والدین کی خدمت اور سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کا مستحسن بل

اولڈ ایج ہاؤسز ضرور بنانے چاہئیں لیکن یہ فقط ان بزرگوں کےلیے ہوں جن کا کوئی وارث نہیں


اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں والدین کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

LONDON: سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بزرگ والدین کا خیال نہ رکھنے والے بچوں پر سزا اور جرمانہ مقرر کرنے سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔ بل کے مطابق بوڑھے والدین اور بزرگوں کے حقوق کےلیے ویلفیئر کمیشن بنایا جائے گا اور اولڈ ایج ہومز تعمیر ہوں گے۔

یہ اپنی نوعیت کا ایک بہترین بل ہے، جسے پیش کرنے اور منظور کرنے والے یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس بل کے مطابق بزرگ والدین کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والی اولاد کو تنبیہ کرنے کےلیے 25 ہزار روپے جرمانہ اور ایک ماہ جیل کی سزا دی جائے گی۔

والدین ایسی ہستیاں ہیں جن کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں۔ والدین کی اولاد کے ساتھ محبت اتنے اخلاص اور بے غرضی پر مبنی ہوتی ہے کہ اس پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جاسکتا۔ والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو انسان کے وجود کا ذریعہ بنتے ہیں اور وہی انسان کو ان مقامات تک پہنچاتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ اترانے لگتا ہے اور اپنی محنت و قابلیت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ والدین کی محنتیں، ان کی مشقتیں، ان کا پیار، سب کچھ انہیں بھول جاتا ہے، جس کی بدولت انسان دنیا میں کچھ بننے کے قابل ہوتا ہے۔ والدین کی ساری زندگی اولاد کو راحت پہنچانے میں صرف ہوجاتی ہے۔ ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اولاد کو دے دیتے ہیں۔ وہ اولاد کےلیے حتی الوسع جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ اولاد کی خوشی کےلیے اپنی تمام خوشیاں قربان کردیتے ہیں۔

لیکن جب یہی بچے جوان ہوجاتے ہیں اور والدین کی محنتوں کی بدولت پڑھ لکھ کر عہدے حاصل کرلیتے ہیں تو والدین کو جاہل اور گنوار سمجھنے لگتے ہیں۔ جب والدین ضعیف ہوجاتے ہیں اور انہیں اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت یہ اولاد انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔ والدین کی خدمت کا موقع ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرکے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جنت کے مستحق بننے کے بجائے انہیں خود پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی بیماری اور کمزوری میں ان کے پاس بیٹھ کر ان کا جی بہلانے کے بجائے انہیں تنہائی میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا وقت والدین کےلیے نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ والدین ایسے کڑے وقت میں بھی اولاد کی بے رخی کے باوجود ان کے حق میں دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ وہ ان سے اپنی خدمت کا مطالبہ نہیں کرتے، بس ان کی توجہ چاہتے ہیں۔ وہ فقط اتنا چاہتے ہیں کہ بچے ان کے پاس آکر بیٹھیں اور ان سے تھوڑی سی گفتگو کرلیں۔ زیادہ دیر کےلیے نہیں تو کم از کم کچھ دیر کےلیے ہی آکر اپنی صورت دکھا جائیں تو ان کے دل کو ٹھنڈک مل جاتی ہے۔

بہت سے خوش قسمت ایسے بھی ہیں جو والدین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ہمہ وقت والدین کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو والدین کی خدمت کا حکم دینے کے بجائے خود ہی یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگوں کو بھی میں جانتا ہوں جنہوں نے اچھی اچھی ملازمتیں چھوڑ دیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملازمت گھر سے بہت دور تھی اور والدین کی بیماری میں ان کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ وہ والدین کی خدمت کےلیے ملازمتیں چھوڑ آئے جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا نوازا کہ وہ ملازمتوں کا نام بھی نہیں لیتے۔ ایسے لوگ والدین کی خدمت کرکے ان کی دعائیں لیتے ہیں، جن سے ان کی دنیا و آخرت دونوں جہان سنور جاتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں والدین کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا ہے۔ بوڑھے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی خصوصی طور پر تاکید کی گئی ہے۔ ان کے سامنے اف تک کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ان کے سامنے عاجزی و انکساری کے ساتھ جھکے رہو اور ان کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے انتہائی نرم لہجے میں گفتگو کرو۔ ایسے ہی رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ یعنی اگر والدین راضی اور خوش ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ایسی اولاد سے خوش ہوتے ہیں اور اگر والدین ناراض ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے بندے سے ناراض ہوتے ہیں جس کے والدین اس سے راضی نہ ہوں۔ جب اللہ رب العزت ناراض ہوجاتے ہیں تو بندے کی ہلاکت و بربادی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ زندگی کی تمام خیرو برکات اٹھ جاتی ہیں اور سکون غارت ہوجاتا ہے۔

کچھ ناخلف اور بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین سے جان چھڑانے کےلیے انہیں اولڈ ایج ہاؤسز میں بے یارو مددگار چھوڑ آتے ہیں۔ جہاں یہ ضعیف و ناتواں لوگ اپنے انہی پیارے بچوں کی بے وفائی کا دکھ سہتے سہتے زندگی کی گاڑی گھسیٹتے ہیں، جن کےلیے دن رات محنت و مشقت کرتے رہے اور جن کی جوانی کے بارے میں سوچ کر بڑے سہانے سپنے دیکھا کرتے تھے۔ آج جب وہ سپنے پورے ہونے کا وقت آیا تو وہی دل کے سہارے انہیں تنہا مرنے کےلیے اولڈ ایج ہاؤسز کے سپرد کردیتے ہیں۔ کئی کیسز میں یہ بھی سنا گیا ہے کہ وہ مدتوں والدین کو چہرہ تک نہیں دکھاتے، حتیٰ کہ عید کے دن بھی والدین اپنے بچوں کی راہیں تکتے رہ جاتے ہیں۔ انہیں گھر لے کر جانا تو درکنار، بچے ان سے ملاقات کےلیے بھی نہیں آتے۔

ایسے حالات میں اولاد کو بوڑھے والدین کی خدمت میں کوتاہی کرنے کے جرم میں سزا دینا ضروری ہے، تاکہ انہیں کچھ نصیحت ہو اور والدین کو جب سہارے کی ضرورت پڑے تو وہ صاحب اولاد ہونے کے باوجود بے یارو مددگار نہ رہ جائیں۔

اولڈ ایج ہاؤسز ضرور بنانے چاہئیں لیکن یہ فقط ان بزرگوں کےلیے ہوں جن کا کوئی وارث نہیں، یعنی جن کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی انہیں کوئی سہارا دینے والا ہو، وہی لوگ اولڈ ایج ہاؤسز میں قیام پذیر ہوسکیں۔ اس کے برعکس جن بزرگوں کی اولاد ہو تو انہیں اولڈ ایج ہاؤسز میں ہرگز داخلہ نہیں دینا چاہیے بلکہ ان کے بچوں کو بلاکر انہیں والدین کی خدمت کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا ہو اور وہ والدین کی خدمت کریں۔ لیکن اگر ترغیب سے کام نہ چلے تو پھر انہیں سزا دی جائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کو گھروں میں ہی رکھیں۔ ان کی خدمت کریں اور ان کے اخراجات برداشت کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں