سندھ میں آوارہ کتوں کیخلاف مہم فنڈز اور وسائل کی کمی کا شکار

گزشتہ سال نومبر میں مہم کا آغاز کیا گیا تاہم 3ماہ بعد بھی کوئی پیش نظر نہیں آتی


حفیظ تنیو February 25, 2020
مہم کے لیے مختص 1 ارب روپے کے فنڈز میں خوردبرد کا اندیشہ ہے، حلیم عادل شیخ ۔ فوٹو : فائل

سندھ میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد گزشتہ سال نومبر میں حکومت میں نے فیصلہ ایک مہم کا آغاز کیا تھا جس میں متعلقہ عملے کو آوارہ کتوں کو پکڑنے، انھیں ویکسین دینے اور بانجھ کرنے کی تربیت فراہم کی جانی تھی۔

مہم کا آغاز کراچی کے ضلع وسطی سے ہوا اور جسے پھر پورے سندھ میں پھیلنا تھا اور امید تھی کہ اس مہم کے دوران پانچ لاکھ کے قریب آوارہ کتوں کو ویکسین دی جائے گی اور اس میں ایک سال کا عرصہ لگے گا تاہم صورت حال یہ ہے کہ اس مہم کے آغاز کے اگلے دن سے یعنی تصویریں بننے کے بعد سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

مہم کے آغاز کے وقت سیکریٹری شہری حکومت روشن شیخ نے میڈیا کو آگاہ کیا تھا کہ اس مہم کے دوران میونسپل کے عملے کو کتوں کو پکڑنے، انھیں بانجھ کرنے کی تربیت فراہم کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کے دوران کتوں کو ویکسین دینے کے بعد انھیں ان کے علاقوں میں واپس چھوڑ دیا جائے گا، تاہم اب مہم کو شروع ہوئے 3 ماہ گزر چکے ہیں اور کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں آرہی ہے جس کے بعد اب یہ مہم صرف کاغذوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں روزانہ 70 کے قریب افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر بچے شامل ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کتا کاٹ لے تو اس سے انسانوں میں منتقل ہونے والے جراثیم قابل علاج ہیں اگر اس کا بروقت اور موثر علاج کرالیا جائے۔ متعدد بار کوشش کے باوجود سیکریٹری لوکل گورنمنٹ سے رابطہ نہ ہوسکا تاکہ ان سے اس مہم کے حوالے سے تازین ترین صورت حال کا معلوم کیا جاسکے۔

مقامی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مہم کے لیے درکار فنڈ کی کمی کا سامنا ہے اور اعلی حکام کی جانب سے یہ فنڈز روکے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ مہم متاثر ہوئی تاہم اب حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے اور مختلف اضلاع میں سیلز اور دفاتر قائم کردیے گئے ہیں اور جلد ہی یہ مہم دوبارہ شروع کی جارہی ہے۔

باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ کتوں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے انھیں بانجھ کرنے کے لیے حکومت کے پاس ماہرین اور وسائل کی کمی ہے کیونکہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اس میں دو ہفتے درکار ہوتے ہیں جب تک اس کتے کے ٹانکے بھرنہ جائیں اور زخم ٹھینک نہ ہوجائے جس کے بعد اسے دوبارہ اسی علاقے میں چھوڑا جاتا ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جانوروں کے ایک سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ کتوں کو بانجھ کرنے کی سرجری کے بعد بعض اوقات بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ امیر لوگ جو اپنے پالتو کتوں کو ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں رکھتے ہیں اور ان کا خیال بھی رکھتے ہیں ان کے کتوں کو بھی ان پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لیے معلوم نہیں حکومت اس مسئلے سے کس طرح نمٹے گی۔

دوسری جانب مقامی حکومت کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ کتوں کو بانجھ کرنے کے لیے ان کا آپریشن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سارا عمل اب ایک انجیکشن کے ذریعے ہوسکتا ہے تاہم مادہ کی صورت میں اسے آپریشن کے ذریعے بانجھ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ اس سارے منصوبے کے لیے مقامی حکومت نے ایک ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے تاہم لگتا ہے اس بار بھی ان فنڈز میں خورد برد ہوجائے گی، ہم نے یہ مسئلے کئی بار اسمبلی میں اٹھایا مگر حکومت اس کے مستقل حل کے بجائے عارضی بنیادروں پر کام چلانا چاہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔