اصل ایشوز حقیقی مسائل سے گریز

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی شرح سود 9.5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خسارہ کم کرنا دشوار ہے۔


Zuber Rehman November 25, 2013
[email protected]

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی شرح سود 9.5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خسارہ کم کرنا دشوار ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی کمی تشویش کا باعث ہے جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے سے ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ اس کے برعکس آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا امکان ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا ۔

آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کے قرض کی شرح جی ڈی پی کے 66 فیصد تک پہنچ جائے گی (یعنی ملک کی کل قومی پیداواری دولت)۔ اردن کا سرکاری سرپرستی میں شایع ہونے والے سب سے بڑا روزنامے ''الریائی'' کے ملازمین نے تنخواہوں اور حکومتی مداخلت کے معاملے پر ہڑتال کردی ہے جس کے باعث کئی روز سے اخبار شایع نہیں ہوا۔ ادارے کا دوسرا بڑا اخبار اردن ٹائمز بھی ہڑتال کے باعث شایع نہیں ہورہا ہے۔ ملازمین کے مطابق حکومت تنخواہوں کے معاملے میں لیبر قوانین 2011 پر بھی عملدرآمد نہیں کر رہی ہے۔

منور حسن کا یہ بیان کہ اسلام اور امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے درمیان جنگ جاری ہے۔ پھر وہ ذرا بتائیں کہ افغانستان کی حزب اسلامی جو جماعت اسلامی کی برادر جماعت ہے اس کے امیرگلبدین حکمت یارکس خوشی میں نیٹو کے دفتر میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اور امریکی فوج کے خلاف لڑتے بھی ہیں۔ جب افغانستان میں بائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت تربیتی کیمپ قائم کروائے گئے جہاں امریکی، برٹش، فرانسیسی، جرمنی، سوئیڈش، اسرائیلی، بیلجیم اور ڈچ انسٹرکٹرز ان مذہبی جماعتوں کو ڈالر جہاد کی تربیت دے رہے تھے اس وقت کیا یہ مذہبی جماعتیں سامراجی آلہ کار کے طور پر امریکی سامراج کے کام نہیں آئیں؟ جنرل ضیا الحق کو ''مرد مومن مرد حق۔۔۔ضیا الحق' ضیا الحق'' کے نعروں سے نہیں نوازا؟ جنرل ضیا الحق نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ''میں نے مصر کے انور السادات سے کلاشنکوف اور دیگر اسلحہ منگوایا جو افغان جہاد میں استعمال ہوئے'' جب کہ افغانستان کی بائیں بازو کی حکومت نے سامراجی سرمایہ ضبط کیا، سودی قرضوں کا نظام ختم کیا، ولور (بردہ فروشی) کے نظام کو ممنوع قرار دیا، جاگیرداری ختم کرکے 30 جریب سے زیادہ زمینیں بے زمین اور غریب کسانوں میں تقسیم کی۔

بعدازاں پاکستان کے مدرسوں سے طلبا کو (طالبان) کے نام سے افغانستان میں امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں بھیجا گیا۔ افغانستان میں داخل ہونے کے مناظر کو پی ٹی وی سے دکھایا بھی گیا۔ جب کہ حکومت بے نظیر کی تھی۔ پاکستان میں بیشتر فسادات کی جڑیں بیرونی ممالک جن کی سرپرستی امریکی سامراج کرتا ہے، وہی ذمے دار ہے۔ یہاں بعض مذہبی جماعتوں کو بیرونی امداد حاصل ہے۔ کراچی پولیس چیف شاہد حیات ٹی وی چینل کے انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ کراچی میں دہشت گردی میں جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان کا تعلقمختلف مذہبی جماعتوں سے ہے۔ اور ان کے کارکنوں کے ناموں کا اعلان بھی کیا جو اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔

ابھی حال ہی میں پولیو کا مرض پاکستان سے بیرون ملک پھیلنے پر 21 ممالک نے پاکستان کو مورد الزام قرار دیا ہے۔ جن میں مراکش، لبنان، تیونس، متحدہ عرب امارات، ایران، عراق، بحرین، مصر، اردن، کویت، لیبیا، شام، افغانستان، صومالیہ، سوڈان، اومان، قطر اور یمن شامل ہیں۔ جب کہ طالبان کا موقف ہے کہ پولیو کے قطرے سے بچے بانجھ ہوتے ہیں اور جاسوسی ہوتی ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ پولیو کے قطرے نہ پلانے سے 250 بچے اپاہج ہوچکے ہیں جب کہ یہی طالبان ہزاروں انسانوں کا قتل کرتے ہیں۔ جہاں تک جاسوسی کرنے کا تعلق ہے تو وہ طالبان کے اندر سے ہی جاسوسی ہوتی ہے ورنہ ڈرون حملے کے گولے نشانے پر ہی کیونکر لگیں؟

آج اگر افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت ہوتی اور روس کی فوج ویسے بھی واپس جاچکی تھی تو سامراجی غلبوں کا نہ صرف خاتمہ ہوتا بلکہ پاکستان بھی آئی ایم ایف سے قرضے لیے بغیر ان کے قرضے بحق سرکار ضبط کرکے وینزویلا، کیوبا، بلاروس، شمالی کوریا اور بلوویا جیسا ایک خودمختار اور خود انحصار ملک ہوتا۔ افغانستان میں آخری یہودی کا کباب خانہ بند ہونے کے قریب ہے۔

اس ہوٹل کا مالک زیلون سیمتوان (Zailon Samtawan) ان دنوں سنگین معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ جب کہ امریکا میں لاکھوں یہودی اور مسلمان آباد ہیں اور وہاں کے شہری بھی ہیں۔ اسرائیل میں بھی لاکھوں مسلمان ہیں۔ جب کہ افغانستان میں صرف ایک یہودی ہے اور اس کی بھی معاشی حالت دگرگوں ہے۔ابھی حال ہی میں سعودی عرب معاشی انحطاط پذیری اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے باعث غیر ملکی محنت کشوں کو اپنے ملک سے نکال رہا ہے۔ گزشتہ دنوں 17 ہزار پاکستانی مسلمانوں نے رضاکارانہ گرفتاریاں پیش کی ہیں، ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے بے دخلی کے خلاف تحریک التوا سینیٹ میں جمع کرادی ہے۔ دوسرے دن 23 ہزار ایتھوپیائی مسلمانوں نے بھی رضاکارانہ گرفتاریاں پیش کیں۔

اس عمل میں جھڑپیں بھی ہوئیں اور پانچ ہلاکتیں بھی۔ پاکستان میں اس وقت کرپشن، مقدمات، میڈیا پر مباحثے، شہید ہونے پر بحث جاری ہے ، بلدیاتی نظام پر اختلافات، ہندوستان سے تعلقات، کشمیر کا مسئلہ ، ڈرون حملوں پر بیانات، ان سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے پر مباحثے یہ سارے ایشوز کو عوام کو ان کے حقیقی مسائل سے دور رکھنے اور احتجاج نہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ ساری جماعتیں نان ایشوز پر دن و رات بحث میں لگی رہتی ہیں۔ کوئی اس پر بحث، ہڑتال، مظاہرہ، احتجاج یا ریلی نہیں نکالتا کہ آٹا 47 روپے، تیل 200 روپے، سبزیاں 100 روپے، چاول 100 روپے، چینی 60 روپے، گوشت 400 روپے، چائے کی پتی 600 روپے، دودھ 80 روپے، آلو 80 روپے، پیاز 60 روپے اور ٹماٹر 150 روپے کلو کیوں بک رہا ہے؟ واٹر بورڈ اور بلدیہ سمیت دیگر اداروں سے ہزاروں محنت کشوں کو کیوں فارغ کیا جارہا ہے؟

اسٹیل مل، پی آئی اے، کے پی ٹی، اوجی ڈی سی، اسٹیٹ آئل، اسٹیٹ انجینئرنگ ، ریلوے اور دیگر اداروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر جو نجکاری کی جارہی ہے اس سے لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوں گے، مہنگائی بڑھے گی اور پیداوار میں بھی کمی ہوگی۔ ماضی میں کیے گئے اداروں کی نجکاری کی وجہ سے بیشتر ادارے بند پڑے ہیں۔ جن میں سیمنٹ فیکٹریاں، میٹروپولیٹن، اسٹیل اور سندھ ایلکیز قابل ذکر ہیں۔ جب سیمنٹ فیکٹریاں سرکاری تحویل میں تھیں تو اس وقت سیمنٹ 28 روپے بوری تھی جب کہ نجکاری کے بعد 600 روپے بوری ہوگئی۔ سوڈا ایش ہم 50 روپے ٹن فروخت کرتے تھے اور اب 600 روپے فی ٹن درآمد کرتے ہیں۔ گھی 18 روپے کلو تھا اب 200 روپے۔ کے ای ایس سی جب سرکاری تحویل میں تھی تو بجلی فی یونٹ 1 روپے اور 2 روپے تھی اور اب 12/14 روپے ہوگئی ہے۔ حکومت یہ کہتی ہے کہ خسارے میں چلنے کی وجہ سے نجکاری کر رہے ہیں، یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کی وجہ سے سامراجی احکامات کی بجاآوری کر رہی ہے۔

گزشتہ سال او جی ڈی پی نے 90 بلین روپے کا منافع دیا ہے۔ اس کی کیوں نجکاری کی جارہی ہے؟ایسے اور بھی بہت سے ادارے ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور نجکاری کے خلاف اسمبلی میں کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ اگر آواز اٹھاتا ہے تو اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے یا نان ایشوز پر بات کی جاتی ہے۔ اب بھلا ارب پتی لوگ ہیں تنخواہ نہ لے کر کون سا عوام پر احسان کیا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسمبلی کے تمام ارکان تنخواہیں نہ لیتے اس لیے بھی کہ یہ لوگ پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں بجٹ کا بیشتر حصہ کارخانے لگانے پر خرچ کیا جائے، تمام مل، کارخانوں کو قومی ملکیت میں لیا جائے جن میں لوگوں کو روزگار ملے۔ ہمیں بڑی عمارتیں، گاڑیوں، چمک دمک، بڑے پل یا موٹر وے کی ضرورت نہیں۔ پہلے پینے کا صاف پانی پھر دال، چاول، آٹا، تیل، چینی، گوشت، دودھ، آلو اور پیاز سستی چاہیے۔ ان کی پیداوار کو بڑھایا جائے۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور'' امداد باہمی'' کے معاشرے میں ہی مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔