شاہین باغ کا بدلہ چاند باغ سے
چیف جسٹس مسٹر بابڑے نے گھاگ وکیلوں کی ایک تین رکنی ٹیم شاہین باغ کے مظاہرین سے سڑکیں خالی کرانے کے لیے بھیجی تھی۔
شاہین باغ کی بہادر اور نڈر خواتین نے بی جے پی کے غنڈوں کو ہی شکست نہیں دے دی ہے بلکہ ہٹ دھرم مودی کی نفرت کے فلسفے پر قائم ہندوتوا حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تقریباً دو ماہ سے وہ مودی کے شہریت کے کالے قانون کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں۔ انھیں شاہین باغ سے ہٹانے کے لیے مودی حکومت نے تمام ہی ہتھکنڈے استعمال کرلیے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ ان پر فائرنگ کی گئی اور بجلی کے ہائی پاورکرنٹ سے بھی ڈرایا گیا مگر وہ اس سے بھی نہیں گھبرائیں۔ دہلی کی دسمبر اور جنوری کی سخت ترین سردی میں بھی کھلے آسمان تلے وہاں دن رات جمی رہیں۔ تھک ہارکر مودی کو انھیں ہٹانے کے لیے شاہین باغ سے ملحقہ سڑکوں کو کھلوانے کے بہانے اپنی سپریم کورٹ کا سہارا لینا پڑا۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر بابڑے نے گھاگ وکیلوں کی ایک تین رکنی ٹیم شاہین باغ کے مظاہرین سے سڑکیں خالی کرانے کے لیے بھیجی تھی۔ ان وکیلوں نے مظاہرین خواتین کو وہاں سے ہٹنے کے لیے بڑی لچھے دار تقریریں کیں ساتھ ہی ان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی مگر وہاں بیٹھی چند دلیر اور مودی کی عیاریوں سے واقف سمجھ دار خواتین نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ یہ وکیلوں کی ٹیم مسلسل تین دن تک وہاں آتی رہی مگر اسے مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان وکیلوں کا استدلال تھا کہ ایک شخص نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے کہ شاہین باغ کی وجہ سے اس علاقے کی سڑکوں سے آمد و رفت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ وہ اس شخص کی عرضی کا خیال کریں اور بھارت کے مفاد میں وہاں سے ہٹ جائیں ساتھ ہی انھوں نے دھرنا دینے کے لیے دوسری جگہ بھی فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ مگر وہاں دھرنا دینے والی ایک خاتون نے انھیں اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ صرف ایک شخص کی عرضی پر تو سپریم کورٹ بے چین و بے قرار ہوگیا ہے مگر چیف جسٹس کو ہم تیس کروڑ بھارت کے مسلمانوں کا کوئی خیال نہیں ہے کہ ہمیں بھارت کی شہریت سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے موجودہ چیف جسٹس ہی کیا الیکشن کمیشن اور سی بی آئی کا سربراہ آر ایس ایس کے آدمی ہیں۔ انھیں مودی حکومت کے حق میں فیصلے دینے اور ان کی پارٹی کو کامیاب کرانے کا کام سونپا گیا ہے۔ آر ایس ایس بھارت میں رام راج قائم کرنا چاہتی ہے اور مودی کی اس وقت کی تمام کارروائیاں اسی سمت میں جا رہی ہیں۔
بھارت کے سابق چیف جسٹس مسٹر گگولی بھی مودی کے اشاروں پر چل رہے تھے۔ انھیں دراصل ایک لڑکی کے مبینہ ریپ کیس میں پھنسا کر مودی حکومت نے بابری مسجد کے خلاف فیصلہ حاصل کرنے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی شق 370 کو ہٹانے کے خلاف حزب اختلاف کی تمام اپیلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈلوا دیا تھا۔ اب نئے چیف جسٹس مسٹر بابڑے ناگپور کے رہنے والے ہیں جہاں آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔
وہ آر ایس ایس کے کٹر حامی ہیں انھوں نے مودی حکومت کے خلاف ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے بلکہ وہ حزب اختلاف سے مسلسل اختلاف کرکے مودی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کی مودی سے یاری کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ عدالتی روایت سے ہٹ کر سپریم کورٹ کی جانب سے مودی کو ایک ذہین شخص قرار دیا گیا ہے جب کہ مودی کی بے وقوفی کے قصے پورے بھارت میں عام ہیں۔
بھارتی عوام ان کا کھلے عام مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ جب سے بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں، مضحکہ خیز اور بھارتی مفاد کے خلاف فیصلے کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے دفعہ 370 کا ہٹانا سرا سر بھارت دشمنی پر مبنی فیصلہ ہے مگر وہ اسے اپنی دانست میں اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کی تمام حزب اختلاف کی پارٹیاں انھیں بھارت کو توڑنے اور بھارتی بھرم کو تباہ کرنیوالا وزیر اعظم قرار دے رہی ہیں۔
مودی نے ٹرمپ کو بھارت کے دورے پر بلا کر کروڑوں روپے ان کے استقبال پر خرچ کردیے ہیں مگر ان کی ٹرمپ سے وابستہ کوئی امید پوری نہیں ہوئی ہے کوئی تجارتی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ سب سے بڑھ کر مودی پر یہ قہر بھی ٹوٹا ہے کہ ٹرمپ نے بھارت میں بھی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش ہی نہیں کی بلکہ کشمیرکو ایک کانٹے سے تشبیہ دی ہے جو ان کے حلق میں چبھتا رہتا ہے جس کا حل ضروری ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو بھارت کی خارجہ پالیسی مکمل فیل ہوگئی ہے اور مسئلہ کشمیر مکمل طور پر نیشنلائز ہو چکا ہے مودی کا اب مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے یوں مودی نے اپنے بے وقوفانہ فیصلوں کے ذریعے بھارت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
گزشتہ سال انھوں نے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے پلوامہ میں جو بم دھماکہ کرا کے اپنے ہی چالیس فوجی ہلاک کرا دیے تھے اب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ بھارت کی ہی کارروائی ثابت ہونے کے بعد پلوامہ دھماکہ بھی مودی کا ڈرامہ قرار دیا جا رہا ہے جو حالیہ الیکشن جیتنے کے لیے رچایا گیا تھا۔ مودی نے آر ایس ایس کی ہٹلرانہ پالیسیوں پر چل کر بھارت کو پوری دنیا کی تنقید کا نشانہ بنا دیا ہے انھوں نے مسلمانوں کے علاوہ دلتوں کے ساتھ جو جابرانہ رویہ اختیار کیا ہے اس سے بھارت کے ٹوٹنے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
دلتوں کو بھارت کی ہندو آبادی میں غلبہ حاصل ہے ان کی آبادی 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ اونچی ذات کے ہندو صرف 20 فیصد ہیں اس طرح مودی حکومت اگر چند سال اور برقرار رہی تو دلتوں کی آزادی کی تحریک رنگ لاسکتی ہے۔ دلتوں کی طرح عیسائی، سکھ اور بودھ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور شاہین باغ میں ان کی خواتین بھی مسلم خواتین کے ساتھ دھرنے میں شامل ہیں۔ دھرنیوالوں کے لیے سکھوں نے لنگر کا انتظام کر رکھا ہے اور سکھ رضاکار ان خواتین کی حفاظت کے لیے تعینات ہیں۔
مودی کے نافذ کردہ شہری کالے قانون کے خلاف یہ احتجاج صرف دہلی تک محدود نہیں ہے۔ ہندوستان کے تین سو شہروں میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں اور ان کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ جنھیں ختم کرانے کے لیے اب مودی نے اپنے غنڈوں کو میدان میں اتار دیا ہے۔ انھوں نے دہلی کے علاقے چاند باغ میں شہری قانون کے خلاف ہونیوالے احتجاجی مظاہرے پر حملہ کرکے پہلے دن تین مسلمانوں کو شہید کردیا تھا اور مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دی تھی بعد میں مزید غنڈوں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کے لیے جھونکا گیا۔
منگل کی شام تک پچیس مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا تھا اور سیکڑوں مسلمانوں کے گھروں کو نذرآتش کر دیا گیا تھا یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب ٹرمپ بھارت میں موجود تھے۔ اس وقت دہلی میں سخت خوف و ہراس پھیلا دیا گیا ہے مگر شاہین باغ کی خواتین پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوا ہے اور بھارت کے دوسرے شہروں میں بدستور دھرنے جاری ہیں۔ دھرنے دینے والی خواتین کا یہ عزم بتا رہا ہے کہ وہ تشدد کے باوجود مودی کو شکست دے کر رہیں گے اور مودی کو اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنا پڑے گا۔