نئے انتخابات کے لیے صف بندیاں
اب یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور اے این پی باہمی مفاہمت کے تحت الیکشن لڑیں گی
QUETTA:
موجودہ جمہوری سیٹ اپ کو ''کامیابی'' سے حکمرانی کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے چار سال ہو گئے ہیں۔ جب یہ سیٹ اپ وجود میں آیا، اس وقت بعض بمبار تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ یہ حکومت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ چلے گی لیکن انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں حتیٰ کہ اس سیٹ اپ کی آئینی عمر پوری ہونے کے دن قریب آ گئے ہیں۔
اب نئے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئیں ہیں' سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار فائنل کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ق نے تو قصور سے اپنے دو تین امیدواروں کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ اب یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی' مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور اے این پی باہمی مفاہمت کے تحت الیکشن لڑیں گی۔
مسلم لیگ ن کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی تو یہی نظر آ رہی ہے کہ کسی کو دوست نہ بنائو اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہی ہے۔ کامل یقین یہی کہ وہ تنہا الیکشن لڑے گی۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی انتخابی دوڑ میں شریک ہوں گی۔ ان دونوں جماعتوں نے فروری 2008 کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس لیے موجودہ قومی اسمبلی میں ان کی کوئی نمایندگی نہیں۔ میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان دوریاں بھی اس الیکشن میں حصہ لینے پر بڑھیں، عمران خان چاہتے تھے کہ مسلم لیگ ن الیکشن کا بائیکاٹ کر دے۔
انھوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے کاغذات نامزدگی بھی پھاڑ ڈالے تھے۔ میاں صاحب نے لاہور میں اے پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ اس وقت انھیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ دیا۔انھوں نے یہ مشورہ مان لیا، محترمہ کے قتل کے بعد عام انتخابات فروری 2008 تک ملتوی ہوگئے تھے، تب بھی انھوں نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا، اس موقع پر آصف زرداری ان کے کام آئے۔ رازداری سے یہ طے ہوا کہ آصف زرداری میاں صاحب سے اپیل کریں گے کہ وہ جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں بائیکاٹ ختم کر کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔
انھوں نے میاں صاحب سے الیکشن میں حصہ لینے کی اپیل کی جسے خوش دلی سے قبول کر لیا گیا، یوں مسلم لیگ موجودہ جمہوری سیٹ اپ کا حصہ بن گئی۔ عمران خان اور جماعت اسلامی سے ان کے راستے جدا ہو گئے جو اب تک جدا ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن مرکز میں اپوزیشن پارٹی ہے لیکن پنجاب میں حکمران ہے، اگر وہ بائیکاٹ کر دیتی تو میاں صاحب، عمران خان اور جماعت اسلامی کے ہمراہ کورس کی شکل میں راگ سونامی گا رہے ہوتے۔
بعض اطلاعات ہیں کہ دائیں بازو کی قوتیں چاہتی ہیں کہ مسلم لیگ ن' تحریک انصاف' جے یو آئی اور جماعت اسلامی متحد ہو جائیں اور مشترکہ پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں لیکن عمران خان نے جس طرح میاں صاحبان، چوہدری نثار اور مولانا فضل الرحمٰن کو آڑے ہاتھوں لیا، اس سے یہ مشکل نظر آتا ہے کہ وہ اکٹھے ہو سکیں گے۔ سچی بات ہے کہ مجھے عام انتخابات میں خان صاحب اور ان کی تحریک انصاف کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آتا ہے۔ لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد ان کی جو اٹھان بنی تھی اب وہ کم ہو گئی ہے۔
ان کی پارٹی کے اندر بھی کھینچا تانی جاری ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ کئی بڑے نام ان کی پارٹی سے نکلنے والے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے اویس لغاری، جمال لغاری اور سیالکوٹ کے چیمے بھی تحریک انصاف سے ناتہ توڑنے والے ہیں۔ لہذا آیندہ انتخابات میں تحریک انصاف بریک تھرو کے قابل نظر نہیں آتی۔ جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی یا جہانگیر ترین کے بل بوتے پر انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کی جاسکتی۔
عام انتخابات میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ہی ہو گا۔ عوام کے پاس جانے کے لیے کسی سیاسی جماعت کے کھاتے میں کوئی کارنامہ نہیں ہے۔معیشت کی زبوں حالی، دہشت گردی اور جرائم نے عوام کوتمام سیاسی جماعتوں سے مایوس کردیا ہے۔پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم ہو یا اے این پی سب کو پتہ ہے کہ ان کا دامن داغ داغ ہے۔
اس لیے نئے ایشو پیدا کیے جا رہے ہیں،عوام کو لسانی، نسلی اور ثقافتی گروہ میں تقسیم کرکے جذباتی کیا جارہے ، بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گرد مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کررہے ہیں۔ نئے انتخابی ایشوز میں سب سے اہم نئے صوبوں کی تشکیل کا نعرہ ہے۔ آیندہ الیکشن اسی ایشو پر ہو گا۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں سرائیکی وسیب کے حقوق کا علم اٹھاکر انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہے' ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپر پنجاب میں ذہنی طور پر شکست تسلیم کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ سمجھتی ہے کہ وہ سندھ میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کر لے گی۔
فروری 2008 کے عام انتخابات میں سندھ سے پیپلز پارٹی نے چونتیس نشستیں جیتیں تھیں، اب گھوٹکی سے مہر برادران کی پیپلز پارٹی میں شمولیت ، جوڑ توڑ کی سیاست میں صدر زرداری کی اہم کامیابی ہے ۔ مہر برادران ق لیگ میں رہے ہیں، پھر ان کے میاں نواز شریف سے روابط بھی ہوئے۔ یہ افواہیں بھی اڑیں کہ مہر برادران مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائیں گے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یوں پیپلز پارٹی سندھ میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں لے سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن سندھ میں قوم پرستوں کو ساتھ لے کر چلے گی۔
رسول بخش پلیجو کے فرزند ایاز لطیف پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی اور دوسرے قوم پرست میاں صاحب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ممتاز بھٹو تو کھل کر میاں نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں۔ ارباب غلام رحیم بھی میاں صاحب کا ساتھ دیں گے۔ لیاقت جتوئی، غوث علی شاہ اور ماروی میمن بھی کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو سندھ میں مسلم لیگ ن چھ سے دس تک نشستیں حاصل کر لے تو یہ اس کی کامیابی سمجھی جا سکتی ہے۔
اصل مقابلہ پنجاب میں ہو گا۔ یہیں پر فیصلہ ہوگا کہ مرکز میں حکومت کون بنائے گا۔ جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کی اڑتالیس کے قریب نشستیں ہیں جب کہ اپر پنجاب کی سو سیٹیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس سرائیکی صوبے کا نعرہ ہے جب کہ ن لیگ متحدہ پنجاب کے نعرے پر الیکشن لڑے گی۔ پیپلز پارٹی اگر جنوبی پنجاب میں پچیس سے تیس سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اپر پنجاب میں گجرات، منڈی بہائوالدین' سرگودھا وغیرہ سے جیتتی ہے تو پھر وہ اس پوزیشن میں ہو گی کہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دوبارہ مرکز میں حکومت بنا سکے۔
مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ وہ جنوبی پنجاب سے بہاولپور ڈویژ ن سے سیٹیں جیتے گی، یہاں سے لالیکا خاندان اور عباسی خاندان ان کا ساتھ دیں گے۔ رحیم یار خان میں آبادکاروں کا ووٹ بھی اسے ملے گا۔ ڈیرہ غازی خان سے کھوسے کامیاب ہوسکتے ہیں، ملتان میں بھی وہ سخت مقابلہ کرے گی جب کہ اپر پنجاب میں اسے لینڈ سلائیڈ وکٹری کی امید ہے، خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبے کی حمایت کا نعرہ لگا کر اپنی روایتی سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اپنے انتخابی تیاریاں مکمل کرلی ہیں، جیسے ہی نگران حکومت بنے گی، سیاسی گھوڑے انتخابی ریس میں سرپٹ دوڑنا شروع کردیں گے۔عوام کو کچھ ملے نہ ملے لیکن انھیں اپنے جمہوری حکمران منتخب کرنے کا موقع ضرور مل جائے گا۔