’’کھیل ہی کھیل میں‘‘
کھیل کے شوق کو بڑھاوا دینے کیلئے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں انھیں صرف ملک کا سافٹ امیج بنانے تک محدود نہیں رہنا چاہیے
پی ایس ایل کا دوسرا میچ (کراچی کنگز بمقابلہ پشاور زلمی) اپنے آخری اوورز میں تھا، کھیل کا تجزیہ اس بات پر مُصر تھا کہ کراچی کنگز کے بنائے ہوئے 201 رنز کراس ہونے کے چانسز دس سے پندرہ فی صد تک ہیں لیکن گزشتہ بیس برس میں اس ٹی 20 فارمیٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر یہ تجزیہ دس منٹ کے اندر اندر ایک وہم کی شکل بھی اختیار کر سکتا تھا ۔
کبڈی کے ورلڈ کپ میں چیمپئن بننے کے بعد پاکستان کی زمین پر انٹرنیشنل کھلاڑیوں اور ٹیموں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد ، لوگوں کا جوش و خروش اور عالمی اداروں کی رینکنگ کے حوالے سے پاکستان کو سیاحوں کے لیے محفوظ اور پسندیدہ ملک قرار دیے جانے کی وجہ سے اس وقت جو ماحول بن رہا ہے آج سے صرف دو برس پہلے تک اس کے لیے مناسب ترین لفظ ''خام خیالی'' بھی ہو سکتا تھا مگر ہمارا عمومی اور میڈیا کا غالب روّیہ تصویر کا تاریک رُخ دیکھنے اور دکھانے کا اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ ہم ریاست کی ترقی کے حوالے سے ہر خبر کو بھی حکومت یا سیاسی نعرہ بازی کا رزق بنا دیتے ہیں یہاں تک کہ کھیل ، ادب ، فنون لطیفہ اور سماجی خدمات کے ضمن میں بھی یہ تعصبات نہ صرف راہ پا گئے ہیں بلکہ اب یہ ایک طرح کے کلچر کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔
کرکٹ کو ایک زمانے میں شرفاء کا کھیل Gentelmen's Sport کہا جاتا تھا کہ اس کے کھلاڑیوں میں خوشدلی، خوش مزاجی، برداشت، اپنی ہار یا دوسرے کی جیت کو کھیل کا حصہ سمجھنا اور سارا دن گراؤنڈ میں کھیل کی Tension اور دباؤ میں رہنے کے بعد شا م کو ہر بات بُھول کر ایک دوسرے سے دوستوں کی طرح ملنا ملانا اور ہنسی مذاق کرنا ایک ایسی روائت تھی جو اَب ایک بُھولی ہوئی یاد بنتی جا رہی ہے۔
آسٹریلیا اور انگلینڈ کی روائتی ایشز سیریز ہوں یا پاک بھارت جذبات سے بھرپور ٹاکرے اب سب کے سب سیاست ، روپے کی ریل پیل اور میڈیا کی سنسنی خیزی کی نذر ہو کر اپنے پرانے ناک نقشوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں کہ اب کھیل کے میدان کو میدان جنگ اور مقابلے سے پہلے یا بعد کے زمانے کو کاروبار ، ملکوں کے سیاسی روّیوں اور ایسے باہمی اختلافات سے آلودہ کر دیا گیا ہے کہ اسپورٹس مین اسپرٹ نامی ایک مخصوص کیفیت اب صرف ان سے متعلق پرانی کتابوں میں ہی رہ گئی ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے فلیمنگ روڈ لاہور کے پرانے والے گھر سے متصل آقا بیدار بخت کے مکان کے پچھواڑے میں ایک تیس فٹ لمبی اور آٹھ دس فٹ چوڑی کھلی جگہ میں جس کو ہم نے آقا اسٹیڈیم کا نام دے رکھا تھا، روزانہ کرکٹ کے میچ ہوا کرتے تھے۔ وکٹیں لگانے کے بجائے جگہ کی تنگی کے پیش نظر بیٹسمین والی سائیڈ کی عقبی دیوار پر کوئلے سے وکٹیں بنائی جاتی تھیں اور بولڈ آؤٹ ہونے کا آخری فیصلہ ٹینس بال پر لگنے والے کوئلوں کے نشانوں کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا۔
اب مزے کی بات یہ ہے کہ اگلا بال پھینکنے سے پہلے ان نشانات کو صاف کرنا ضروری ہوتا تھا لیکن سب کے سب کھلاڑی اس بات کو جائز اور ہنر مندی سمجھتے تھے کہ دکھاوے کے طور پر تو اس نشان کو خوب رگڑکر صاف کیا جائے مگر اصل میں نشان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے تا کہ آیندہ وکٹ کے قریب لگنے والے بال کو اس کی معرفت غلط آؤٹ لینے کے لیے استعمال کیا جائے، یہ دلچسپ بے ایمانی اس قدر عام اور تسلیم شدہ تھی کہ خود آقا بیدار بخت جو عمر میں تمام باقی ماندہ کھلاڑیوں سے کم از کم تیس برس بڑے تھے، اس کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے، اب یہ کھیل کی اس مخصوص کھلی ڈُلی فضا کا کمال تھا کہ اپنی بزرگی، اعلیٰ مقام اور ایک مستند دانشور ہونے کے باوجود وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن جایا کرتے تھے۔
اسی ہفتے اُن کے چھوٹے صاحبزادے فیاض بیدارنے برنچ پر اُس زمانے کے پسماندگان کو اپنے گھر پر جمع کیا اور یوں ایک دو ایسے کھلاڑیوں سے بھی تجدید ملاقات ہوئی جن کو اب پہلی نظر میں پہچاننا بھی مشکل ہو چکا تھا کہ درمیانی وقفہ پچاس سال سے بھی زیادہ کا تھا۔ اس محفل میں بہت سی پرانی باتوں، واقعات اور افراد کو اس طرح سے یاد کیا گیاکہ یہ ہر قہقہے کے ساتھ ہماری عمروں میں سے دو چار برس کم ہو جاتے تھے ۔ آقا صاحب کی صاحبزادیاں فرخ اور فریدہ بھی خاص طور پر ملاقات کے لیے آئیں اور اُن کو دیکھ کر یاد آیا کہ کس طرح ایک زمانے میں کسی دوست کی بہن سچ مچ سگی بہنوں کی طرح ہوتی اور لگتی تھی ۔
اس محفل میں پرویز چشتی سے بھی ملاقات ہوئی جو فوج میں کرنیلی سے ریٹائر ہو کر پاکستان کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا کچھ عرصے کے لیے سربراہ بھی رہا اور اس دوران میں اُس نے نوجوان کھلاڑیوں کی ذہنی اور نفیساتی مضبوطی کے لیے عالمی شہرت یافتہ عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں سے بھی ایسے افراد کے لیکچر کروائے جو اگرچہ کرکٹ کے کھیل میں زیادہ نام نہ پیدا کر سکے مگر کسی اور شعبے میں بہت کامیاب رہے، دو بار مجھے بھی ان اُبھرتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں سے ہم کلامی کا موقع ملا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس واقعے کے تقریباً پندرہ برس بعد گزشتہ ہفتے بھی مجھے اپنے ترک مہمانوں کے وفد کے ساتھ اس اکیڈمی میں دوبارہ جانے کا موقع ملا جسے اب مدثر نذر اور منصور رانا چلا رہے ہیں اور جہاں عظیم کھلاڑی فضل محمود صاحب کے بیٹے اور بیٹی سے بھی ملاقات ہوئی جو خاص طور پر تشریف لائے تھے جب میں نے انھیں یہ بتایا کہ میری پہلی آزاد نظم کا براہ راست تعلق اُن کے عظیم والد ہی سے تھا کہ وہ مجید امجد مرحوم کی اُس باکمال نظم ''آٹو گراف'' کے مرکزی کردار تھے۔
کھیل کے شوق کو بڑھاوا دینے کے لیے جو اقدامات اب کیے جا رہے ہیں، انھیں صرف ملک کا سافٹ امیج بنانے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے جب تک متعلقہ سہولیات کو اسکولوں اور محلوں کی سطح تک نہیں لایا جائے گا، اس کے وہ مثبت اور مستقبل گیر اثرات اُس طرح سے محدود رہیں گے جیسے ہمارے معاشرے کی وہ خداداد صلاحیتیں جو بے مثال بھی ہیں اور بے شمار بھی ۔