نجی علاج و معالجہ کہیں نہیں

نجی اسپتالوں کے ڈائریکٹراب مریض کی بیماری کاپتہ اپنی قابلیت سے نہیں بلکہ مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔


Muhammad Saeed Arain March 02, 2020

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نجی اسپتالوں میں علاج نہیں ہوتا۔ ڈاکٹرزکی غفلت سے مریض مر جاتے ہیں مگرکسی کو فکر نہیں۔ ڈاکٹروں کی غفلت سے مر جانے والوں کے لواحقین کو دس سے 20 ملین روپے اگر دینے پڑ جائیں تو پتہ چل جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے لاہور میں گندے نالوں سے متعلق از خود نوٹس کیس نمٹا دیا، جس روز سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ نجی اسپتالوں میں علاج نہیں ہوتا، اسی روز لاہور کے نجی اسپتال میں مشہور اداکار عمر شریف کی بیٹی حرا شریف ڈاکٹرز کے ہاتھوں غفلت کے باعث انتقال کر گئیں۔ مرحومہ گردوں کے انفیکشن میں مبتلا تھیں اور علاج کے لیے 34 لاکھ روپے حال ہی میں ادا کیے گئے تھے اور اس سے قبل بھی اتنی ہی رقم ادا کی گئی تھی مگر اتنی بڑی رقم بٹور کر بھی ڈاکٹر مافیا نے غفلت کا مظاہرہ کیا جو حرا کی موت کا باعث بن گیا۔

ڈائریکٹر پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی عدنان احمد کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر گردے ٹرانسپلانٹ کرنیوالے ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی تا کہ پتہ لگایا جا سکے کہ خاتون کی موت کن لوگوں کی غفلت سے ہوئی۔

گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کرنیوالے ڈاکٹر فواد ممتاز کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے جو حرا کی موت کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ حرا عمر کی موت کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت نے ڈاکٹروں کو ذمے دار قرار دے کر ایک چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو مرحومہ کے بھائی کی شکایت پر قائم کی گئی ہے جس میں ڈاکٹر فواد کو حرا کی موت کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے جس نے غیر قانونی پیوند کاری کے لیے اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے تھے جو گردوں کے مریضوں کو پھانس کر لایا کرتے تھے۔

ایک خبر کے مطابق ایف بی آر نے کراچی کے 17 بڑے اسپتالوں کے بڑے ڈاکٹروں کی آمدن اور اثاثہ جات چھپانے کا ڈیٹا طلب کر لیا ہے۔ نجی اسپتال چلانیوالوں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے اور بڑے ڈاکٹروں کے بینک اکاؤنٹس اور بیرون ملک دوروں کی تفصیلات بھی جمع کر کے ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر نے بڑے نجی اسپتالوں سے ان کی آمدنی کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں اور ایک بڑے میموریل اسپتال کو تفصیلات فراہم نہ کرنے پر 25 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بڑے نجی اسپتالوں میں لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے اور وہ اپنی آمدنی کی تفصیلات فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اکثر بڑے نجی اسپتالوں میں آمدنی درست طور پر ظاہر نہیں کی جاتی اور ظاہر کی جانیوالی آمدنی جعلی ہوتی ہے جس میں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ دکھا کر ٹیکس بچانے کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں نامور اور بڑے ڈاکٹروں جن میں سرجن اور فزیشن شامل ہیں نجی اسپتالوں میں مریضوں کو معائنہ کی منہ مانگی بھاری فیسیں طلب کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر فی مریض ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں اور ان سے ہفتوں پہلے وقت لینا پڑتا ہے مگر کسی مریض کو فیس کی تحریری رسید نہیں دی جاتی اور صرف متعلقہ تاریخوں کا ٹوکن نمبر جاری کیا جاتا ہے اور نجی اسپتالوں میں وصول کی جانے والی حقیقی فیس کا ان اسپتالوں کے مالکان مخصوص عملے اور وقت دینے والے بڑے ڈاکٹروں ہی کو ہوتا ہے۔

کراچی کے مہنگے علاقوں میں قائم ایک مشہور میموریل اسپتال کی ایک برانچ نارتھ ناظم آباد میں ہے جہاں کسی مریض کو لے جانے کے بعد سب سے پہلے مریض کی مالی معلومات طلب کرتا ہے جو اگر مالدار ہوتا ہے تو اسے فوراً داخل کر لیا جاتا ہے اور مطلوبہ مالی معیار کا حامل نہ ہونے پر مشورہ دیا جاتا ہے کہ مریض کو عباسی شہید اسپتال لے جائیں۔ ملک کے بعض بڑے اسپتالوں سے متعلق یہ خبریں بھی مشہور ہیں کہ وہاں داخل اگر کوئی مریض دوران علاج انتقال کر جاتا ہے تو اس کی میت اسپتال کے مکمل واجب الادا بل کی ادائیگی کے بغیر ورثا کے حوالے نہیں کی جاتی۔

کہیں معمولی رقم کم کرکے ہزاروں کی صورت میں میت دے دی جاتی ہے اور رقم لاکھوں روپے ہونے کی صورت گھنٹوں بلکہ دنوں کے لیے روک لی جاتی ہے اور مکمل ادائیگی تک میت کو روک کر مرنیوالے کے ورثا کو پریشان کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ نجی اسپتالوں کے لیے ایسی قانون سازی کی جائے کہ اگر دوران علاج کسی مریض کا انتقال ہو جائے تو مذکورہ اسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ مرنیوالے مریض کی میت فوراً بقایا بل کی ادائیگی کے بغیر ورثا کے حوالے کردی جائے اور مریض کے مر جانے کی صورت میں اس کے ورثا اگر خود ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو بل وصول کر لیا جائے اور اگر میت کے ورثا بل کی ادائیگی کے قابل نہ ہوں تو ادائیگی تک میت نہ روکی جائے اور بغیر بل ادائیگی میت ورثا کے حوالے کردی جائے۔

سرکاری اسپتالوں سے عوام کا اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے یا برائے نام رہ گیا ہے اور کسی مریض کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ ہو جائے تو اس کے ورثا کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے فوری طور کسی قریبی نجی اسپتال پہنچایا جائے تاکہ ہنگامی طور پر اسے فوری طبی امداد دے کر اس کی جان بچائی جائے جس کے بعد ورثا وہیں علاج کرانے کی مالی طاقت رکھتے ہوں تو وہیں مریض کو داخل کرادیں یا وہاں سے سرکاری یا کسی سستے نجی اسپتال منتقل کرسکیں۔اکثر نجی اسپتالوں میں مریض کی زندگی سے زیادہ اسپتال کے بل بڑھانے میں دلچسپی لی جاتی ہے اور غیر ضروری ٹیسٹوں کے نام پر مریضوں کے ورثا پر مالی بوجھ بڑھایا جاتا ہے۔

نجی اسپتالوں کے ڈائریکٹر اب مریض کی بیماری کا پتہ اپنی قابلیت سے نہیں بلکہ مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور دواؤں کے تجربے بھی اب مریضوں پر ہو رہے ہیں۔ ایک دوا کام نہ کرے تو دوری پھر تیسری اس طرح تجربے ناکام ہونے پر مریض کو کسی بڑے اسپتال یا مشہور اور مہنگے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے کہا جاتا ہے اس طرح مریض مختلف اسپتالوں میں لٹنے کے بعد قرض دار ہوتے رہتے ہیں یا اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں مگر مریض پر تجربے کرنیوالوں پر اس لیے اثر نہیں ہوتا کہ فوت ہونے والوں کے ورثا حکم ربی سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں اور نجی اسپتال ذمے دار قرار نہیں پاتے۔ سپریم کورٹ کے بقول اگر مرنے کے ذمے دار نجی اسپتالوں پر بھاری جرمانے ہوں تو وہ اپنے مریض پر توجہ دینے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ حکومت تو کچھ نہیں کرے گی کیونکہ بڑوں کے خود اپنے اسپتال مہنگے ہیں۔

اس لیے عدالت عظمیٰ اپنے ریمارکس پر حکومت سے عمل کرائے۔ تمام بڑے ڈاکٹروں کی فیس سرکاری طور پر مقرر کی جائے اور ہر مرض کے ماہر ڈاکٹروں کو فیس کی رسید کا پابند کیا جائے۔ نجی اسپتالوں کے پرائیویٹ وارڈز کے چارجز مہنگے ہوٹلوں سے بھی زیادہ ہیں جن کے چارجز، ٹیسٹوں کی رقم دواؤں کی قیمتوں کی طرح سرکاری طور پر مقرر ہوں تو نجی اسپتالوں اور مشہور ماہرین علاج کی اندھی کمائی اور لوٹ کھسوٹ میں کمی لائی جا سکتی ہے مگر یہ سب کچھ کرے کون؟ نجی اور سرکاری اسپتال صرف کمائی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور علاج و معالجے والے لوٹنے کے لیے آزاد اور ہر ذمے داری سے مبرا مگر نام خدمت کا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں