بے نظیر انکم سپورٹ کا متبادل پروگرام
وفاقی حکومت نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی جگہ احساس کفالت پروگرام کا آغاز 200 ارب روپے سے کر دیا ہے۔
ISLAMABAD:
وفاقی حکومت نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی جگہ احساس کفالت پروگرام کا آغاز 200 ارب روپے سے کر دیا ہے جس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ31 جنوری کو کیا۔ احساس کفالت کارڈ پر بینظیر بھٹوکی تصویرکی جگہ قائد اعظم کی تصویر ہو گی۔
اس پروگرام کے تحت ملک بھر کے انتہائی غریب مستحقین خواتین کو ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں 2 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا، ملک کی تقریبا 70 لاکھ مستحقین خواتین اس پروگرام سے مستفید ہونگی۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل تمام مستحقین اس پروگرام کا حصہ ہونگی پہلے مرحلے میں ملک کے 70 اضلاع میں فروری تا مارچ 2020ء تک 10 لاکھ مستحقین خواتین کا اندراج کیا جائے گا ۔
دوسرے مرحلے میں 2020ء کے اختتام تک ملک کے باقی تمام اضلاع سے خواتین کفالت پروگرام میں شامل کر لی جائینگی۔ کفالت کارڈ ہولڈر کو مستقبل میں اسی کارڈ کے ذریعے یوٹیلیٹی اسٹور سے راشن اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائینگی۔ سرکاری ملازمین اور ان کی شریک حیات ، ٹیکس دہندگان، گاڑیوں کے مالکان ، متعدد مرتبہ بیرون ملک سفر کرنیوالے افراد کفالت پروگرام کے اہل نہیں ہونگے۔
ہر خاتون کو بینک اکاؤنٹ کی سہولت حاصل ہو گی جو اس کی معاشی مواقع تک رسائی کو یقینی بنائیگا۔ وظیفہ کی رقم کی وصولی کے لیے کفالت کارڈ کے ساتھ بائیومیٹرک تصدیق لازم ہو گی۔ خواتین پوائنٹ آف سیل ( پی او ایس ) ایجنٹس، حبیب بینک اور الفلاح بینک کی مقررکردہ شاخوں اور بائیو میٹرک اے ٹی ایمز سے رقم نکلوا سکیں گی۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام 2008ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں غریب اور پسماندہ طبقے خصوصا عورتوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس کو مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بھی جاری رکھا گیا ۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا شمار دنیا کے پانچ بہترین سوشل سیفٹی نیٹس میں ہوتا رہا ہے۔
اس پروگرام سے ملک بھر 54 لاکھ لوگوں کو سہ ماہی پانچ ہزار روپے امداد ملنے کے علاوہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کے لیے ان کی تعلیم وتربیت ، طالبعلموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف کے علاوہ غربت کے خاتمے کے دیگر اسکیمیں شامل تھیں۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو حکومت پاکستان کے علاوہ عالمی بینک ، ڈی ایف آئی ڈی اور ایشیائی بینک سے مالی اور تکنیکی امداد حاصل رہی ہے لیکن ماضی میں مستحقین کے فنڈز مختلف طریقوں سے چوری ہوتے رہے ہیں۔ شروع دنوں میں جب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا گیا تو قومی اسمبلی کے ممبران کی جانب سے رجسٹریشن کے لیے مخصوص فارم جاری کیے گئے تھے اور یہ خالی فارم سیاسی پارٹیوں کے علاقائی کارکن اپنے کوٹے کے نام پر وصول کرتے تھے اور وہ اپنے من پسند لوگوں کو سیاسی بنیاد پر خواتین میں تقسیم کرتے تھے۔
فارم بھرنے کے بعد یہ فارم یہی سیاسی کارکن خواتین سے وصول کر کے اپنے ایم این اے کے دفاتر میں جمع کراتے تھے اور جب ان فارم کے تحت خواتین کے ATMs کارڈ تیار ہو کر آئے جس پر بینظیر بھٹو کی تصویر بنی ہوئی تھی تو پھر انھی علاقائی سیاسی کارکنان کے ذریعے انھیں متعلقہ خواتین تک پہنچایا گیا۔
اس طرح غریب سادہ لوح خواتین میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی یہ رقم محترمہ بینظیر بھٹو کی ذاتی دولت سے ادا کی جا رہی ہے جسکا فائدہ پی پی پی کو انتخابات میں ہوتا رہا ہے اور الیکشن کے زمانے میں علاقائی سیاسی کارکنان سادہ لوح خواتین کو یہ کہہ کر ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکالتے تھے کہ پی پی پی کو ووٹ دو، بینظیر کو جتواؤ تا کہ یہ رقم تمہیں ملتی رہے اگر پی پی پی ہار گئی تو رقم ملنے کا یہ سلسلہ بند ہو جائے گا۔
ابتدائی دنوں میں اس اسکیم کو شفاف بنانے کے لیے ویب سائیڈکے ذریعے غریب سائل معلوم کر سکتے تھے کہ اب تک انھیں کب اور کس تاریخ کو امداد فراہم کی گئی ہے اور آیندہ مالی امداد کب ملنے والی ہے؟ اس طرح غریب سائل کو ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے امداد ملتی تھی لیکن یہ سلسلہ جلد بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد مستحق افراد کے بینظیرکارڈ (اے ٹی ایم کارڈ) کے بند ہونے کی شکایتیں عام ہونے لگی، جن کی دوبارہ بحالی کے لیے خواتین کو مہینوں لگ جاتے تھ،ے پھر بینظیر کارڈ (اے ٹی ایم کارڈ ) کا سلسلہ بند کر دیا گیا اور ادائیگی کے لیے مخصوص کمیونیکشن دکانوں کا انتخاب کیا گیا جہاں سائل کا بائیو میٹرک کرنے کے بعد سائل کو ملنے والی امدادی رقم سے فی سائل دو سو روپے کٹوتی کرتے ہوئے ادائیگی کی جا رہی تھی، جو سراسر زیادتی اور جبری کٹوتی تھی۔
درمیان میں نوسر بازوں نے بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا جو اس پروگرام کے حوالے سے جھوٹی کالز اور ایس ایم ایس کے ذریعے 25 ہزار روپے ماہوار رقم کی ادائیگی کی خوشخبری سنا کر اور اس کے عوض ہزاروں کی رقم لیتے اور ان سادہ لوح شہریوں کو لوٹتے تھے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آخری قسط تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔
بی آئی ایس پی کی جانب سے لوگوں کو خبر دار بھی کیا جاتا رہا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے موصول ہونے والا انعامی رقم کا پیغام جعلی اور فراڈ ہے اس کے باوجود یہ مافیا حکومت کے گرفت میں نہ آ سکا اور آخر میں قوم کو بتایا گیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے وظیفہ وصول کرنے والوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار سرکاری ملازمین بھی شامل تھے، جن میں گریڈ 17 سے21 تک افسروں پر یہ رقم لینے کا الزام ہے تاہم 90 افسروں کے شناختی کارڈ غلطی سے سروے میں شامل ہو گئے تھے جب کہ 150 افسروں کو ڈاک خانے کے ذریعے رقم دی گئی ، جس کی تحقیقات ہو رہی ہے۔
2080 افسروں نے انگوٹھا لگا کر رقم لی ، جن سے متعلق کوئی شک نہیں کہ انھوں نے رقم نہیں لی ہو گی۔ حکومت کی جانب سے پہلے کہا گیا کہ ان مستفید افسران کے نام منظر عام پر لائے جائیں گے لیکن یوٹرن لیتے ہوئے کہا گیا کہ ان کے نام میڈیا پر لا کر انھیں بد نام کرنا مناسب نہیں ۔ پھر کہا گیا کہ سرکاری ملازمین کا بی آئی ایس پی سے فائدہ اٹھانا فراڈ ہے، ایف آئی اے کو تمام کیسز دیے جائیں گے اور فوجداری مقدمات درج ہوں گے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مجموعی طور پر گریڈ سترہ سے بائیس تک کے دوہزار 37 افسران نے اپنے اور اپنی بیویوں کے نام پر بی آئی ایس پی سے پیسے وصول کیے۔ اعلیٰ افسران ماہانہ 1600، سہ ماہی 5000روپے امداد لیتے رہے۔ دستاویز کے مطابق سندھ کے گریڈ 17 سے22 تک 938 افسران نے بی آئی ایس پی سے غریبوں کو ملنے والی امداد پر ہاتھ صاف کیے، 50 افسران نے براہ راست خود جب کہ 888 افسران نے بیویوں کے ذریعے پیسے لیے۔ پنجاب کے گریڈ 17 سے 22 تک کے 101 افسران نے بی آئی ایس پی سے غریبوں کو ملنے والے فنڈز پر ہاتھ صاف کیے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے وفاقی کابینہ کی منظوری سے پروگرام میں شامل 8 لاکھ 20 ہزار165 سے زائد افراد کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں سے 1 لاکھ 53 ہزار 302 مستحقین ایسے تھے جنھوں نے ایک مرتبہ بیرون ملک سفر کیا،1 لاکھ95 ہزار364 مستحقین کے شریک حیات ایسے تھے جنھوں نے ایک مرتبہ بیرون ملک سفر کیا ۔692 مستحقین ایسے تھے جن کے نام پر ایک یا ایک سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ تھیں،43 ہزار 746 مستحقین کے شریک حیات ایسے تھے جنکے نام پر ایک سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ تھیں ۔ ان مستحقین کو نکالنے سے ادارے کو سالانہ 16 ارب روپے کی بچت ہو گی۔