عجیب سا تاثر
چینی شکل سے ملتے جلتے لوگ خوفزدگی کی علامت سے بن گئے ہیں۔
ہرگزرتا دن ایک نئی خبرکے ساتھ پریشانی و تفکرات کو جنم دے رہا ہے دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرین نظر آنے لگے ہیں۔ فرانس، روس، ملائیشیا اور امریکا بھر میں بھی اس کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، اس خطرناک وائرس سے مرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
قدرتی آفات اہل زمین پر زمانہ قدیم سے نازل ہوتی رہی ہیں، جب انسان جابر بن کر دوسروں کی تقدیر کو اپنے ہاتھوں سے تحریر کرنے کی کوشش کرے تو آسمان تک مظلوموں کی آہیں اور بد دعائیں بنا کسی انٹرنیٹ کے پہنچ جاتی ہیں اور یہ تو دلوں کا معاملہ ہے اس پر کسی کا زور نہیں چل سکتا، لیکن انسان جب فرعونیت پر اتر آئے تو نعوذ باللہ خود کو خدا سمجھنے کی حماقت کر بیٹھتا ہے۔
حضرت موسیٰؑ کے دور میں جب آپ نے لوگوں کو اپنے رب کی نشانیاں دکھائیں اور ان کو ہر طرح سے سمجھایا ڈرایا لیکن اس قوم نے ایمان لانے سے انکار کیا اور پھر ان پر رب العزت کی جانب سے عذاب نازل ہوا پہلی نشانی قحط سالی کی تھی۔ قرآن پاک میں واضح ہے کہ '' اور پکڑا ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور میوؤں کے نقصان میں شایدکہ کچھ نصیحت پکڑیں۔''
تین برس مصر پر قحط رہا تو حضرت موسیٰؑ سے درخواست کی گئی کہ اگر ان کا خدا ہم پر سے قحط ہٹا لے تو ہم سب ایمان لے آئیں گے اور آپ نے دعا فرمائی لیکن وہ ایمان نہ لائے آپ نے پھر دعا کی تو ان پر بلائیں نازل ہوئیں۔ قرآن پاک میں ہے کہ ترجمہ: '' پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان مینہ کا اور ٹڈی اور چچڑی یعنی جوئیں اور مینڈک اور لہو دیکھو کتنی نشانیاں جدا جدا، پھر تکبر کرتے رہے اور درحقیقت وہ لوگ تھے گناہ گار۔''
تفسیر میں تحریر ہے کہ ان لوگوں کے کپڑوں میں کثرت سے جوئیں پڑ گئیں ، ہر چیز میں مینڈک پھیل گئے اور تمام پانی خون بن گیا۔ کہتے ہیں کہ لوگ ایک مینڈک مارتے تو اس کی جگہ کئی اور مینڈک پیدا ہوجاتے، اسی طرح ٹڈیوں کا عذاب بھی نازل ہوا۔ یہ سب قرآن میں تحریر ہے اسے جھٹلانا ممکن ہی نہیں، یہ ایک سچ ہے ایسا ہو چکا ہے اسی طرح طاعون کی بیماری بھی تاریخ کے صفحوں پر تحریر ہے کہ جس نے شہر کے شہر نگل لیے تھے، یہاں تک کہ پاکستان کے قیام کے دنوں میں بھی اس مہلک بیماری کے بارے میں خوف و ہراس پھیلا تھا۔ ایسی بیماریاں عذاب الٰہی کہلاتی ہیں ، اس سے بچنے کے لیے کثرت سے توبہ استغفارکا عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ ماضی میں متکبر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا لہٰذا وہ اہل زمین پر اپنے ظلم کا چابک چلاتے رہتے تھے لیکن آخر میں قدرت الٰہی کے شکنجے سے نہیں بچ سکے۔
چین میں کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں ایک عجیب سا تاثر پیدا کردیا ہے، چینی شکل سے ملتے جلتے لوگ خوفزدگی کی علامت سے بن گئے ہیں وہیں بہت سے چین کی اس قدرتی آفت پر ہنسی بھی اڑا رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ چین میں اس وائرس کی موجودگی کوکسی حد تک چھپانے اور دبانے کی کوشش نے بھی اسے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، بالکل اسی طرح سے جیسے چین میں مسلمان طبقے کے ساتھ ظلم و تعصب برتا جا رہا ہے انھیں الگ تھلگ ترقی کی شاہراہ سے جدا کرکے اپنے تئیں نسل کشی کی راہ پر ڈال کر یہ سمجھ لیا گیا کہ کسی کو خبر نہیں اورکسی کی مجال بھی نہیں کہ پوچھ گچھ کرے۔
سچ تو یہ ہے کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ اسی برتاؤ کی مثال کو نریندر مودی نے بھارت کے مسلمانوں پر لاگو کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کا اقرار بھی اس جانب سے کیا جا چکا ہے کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا ہے اس پر کسی جانب سے انگلی کیوں نہیں اٹھائی جاتی ، گویا اگر وہ بھی اس طرح کرتے ہیں تو انھیں بھی چین کی مانند اس عمل سے مبرا سمجھا جائے البتہ پاکستانی ہونے کے اعتبار سے ہمیں اپنے چینی دوستوں سے اس متعصبانہ سلوک کی مذمت اور احتجاج کرنا بھی ضروری ہے۔
کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق چین میں موت کے سرٹیفکیٹ پر وجہ موت کی جگہ پر کرونا وائرس کے بجائے نمونیا لکھا جا رہا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ سننے میں آیا ہے کہ وہاں سوشل میڈیا پر بھی سنسر شپ لگائی جا رہی ہے، خبروں میں جو کچھ اس وائرس سے مرنے والوں کے متعلق دکھایا جا رہا ہے۔ شہر ووہان کی فضا میں سلفرڈائی آکسائیڈ کی مقدار خاصی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ بتائی جا رہی ہے کہ یہ گیس انسانی لاشوں کو جلانے کے باعث بڑھ گئی ہے، ووہان کی فضا میں چیل کوے اپنے شکار کے لیے آزادانہ گھوم رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہ آفت بہارکے موسم کی مانند ہے چین کے ایک کاروباری آدمی کے مطابق اب تک بارہ سو سے زائد لاشیں جلائی جاچکی ہیں جب کہ کہا جا رہا ہے کہ پچاس ہزار اموات ہو چکی ہیں کچھ پندرہ لاکھ تک کی افواہیں بھی پھیلا رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ چین کا ترقی یافتہ ووہان شہر اب ان کے لیے بوجھ سا بن گیا ہے وہاں معمولی چھینکنے اور کھانسنے کو ہی خطرے کی علامت سمجھ کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سر راہ چلتے اگر کوئی گر جائے تو اس کی مدد کے لیے اب وہاں کوئی آگے نہیں بڑھتا، لوگ لفٹ کے بٹن کو بھی چھونے سے گریز کرتے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کو دوائیاں پہنچانے اور غذا دینے کا کام روبوٹس سے بھی کروایا جا رہا ہے، اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں، لاشوں کو پیک کرنے کے لیے کمی ہوگئی ہے لہٰذا ایک ہی پیک میں تین مردوں کو بھی پیک کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اب ووہان میں گھروں کو سیل بھی کرایا جا رہا ہے۔ یعنی نہ کوئی باہر جا سکتا ہے اور نہ ہی اندر جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو نے لوگوں کے دل دہلا دیے جب ایک کرونا وائرس سے متاثرہ شخص کو حکومتی اہلکاروں نے پستول کی گولی مارکر اسے دنیا سے ہی رخصت کردیا۔ یہ قدرتی آفت ہی کیا کم تھی کہ اہل ووہان کے لیے ان کے اپنے ہی آفت بن گئے جن حکومتی اہلکاروں پر یقین کرکے وہ سکون و اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر رہے تھے وہ اب ان کے گھروں میں گھس کر بدتمیزی پر اتر آئے ہیں۔
اہل ووہان اب اپنے عزیز رشتے داروں اور دوستوں سے مل کر بھی نہیں بیٹھ سکتے، وہ شہر آسیب زدہ سا بن گیا جہاں آدھی رات کو شہری اپنے گھروں اور اپارٹمنٹس اور فلیٹوں کی کھڑکیوں سے ایک ساتھ چیختے پکارتے ہیں۔ رات کی سیاہی میں لوگوں کو اپنے پیاروں کو پکارتے ہیں کہ شاید حکومت ان کی یہ صدائیں سن کر ان کی مدد کو آئے لیکن اس شہر قیامت میں اب کوئی صدا نہیں سنی جا رہی۔