ہر بار خوش قسمتی ساتھ نہیں دیتی
خاصے دنوں کے بعد دل کچھ لکھنے پر مائل ہوا ہے‘ کچھ ذاتی مصروفیت اور کچھ مہنگائی نے ذہن کو جکڑے رکھا۔
QUETTA:
خاصے دنوں کے بعد دل کچھ لکھنے پر مائل ہوا ہے' کچھ ذاتی مصروفیت اور کچھ مہنگائی نے ذہن کو جکڑے رکھا۔ اس دوران ملک میں بہت کچھ ہوا' ایسا کچھ جس کی شاید میاں نواز شریف کو توقع نہیں تھی' انھوں نے اقتدار بلند توقعات کے ساتھ سنبھالا تھا' طالبان کے ساتھ مذاکرات' بھارت کے ساتھ دوستی' چین اور وسط ایشیا تک تجارت' ملک میں موٹر ویز اور ریلوے لائنوں کا جال' صنعت و کاروبار کی ترقی' یہ وہ خواب تھے جو مجھے اور آپ کو دکھائے گئے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزرا سب کچھ سراب ثابت ہو گیا' مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے' ڈرون حملوں نے طالبان کے کس بل تو نکال دیے ہیں لیکن حکومت بھی اوندھے منہ پڑی ہانپ رہی ہے۔ سانحہ راولپنڈی نے پنجاب حکومت کی اچھی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ عمران خان صاحب نے خیبر پختونخوا میں اودھم مچا رکھا ہے' وہ نیٹو سپلائی رکوانے کے لیے دھرنے دے رہے ہیں' ان کے حامی پشاور سے طورخم جانے والے ہر ٹرک ٹرالر کو نیٹو سپلائی سمجھ کر روک رہے ہیں اور بیچارے ڈرائیوروں اور کلینروں کو مار رہے ہیں' یہ میرے وطن کا نقشہ ہے' آپ خود ہی بتائیں کہ ایسے میں کون کم بخت خوش اور مطمئن رہ سکے گا۔
اب تو دل جلے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت پر دبائو اس قدر زیادہ بڑھا ہے کہ اس کے دو وفاقی وزیروں دل کی تکلیف میں مبتلا ہو کر اسپتال جانا پڑا'وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے علاج کا خرچہ بھی جیب سے ادا کیا' بیچارے سرتاج عزیز وفاقی وزیر تو نہیں لیکن ان کا درجہ وہی ہے، ان کے دل پر تو ڈرون میزائل پڑا ہے' دیکھیں وہ کیسے صحت یاب ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے صوبائی وزیر صحت خلیل طاہر سندھو سے وزارت واپس لے لی گئی' اندر کی کہانی یہ تھی کہ خلیل طاہر سندھو مسیحی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں' پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے آدمی ہیں۔ سپریم کورٹ کی سطح کے بہترین وکیل ہیں' کچھ لوگوں کو ایک مسیحی کی یہ ترقی و عزت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی'وہ اگر مہنگا سوٹ پہن لیتے تو اس پر بھی کھسر پھسر کی جاتی ۔
پنجاب میں ڈینگی کے ایشو پر اس لابی کی بن آئی' ایک اجلاس میں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف،سندھو صاحب پر برس پڑے' خلیل طاہر سندھو کے لیے یہ رویہ غیر متوقع تھا' انھیں ذہنی طور پر شدید صدمہ پہنچا اور وہ اس قدر مایوسی کا شکار ہوئے کہ وزارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا' وہ تو خدا بھلا کرے رانا ثناء اللہ کا کہ انھوں نے اس معاملے کو سنبھالا اور استعفے کے معاملے کو دبا لیا' اگر خلیل طاہر سندھو مستعفی ہو جاتے تو اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے حکومت کی بدنامی ہونا تھی اور یہ معاملہ امریکا اور یورپ تک پہنچ سکتا تھا۔ بہر حال خلیل طاہر سندھو نے بھی پارٹی وابستگی کو مقدم رکھا اور گھر کی بات کو گھر میں ختم کر کے اقلیتی امور کی صوبائی وزارت قبول کر لی' یوں پنجاب حکومت ایک مشکل سے نکل آئی حالانکہ وزارت صحت کی کارکردگی میں اب بھی کوئی انقلاب نہیں آیا ہے۔ سردی کے اس موسم میں بھی ڈینگی کے کیس سامنے آ رہے ہیں حالانکہ ان ایام میں ڈینگی کی وبا کم ہو جاتی ہے۔ ہماری وفاقی وزرا سے بھی درخواست ہے کہ طاہر خلیل سندھو سے سبق حاصل کریں اور اگر انھیں اپنے وزیر اعظم یا کسی ساتھی وزیر کے موقف سے اختلاف ہے تو وہ اس کا اظہار کابینہ یا دیگر پارٹی اجلاسوں میں کیا کریں۔ یوں ان کی حکومت اور وہ خود جگ ہنسائی سے بچ جائیں گے۔
سانحہ راولپنڈی بھی پنجاب میں بڑے بحران کا سبب بن سکتا تھا' پنجاب کے شہروں اور دیہات میں کشیدگی کی فضا موجود تھی' سوشل میڈیا جلتی آگ پر مزید تیل چھڑک رہا تھا' اس بحران کو ختم کرنے میں بھی رانا ثناء اللہ نے متحرک کردار ادا کیا' مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ ان کے رابطے کام آئے' مولانا لدھیانوی نے اس سارے معاملے میں بڑی حکمت سے کام کیا ' علماء اور راولپنڈی مدرسے کی تنظیموں کو اعتماد میں لے کر راولپنڈی میں امن کی فضا برقرار رکھنے کے لیے انتظامیہ سے تعاون کیا۔ یوں یہ بحران بھی ختم ہو گیا' ان سارے معاملات کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن مرکز سے لے کر پنجاب تک ہر جگہ سخت دبائو اور مشکل کا شکار ہے' عوام کی توقعات بکھر رہی ہیں' ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی' تحریک انصاف ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی آڑ میں حکومت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے ڈرون حملے رکوانے کا جو عزم ظاہر کیا تھا' وہ ٹوٹ چکا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا معاملہ آگے بڑھنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ آنے والے دن بہت زیادہ پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کو نئے آرمی چیف کا تقرر بھی کرنا ہے۔ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اس کا بھی لوگوں کو شدت سے انتظار ہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تقرر بھی باقی ہے جب کہ فی الوقت جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اضافی چارج دیا گیا ہے۔ جنرل کیانی کہتے ہیں وہ تو جنوری سے کہہ رہے ہیں کہ ریٹائر ہو جائیں گے اور پھر انتیس نومبر کو ریٹائر ہونے کا باضابطہ اعلان بھی کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں نواز شریف یہاں بھی غلطی کر گئے یا ان سے غلطی کرا دی گئی۔ وہ اگر جنرل کیانی کے اعلان ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیتے کہ آیندہ آرمی چیف کون ہو گا تو عالمی سطح پر یہ پیغام جاتا کہ پاکستان میں نا صرف جمہوریت مضبوط ہوئی ہے بلکہ نواز شریف بھی طاقتور وزیراعظم ہیں۔ خیر جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب آگے کی فکر کرنی چاہیے۔ سانحہ راولپنڈی میں حکومت خوش قسمت رہی کہ معاملہ قابو میں آ گیا۔ آخر میں حکومت سے صرف یہی کہنا چاہوں گاکہ ہر بار خوش قسمتی ساتھ نہیں دیتی۔