فساد میں انسانیت کی خاطر ہندو پڑوسی نے مثال قائم کردی

بلوائیوں نے3گھروں پرحملہ کیا،ہندوؤں نے مسلمان پڑوسیوں کی ان سے جان بچائی


Express Desk February 29, 2020
سنجیو نے مسلم خاندان کوگھرمیں پناہ دی،حاملہ بہوکوکشیدگی میں اسپتال پہنچایا۔ فوٹو: فائل

KARACHI: دہلی فسادات کے دوران انسانیت کی خاطر ہندو پڑوسی نے لازوال مثال قائم کردی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنونی ہندو بلوائیوں کے حملے کے دوران زمانے سے محلوں میں ایک ساتھ رہنے والے ہندو اور مسلمان سخت امتحان سے دوچار ہوئے جہاں ہندو پڑوسیوں کو کسی بھی صورت اپنے مسلمان بھائیوں کی جان بچانی پڑی ایسی ہی ایک کہانی دلی کے حاجی مجیب الرحمن کی ہے جنھیں ان کے ہندو پڑوسی سنجیو بھائی نے اپنے گھر میں پناہ دی۔

بھارت کی نامور خاتون صحافی برکھا دت نے دلی میں مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کے بلوائی حملوں کے بعد اس واقعے کی تصدیق کے لیے حاجی مجیب الرحمن سے ملاقات کی جس میں انھوں نے صورتحال جاننے کی کوشش کی۔

حاجی مجیب الرحمن دہلی میں مٹھائی کی دکان چلاتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں ہندو آبادی کے بیچ صرف 3 مسلمانوں کے مکانات ہیں بلوائی اچانک جھتے کی شکل میں ہمارے مکانات کے پاس جمع ہوکر نعرے لگانے لگے کہ ملاؤں باہر نکلو ، ہم تمہیں دیکھ لیں گے۔

مغلظات بکنے لگے، وہ سب کے سب باہر سے آئے تھے جنھیں علاقے کا کوئی فرد نہیں پہچان سکا تھا جبکہ ہمارے پڑوسی ہندوؤں نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے ہمارے گھروں کو باہر سے تالے لگاکر اندر رہنے کا کہا اور جب بلوائیوں نے مکانات پر حملے شروع کیے تو ہندو پڑوسیوں نے پچھلے راستے سے ہمیں گھروں سے نکال کر اپنے گھروں میں پناہ دی مکانات کو تالے دیکھ کر واپس چلے گئے قریباً ایک بجے رات کو بلوائی جتھہ دوبارہ محلے میں وارد ہوا اور اب کی بار انھیں یہ بھی پتہ لگ گیا تھاکہ پیشے سے سنار سنجیو بھائی نے پڑوسی مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کو گھر میں پناہ دی ہے۔

بلوائی سنجیو بھائی کے گھر پر آدھمکے اور انھیں دھمکانے لگے کہ جن غداروں کو تم نے پناہ دی ہے انھیں باہر نکالو لیکن سنجیو بھائی نے تمام دھمکیوں کے باجود اپنے مسلمان پڑوسیوں کی حفاظت کی اور انھیں ہندو بلوائیوں کے حوالے نہیں کیا۔

حاجی مجیب الرحمن نے بتایا کہ جیسے تیسے وہ رات کٹی صبح فجر کی اذان کے وقت سنجیو بھائی نے گاڑیوں کا انتظام کیا اور مسلم اکثریت والے علاقے مصطفی آباد میں ہمارے رشتے داروں کے ہاں ہمیں چھوڑ دیا اسی دوران مجیب الرحمن نے بتایا کہ میرے بھتیجے کی بیوی حاملہ تھی اچانک سے اسے درد ہونے لگا اور باہر بلوائیوں کے حملے جاری تھے کہ اسی اثنا میں سنجیو بھائی نے حاملہ لڑکی کو موٹرسائیکل پر بٹھاکر اسپتال پہنچایا۔

صحافی برکھا دت اس کہانی کی تصدیق کے لیے سنجیو کمار سے بھی ملیں اور ان سے سوالات کیے کہ آپ نے کیسے مسلمان خاندان کی جان بچائی تو سنجیو بھائی کا کہنا تھا کہ انسانیت کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ کسی کی بھی جان بچائیں اسی دوران مجیب الرحمن بھائی کا مجھے فون آیا کہ ہماری جان خطرے میں ہے آج رات آپ اپنے گھر میں ہمیں پناہ دے دیں اسی اثنا محلے کے تمام رہائشی جمع ہوگئے اور مجیب الرحمن سے کہا کہ سنجیو کے گھر رکنا چاہیں تو رکیں ورنہ ہمارے گھروں میں چلیں ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔

مجیب الرحمن نے کہا کہ پورا خاندان سنجیو بھائی کے گھر رکے گا رات گئے ان کے بھتیجے کی بیوی کو زچگی کا درد اٹھا جس پر مجیب الرحمن نے کہا کہ سنجیو بھائی آپ انھیں اسکوٹر پر اسپتال پہنچائیں اسی دوران سنجیو نے لڑکی کو ڈسپنسری پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد علاج سے منع کرکے بڑے اسپتال لے جانے کا کہا اور باہر فساد برپا تھا۔

اسی اثنا حاجی مجیب الرحمن نے کہا کہ آپ لڑکی کو بابو نگر لے جائیں وہاں ہمارے کچھ رشتے دار ہیں وہ دیکھ لیں گے لیکن بابو نگر جس علاقے میں ہے وہاں جانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ وہاں آمنے سامنے ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادیاں ہیں اگر میں حاملہ لڑکی کو وہاں لے جاتا تو میں خود میں مشکل میں پھنس سکتا تھا میں اگر اللہ اکبر بولتا تو تب مرتا میں اگر شری رام بولتا تو تب بھی مرتا لیکن پھر میں نے لڑکی کو وہاں پہنچانے کا فیصلہ کیا۔

ایک سوال پر سنجیو نے کہا کہ اس واقعے کے بعد لوگ مسلمان پڑوسیوں کو پناہ دینے پر مجھے غدار اور دہشت گرد کہہ رہے ہیں یہ کہتے ہوئے سنجیو بھائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنے جذبات قابو کرتے ہوئے بولے کہ یہ مذہب کے نام پر تقسیم ہورہی ہے یہی ہمارے رونے کی وجہ ہے اور اسی سے یہ فساد بڑھ رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مجیب الرحمن کے خاندان کے ہمارے گھر سے جانے کے بعد میری بیٹی پریانچی نے 3 دن سے کھانا نہیں کھایا یہ اپنے مسلمان پڑوسیوں سے اتنا پیار کرتی ہے پریانچی نے آتے ہی رونا شروع کردیا برکھادت نے جب بچی سے سوال کرنا چاہا تو وہ زارو قطار رونے لگی پریانچی نے کہا کہ میرے والد نے مجیب الرحمن انکل اور ان کے خاندان کی جان بچائی جس پر میں اپنے والد پر فخر کرتی ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔