوگی! لیکن کیا یہی اصل سازش ہے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ نہیں۔ یہ ہمارے نامہ اعمال ہیں۔ اصل سازش کی گتھی صحافی حسن نثار نے سلجھائی اور ایسی کہ میں اش اش کر اٹھا۔ کوئی ہم جیسی تھرڈ ورلڈ کنٹریز کے خلاف ایسی تھرڈ کلاس سازش کیوں کرے گا؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ مغرب یقیناً سازش کررہا ہے، لیکن وہ سازشیں ایسی ہیں جہاں ہمارا دھیان نہیں جاتا۔

دنیا کی بڑی انڈسٹریز میں شوبز کی انڈسٹری ہے۔ اسپورٹس کی انڈسٹری ہے۔ اس کی وجہ اس کو ٹھیک ٹھاک کمرشل کرنا ہے۔ یعنی ان شعبوں میں پیسہ لگا ہوا ہے، ان کی مارکیٹنگ ہوتی ہے، اس پر ٹھیک ٹھاک پیسہ لگایا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد ان کی باقاعدہ سیلز ہوتی ہیں۔ بلامبالغہ اِن شعبوں میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ یعنی یہ تو پورا کاروبار ہے۔ لہٰذا اس کو مزید منافع بخش بنانے کےلیے ان کے ہیروز تخلیق کیے جاتے ہیں۔ ان پر بھی پیسہ لگتا ہے۔ اب جن کھلاڑیوں اور اداکاروں میں کرشمہ ہوتا ہے تو وہ بہت جلدی اسٹار اور سپر اسٹار بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے بھی پروڈکٹس کی سیلز کروائی جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ تو پوری کی پوری اکانومی کی ایکٹویٹی ہوگئی۔ میڈیا کو بھی پیسہ اشتہارات کی مد میں جاتا ہے تو اشتہارات کےلیے میڈیا بھی کچھ بھی کرے گا۔ یہاں تک بھی سازش کی سمجھ نہیں آتی؟ چلیے آگے پڑھیے۔

ہوتا کیا ہے کہ پرانے وقتوں میں بادشاہ اور نواب اپنے پاس مراثی، بھانڈ، جگتیے، رقاصائیں، اداکار، گلوکار، داشتائیں وغیرہ رکھتے تھے۔ ان کا کام ہی اپنے آقاؤں کو خوش رکھنا تھا۔ ان کو ہنسانا تھا، ان کےلیے دربار وغیرہ میں آئٹم وغیرہ پیش کرنا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ جہاں گھوڑے اور ہاتھی پالتے تھے، وہیں یہ پہلوان بھی پالتے تھے، کھلاڑیوں کو پالتے تھے اور ان کا بھی وہی کام تھا۔ اس کو انگریزی میں entertainers کہتے تھے، اور ان کا کام entertainment فراہم کرنا تھا۔ یہ ہے مغرب کی اصل سازش کہ اس نے ہمارے معاشروں میں ان انٹرٹینرز کو ہمارا ہیرو بنا دیا ہے، ان کو سلیبریٹی بنادیا ہے۔

آج باہر نکلیں۔ کسی سے بھی پوچھیں کہ دنیا کےٹاپ 10 کرکٹرز کے نام بتاؤ ، گلوکاروں کے نام بتائو، ڈراموں اور فلموں کے نام بتائو۔ تو وہ آرام سے بتا دیں گے۔ اس کی تمام تر تفصیلات ان کو ازبر ہوں گی۔ ان کی الگ پیرائے سے ماری گئی چھینک بھی بریکنگ نیوز ہوگی۔ ان کے دیر سے سونا بھی اخبارات اور جرائد کی فرنٹ پیج اسٹوری ہوگی۔

لیکن اگر آپ ان سے پوچھیں، بلکہ اگر آپ خود سے پوچھیں کہ دنیا کے ٹاپ 10 سائنس دانوں کے نام بتائیں، امریکا کے ٹاپ 5 ماہرین طبعیات کون ہیں؟ برطانیہ کے ٹاپ 5 میتھ کے ماہرین کون ہیں؟ کینیڈا کے ٹاپ 10 ماہرین معاشیات کون ہیں؟ اگلا آنے والا وقت آرٹیفیشل انٹلیجنس، بلاک چین اور نیٹ ورکنگ کا ہے، تو یہ بتائیے کہ ان شعبوں کے ماہرین کون ہیں؟ میں شرطیہ بتاسکتا ہوں کہ آپ کو علم بھی نہیں ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ میڈیا میں ان کو دکھایا ہی نہیں جاتا۔ مغرب اپنے ''اصل ہیروز'' کو چھپا کر رکھتا ہے۔ ان کی نہ مارکیٹنگ ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو گلوریفائی کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں کوئی جانتا بھی نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں ان کو خبروں سے دور رکھا جاتا ہے؟ کیوں ان کی کوریج نہیں ہوتی؟

اس کی وجہ یہ ہے تاکہ ان اصل ہیروز سے متاثر ہوکر میرا اور آپ کا بچہ کہیں ان کی لائن پر نہ چل پڑے۔ آج کی دنیا علم کی دنیا ہے۔ آج کی دنیا معیشت کی دنیا ہے، اور یہی حقیقت ہے۔ آج پاکستان اور بھارت میں جنگ لگ جائے، خدا نہ کرے، تو یہ جنگ بندوقوں اور توپوں سے تو ہونی نہیں، یہ بٹنوں سے ہونی ہے اور ان بٹنز کا کنٹرول ہمارے پاس ہے؟ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں تو پھر ہوائی قلعوں سے، خود ساختہ جنت سے باہر نکلیں۔ یہ دیکھیے کہ ''امت مسلمہ'' علم کے میدان میں کہاں کھڑی ہوئی ہے؟

ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے خلاف کوئی ایسی سازش نہیں ہورہی، جس کا ہم رونا رو رہے ہیں۔ یہ مہنگائی، بیروزگاری، سیاستدان ہماری اپنی فصل ہیں۔ سازش وہی ہورہی ہے، جس کا اوپر ذکر کیا ہے۔ آج اپنی شکست کو تسلیم کیجئے۔ کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں۔ مائنڈ سیٹ کو تبدیل کیجئے اور تازہ دم ہوکر دوبارہ میدان میں آئیں۔ ہار اور شکست تو ہمارا مقدر نہیں ہے لیکن اگر ہم نے پلٹ کر حملہ کرنا ہے تو کیا اس کےلیے ہم تیار ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں