سخت سزاؤں پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے انقلابی اقدامات کرنا ہونگے

اس اہم ترین مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہونا ہوگا


اس اہم ترین مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہونا ہوگا

بچوں سے جنسی زیادتی ایک افسوسناک مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے دنیا بھر میںاقدامات کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی بچوں سے زیادتی کے شرمناک واقعات رونما ہو رہے ہیں اور گزشتہ چند برسوں سے ان میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حکومت پاکستان نے بچوں سے زیادتی کے واقعات کے تدارک اور زیادتی کے مجرمان کو سزا دینے کے حوالے سے قانون سازی و دیگر اقدامات کا آغاز کردیاہے۔ جنوری میں قومی اسمبلی سے 'زینب الرٹ بل' منظور کیا گیا جبکہ فروری میں بچوں سے زیادتی کے مجرم کو سزائے موت دینے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں قراردادبھی منظور کی گئی ۔ اس اہم پیشرفت کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد '' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری
(وفا قی وزیر انسانی حقوق)

قصور میں ننھی زینب سے زیا دتی کے وقت وفاق میں ہماری حکومت نہیں تھی ۔تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل پیش کیا تھا لیکن اس وقت کی حکومت کی عدم دلچسپی سے اس بل پر کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اسد عمر نے یہ بل ہمیں بھیجا جس پر وزارت انسانی حقو ق نے 18 ویں آئینی ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل کا ڈرافٹ تیا رکیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھیج دیا۔ یہ بل اب قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے اور سینیٹ کی کمیٹی میں موجود ہے، وہاں سے منظوری کے بعد یہ قانون لاگو ہوجائے گا۔ ایک سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ قانون صرف اسلا م آباد کیلئے کیوں، پورے ملک کیلئے ہونا چاہیے۔

18ویںآ ئینی ترمیم کے بعد تمام صوبے قانون سازی کرنے میں آزاد ہیں اورآرٹیکل 147کا استعمال کرتے ہوئے وفاق میں کئی گئی قانون سازی کوصوبائی سطح پر لاگو کر سکتے ہیں جیسے آ رٹیکل 147 کا استعمال کرتے ہوئے ہندو میرج ایکٹ کا قانون صوبائی سطح پر لاگو کیا گیا۔ ہمارے پاس تیز قانون سازی کیلئے یہ آسان طریقہ تھا کہ اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس کرتے اور جو صوبہ چاہے ، اس بل کو اپنے صوبے میں لاگو کر لے۔

میرے نزدیک اس مسئلے پر کسی کو بھی سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے صوبائی سطح پر لاگو کرنا چاہیے۔ ہم نے قومی اسمبلی سے جو قانون پاس کیا ہے، اس کے تحت کسی بھی بچے کے اغوا ء یا جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر سماعت مکمل کرنا ہو گی جبکہ پولیس کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعہ کی رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹوں کے اندر اندر کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور اگر پولیس افسر قانون کے مطابق اس پر عملدرآمد نہیں کرتا تو یہ قابل سزا جرم تصور ہو گا۔

یہ بل بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک نئے ادارے 'زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری اتھارٹی' کے قیام کی راہ ہموار کرے گا جوبچے کی گمشدگی سے لیکر اس کی باحفاظت بازیابی اور بازیاب ہونے کے بعد بحالی کے لیے موثر اقدامات کرے گا۔بچوں کے جنسی استحصال کرنے کے مقدمے میں دی جانے والی سزا کو 10 سال سے بڑھا کر 14 سال کیا گیا ہے اوراگر کسی بھی کم عمر لڑکے یا لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد قتل یا شدید زخمی کر دیا جاتا ہے یا اسے خواہش نفسانی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

18 سال سے کم عمر بچے کو ورغلا کر یا اغوا کر کے اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا یا اسے اس کے والدین یا قانونی سرپرست کی تحویل سے محروم کیے جانا قابل سزا جرم ہو گا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے اس بل میں غیر ضروری تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے بطور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقو ق جو چیزیں منظور کیں وہ سینیٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر نے مسترد کر دیں حالانکہ دونوں قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین پیپلز پارٹی سے ہی ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کی جانب سے بل میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہے اس کے بعد یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں جائے اور پھر بلاول بھٹو ان پر اعتراض اٹھا دیںگے اور یہ سلسلہ اسی طرح جا ری رہے گا۔ وزارت انسانی حقوق نے اسلام آبادچائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے رولز بنائے ہیں جن کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے۔

بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن برائے حقوق بچگان کو اکٹھا کر کے رولز بنا رہے ہیں ، سوائے فوجداری جرائم کے زینب الرٹ بل کے تمام نکات ان رولز میں شامل کریں گے۔زینب الرٹ بل کے مستقبل کا نہیں پتہ لیکن ہماری کوشش ہے کہ بچوں سے جنسی زیا دتی اور اغوا ء کے بڑھتے واقعات کو روکا جائے۔

یہ تمام چیزیں رولز میں آنے سے معصوم بچوں سے جنسی استحصال کرنے والوں کیخلاف کاروائی میں مدد ملے گی کیونکہ قومی کمیشن برائے حقوق بچگان منظور ہو چکا ہے۔ اسلام آباد چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے رولز بن گئے ہیں اور اس پر جلد کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ سرعام پھانسی سے متعلق قرارداد حکومتی نہیں پرائیویٹ تھی جو تین ایم این ایز کی جانب سے پیش کی گئی۔ اس معاملے پر وزیر قانون نے بھی کہا کہ سرعام پھانسی نہ صرف شریعت کیخلاف ہے بلکہ آئین کی خلاف ورزی بھی ہے اور حکومت آئین کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتی۔آئین میں کسی بھی قسم کی تبدیل کیلئے آئینی ترمیم کرنا ہو گی۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز
( چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل )

بچوں کے جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم میں اضافہ افسوسناک ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران نہ صرف بچوں کے جنسی تشدد میں اضافہ ہوا بلکہ ایسے جرائم میں ملوث درندہ صفت لوگ ننھے بچوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنانے کی بعد قتل بھی کر رہے ہیں۔جب قصور میں زینب امین کا قتل ہوا تو اس وقت بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر تفصیل سے بات کی اور ہم نے یہی سفارش کی کہ قرآن پاک میں سزا کے لیے جو طریقہ ہے اس پر عمل کیا جائے اور طریقہ یہ ہے کہ سزا کے نفاذ کے وقت ایک طائفہ یعنی ایک جماعت اور گروہ موجودہ ہو اور فقہاء کی تفسیر کے مطابق وہ متعدد افراد ہو سکتے ہیں تاکہ اسلامی فلسفہ سزا برائے زجر اور انسداد جرائم کا مقصد حاصل ہو جائے۔

سرعام سزا کے حوالے سے قرآن پاک میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی مجرم کو سزا دینے کے وقت 30سے 40افراد کی موجودگی ضروری ہے اور موجودہ حالات میں کسی بھی مجرم کو پھانسی کی سزا دیتے ہوئے اس کے عزیز و اقارب سمیت کافی لوگ موجود ہوتے ہیں جس کی تشہیر ہو جائے تو عبرت کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔ ملک کاعدالتی نظام اصلاح طلب ہے اور اس کے لیے حکومت کو فوری طور پر بڑے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل نے 2 مزیدسفارشات پیش کیں ، ایک تو یہ کہ ابتدائی طور پر تھانوں کے اندر یا باہر اس گھناؤنے ، قبیح اور خطرناک جرم کے لیے خصوصی سیل قائم کرنا ضروری ہیں۔ ددوسرا یہ کہ خصوصی عدالتیں قائم ہوں تاکہ جلد ازجلد سماعت ہوسکے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 3،4 سال بعد فیصلہ ہو تا ہے جس کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قتل کی سزا قتل یعنی قصاص ہی ہونی چاہیے۔ قومی اسمبلی میں سرعام پھانسی کی قرارداد جذباتی فیصلہ ہے جس پر عملد ر آمد کی کوئی بائنڈنگ نہیں۔ ہمیں جذباتی اقدام کی بجائے معاشرے کی اصلاح اور بہتری کیلئے کثیر الجہتی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے بھی سرعام پھانسی پر پابندی عائد کر رکھی ہے لہٰذا سرعام پھانسی دینے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور امن امان کی صورتحال خراب ہوگی۔ چوک چوراہے کے بجائے جیل کے اندر ہی پھانسی دی جائے اور پھانسی کے مناظرکی تشہیر کی جائے۔جرم کے خاتمے کا مقصد حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشا ت پر غور کرے اور وزارت قانون ان کے نفاذ کی کوشش کرے۔ ملک میں ایسا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں مظلوم کو گھر کی دہلیز پر انصاف ملے۔ افسوس ہے کہ قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔

منیزہ بانو
( ایگزیکٹو ڈائریکٹر ساحل )

ایک بچے کے ساتھ جنسی استحصال میں قیمتی جانی نقصان کے ساتھ پورے خاندان کو نفسیاتی اور جذباتی طور پہ بھی ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر صد افسوس اس معاشرے کے دوہرے معیارپر جہاں ظالم تو سر اٹھا کے دھڑلے سے پھرتا ہے مگر مظلوم کو حقارت، ہزیمت، ہتک آمیز رویے اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ان کی مشکلات میں اضافے کا ہی باعث بنتے ہیں۔سماجی روایات کے پیش نظر بچوں سے جنسی استحصال کوپاکستانی معاشرے میں ہمیشہ نظر انداز کیاجاتا رہا ہے مگر گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جنسی زیا دتی کا شکار بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس چیز کا مظہر ہے کہ معاشرے میں لوگ سماجی روایات کی قید سے آزاد ہو کر ظلم کیخلاف کھڑے ہو رہے ہیں اور لوگوں کا خود پر اعتماد بحال ہو رہا ہے کہ کیسے اس برائی کا خاتمہ کیا جا سکے۔بچوں کا جنسی استحصال ایک جرم ہے جس کو ہر فورم پر رپورٹ ہونا چاہیے۔

اس وقت والدین بچوں سے متعلق عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کے ذہن سے بچوں سے متعلق خدشات کو دور کریں۔ افسوس ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں معصوم بچوں سے زیا دتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ زینب الرٹ بل پر حکومت کی سنجیدگی خوش آئند ہے۔ اس اہم معاملے پر دیگر جماعتوں کو حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔

بہتر ہے اس بل پر مزید غور کر کے موثر قانون سازی کی جائے اور ایسی سزائیں دی جائیں جن سے معاشرے کی اصلاح ہو نہ کہ جرائم بڑھیں،قومی اسمبلی میں سرعام پھانسی سے متعلق حکومتی قرارداد کی منظوری اپنی جگہ لیکن پوری دنیا میں سرعام پھانسی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ایسی سزاؤں سے جرائم کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بچوں کے جنسی استحصال کو روکنے کیلئے قوانین موجود ہیں۔ ضرورت صرف ان قوانین پر عملدرآمد کی ہے جس کیلئے ہمیں پولیس کا رویہ ٹھیک کرنا ہوگااور کارگردگی بہتربنانا ہوگی۔جب کوئی بچہ لاپتہ ہوتا ہے تو پولیس کی جانب سے صرف اس وجہ سے ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی کہ ریکارڈ پر آنے سے ان کی کارگردگی پر اثر پڑے گا۔

پولیس کے رویو ں میں تبدیلی کیساتھ پولیس کو پیشہ وارنہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ معصوم بچوں سے جنسی زیا دتی کے بڑھتے واقعات دیکھیں تو گزشتہ پانچ برس کے دوران 17ہزارسے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 18 سال سے کم عمر 10 ہزار بچیوں اور ساڑھے 7 ہزار بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔

حقائق اور اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو گزشتہ پانچ برس کے دوران 5 ہزار 387 بچے اغوا ہوئے ۔ 2 ہزار 236 بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، 995 کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی، 2 ہزار 78 بچوں کے ساتھ بدفعلی ، 1 ہزار 37 کے ساتھ اجتماعی بدفعلی کے واقعات رونما ہوئے، زیادتی کے بعد 256 بچوں کو قتل کیا گیا، جبکہ 1 ہزار 312 بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی عرصے کے دوران ایک ہزار سے زائد بچے لاپتہ بھی ہوئے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جہاں11 ہزار سے زائد کیس سامنے آئے۔ سندھ میں 4 ہزار 236، خیبر پختونخوا میں 618، بلوچستان میں 710 کیسز سامنے آئے۔

عدنان احمد رندھاوا
( ماہر قانون)

کسی بھی قانون کی موجودگی سے زیادہ اس پر عملدرآمد اہم ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں سے جنسی استحصال سے متعلق پہلے کوئی قانون موجود نہیں تھا تاہم اب اس حوالے سے قوانین پر حکومتی سنجیدگی خوش آئند ہے۔زینب الرٹ بل میں ضابطہ اور مقدمات کے سپیڈی ٹرائل کیلئے تجاویز زیر غور ہیں لیکن ماضی میں مقدمات کے سپیڈی ٹرائل کیلئے جو خصوصی عدالتیں بنائی گئیں وہ اپنے مقاصد میں اس طرح کامیاب نہیں ہوئیں جیسے ہونا چاہیے تھا۔

زینب الرٹ بل سے پہلے سے ایک جنرل قانون سی آر پی سی 377اور 376 موجود ہے جو ریپ سے متعلق ہے لیکن اس میں چھوٹے بچے یا بڑے کا کوئی فرق موجود نہیں،اس حوالے سے بچوں سے جنسی زیادتی سے متعلق بنائے جانے والے نئے قوانین میں سخت سزاؤں کو بل کا حصہ بنانا چاہیے جیسا کہ بچوں کو تصاویر دکھا کر یا لالچ دیکر یا ڈرا کراثرانداز ہونے کی کوشش کو کریمنل لاء کا حصہ بنایا گیا ہے جو اچھی بات ہے۔ میڈیاکی آگاہی کی وجہ سے لوگوں میں جرم کیخلا ف شعور پیدا ہو رہا ہے اور اب بچوں کے جنسی استحصال اور زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا۔

پاکستان کا آئین سرعام پھانسی کی اجازت نہیں دیتا۔ پھانسی کا طریقہ کار آئین اور قانون میں موجود ہے۔ قوانین میں جیل کے اندر رہی چند متعلقہ لوگوں کی موجودگی میں سزا ئے موت دی جاسکتی ہے۔ جو قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قانون کا کوئی بھی طالبعلم یا باشعور شہری اس سے اتفاق نہیں کرسکتا ۔ چند لوگ نمبر بنانے کی خاطر اس طرح کی قراردادیں پارلیمنٹ میں پیش کر کے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔

سرعام پھانسی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایسے عمل سے معاشرہ تباہی کی جانب جاتا ہے۔ سزا کو زیا دہ سخت بنا کر اور اس میں بربریت شامل کر کے معاشرے کو جرائم سے نہیں روکا جاسکتا۔ میرے نزدیک سزا پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مجرم کو ڈر ہو کہ اگر میں جرم کرونگا تو مجھے سزا ملے گی۔سینیٹ کی جانب سے زینب الرٹ بل میں ترامیم کیساتھ اس کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ عدالتی نظام کے متعلق شکایت ہے کہ یہ ڈس فنکشنل ہے۔

کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جن میں ترامیم کا اختیار صوبوں کے پاس ہے لیکن بچوں سے جنسی زیادتی کا معاملہ قومی معاملہ ہے لہٰذا اس حوالے سے وفاقی سطح پر قانون سازی ہونی چاہیے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ لاپتہ ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر ہوتی ہے اور پولیس کو یہ معلوم نہیں ہوتاکہ ایف آئی آر کس دفعہ کے تحت درج کی جائے۔

اغوا ء ہونے والے بچے کے حوالے سے ابتدائی چند گھنٹے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ایف آئی آر میں تاخیر سے مجرموں کو فائدہ اور لواحقین کو نقصان ہوتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں معصوم فرشتہ بچی کے اغوا ہونے پر دو دن تک ایف آئی آر درج نہ ہوسکی اور پولیس کا بچی کے والدین سے رویہ انتہائی نا مناسب تھا۔ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154کے تحت بچے کی گمشدگی کی بروقت ایف آئی آر درج کرنا ضروری ہے ۔ بچوں سے زیادتی کے کیسز کیلئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے جو تین ماہ کے اندر اندر کیسز نمٹانے کی پابند ہوں۔ اغواء کی اطلاع ملتے ہی پولیس کو ایف آئی آر درج اور 14 روز کے اندر چالان پیش کرنے کا پابند بنایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔