کرو نہ وائرس

’کرو، نہ‘ کے بجائے، ’کرتے ہیں‘ والے رویوں کو اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ ہمیں کسی کورونا وائرس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی


کچھ نہ کرنے کے وائرس نے پہلے ہی ہمارے معاشرے کو معذور بنا رکھا ہے۔ )(فوٹو: فائل)

''بھائی ایک سرجیکل ماسک دینا'' صاحب نے میڈیکل اسٹور والے سے کہا۔

''جی یہ لیجئے''۔ میڈیکل اسٹور والے نے سرجیکل ماسک نکال کر صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا۔

''کتنے ہوئے؟'' صاحب نے پوچھا۔

جواب ملا ''40 روپے''۔

''40 روپے؟ یہ تو 2 روپے کا تھا پرسوں تک؟'' صاحب نے حیران تھے۔

میڈیکل اسٹور والے نے ایسی نظروں سے صاحب کو دیکھا جیسے وہ مریخ سے بس ابھی اتر کر آئے ہیں۔ ''بھائی کہاں رہتے ہو؟ مارکیٹ میں شارٹ ہے۔ یہ بھی ابھی 40 کا مل رہا ہے، کل یہ بھی نہیں ملے گا، کورونا وائرس آگیا ہے ناں''۔

---

کچھ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہیں، ہاتھوں میں ماسک کے ڈبے پکڑے ہوئے ہیں۔ ایک موٹر سائیکل سوار نے بائیک روکی، نوجوان نے کوئی سوال کیے بغیر، ایک ماسک اس کے ہاتھ میں تھما دیا، اور آگے جانے کےلیے بڑھا۔

موٹر سائیکل سوار نے پوچھا ''بھائی یہ کیا کر رہے ہیں؟''

''جناب مارکیٹ میں لوگوں کو ماسک نہیں مل رہے۔ ہم لوگوں میں مفت ماسک تقسیم کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے آپ کو کورونا وائرس سے محفوظ کرسکیں''۔

''بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ۔ اللہ آپ کی مدد فرمائے۔ (آمین)''

---

''کسی بھی قسم کی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ہم نے ٹاسک فورس بنادی ہے۔ ہیلپ لائن نمبرز بھی جاری کر رہے ہیں۔ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تیار ہیں''۔ وزیر صاحب بہت پرجوش انداز میں ٹی وی پر اظہار خیال کررہے تھے۔

---

یہ ہمارے پاکستانی معاشرے کے تین پہلو ہیں اور اسی طرح کے کئی اور پہلو ہر ایمرجنسی صورتحال میں ہمیں عام طور پر نظر آتے ہیں۔ کہیں کچھ لوگ اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اور وہیں پر ایسے افراد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو ایسی کسی بھی صورتحال میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ لوگوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں اور جس حد تک ہوسکے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حکومت ایسی صورتحال میں زیادہ تر بیان بازی، پوائنٹ اسکورنگ میں لگی نظر آتی ہے۔ اور حکومت کی رٹ ایسی صورتحال میں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلی قسم کے لوگوں پر نظر رکھنے کےلیے سخت نگرانی کا نظام رائج کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہی نہ ہوں۔ اور دوسری قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے، انہیں سہولیات دینے، ان افراد کا ایک منظم ڈیٹابیس بنانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ کسی بھی قسم کی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ایسے افراد سے فوری رابطہ کیا جاسکے اور ان کی خدمات سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ ساتھ ہی ایسے افراد کے اس احساس ذمے داری کا مناسب طور پر اعتراف کیا جائے، تاکہ یہ حکومت کے موثر بازو بن سکیں۔

ایمرجنسی صورتحال میں بجائے بیان بازی کے، ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے، سیاسی اختلافات الگ رکھ کر لوگوں کی خدمت کے جذبے کو سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔

ایمرجنسی صورتحال میں ایمرجنسی سے زیادہ خوف لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا چینلز کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے لوگوں کو آگاہ رکھنے سے ایمرجنسی پر بہتر انداز میں قابو پایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ حکومت صرف اپنے طور پر سب کچھ نہیں کرسکتی، لوگوں کی شمولیت لازمی ہے۔

کچھ دن پہلے ہی کراچی میں کیماڑی کے گیس لیک ہونے کے واقعے نے جہاں ایک طرف کئی معصوم انسانوں کی جانیں لے لیں، وہیں پٹرول کی مصنوعی قلت کی افواہ نے لوگوں کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ اور یہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوا۔

کوشش کیجئے، اپنے اردگرد موجود افراد میں منفی سوچ کے بجائے مثبت پہلوؤں پر بات کریں۔ ہم بحیثیت قوم بہت مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ منفی ہوں تو اتنا منفی ہوجاتے ہیں کہ کسی کو برداشت بھی نہیں کرپاتے اور مثبت ہوجائیں تو پورا رمضان روڈ پر لوگوں کو افطار کرواتے، ایدھی، چھیپا، سیلانی، انڈس جیسے اداروں کو سپورٹ کرکے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں۔

ہمیں ان ہی مثبت رویوں کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔

'کرو، نہ' کے بجائے، 'کرتے ہیں' والے رویوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمیں کسی کورونا وائرس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں