تبدیلی جارہی ہے

اعداد وشمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کیجئے کہ موجودہ حکومت ترقی کی جانب گامزن ہے یا تنزلی کی طرف جارہی ہے


عمران خان کہا کرتے تھے کرپشن کے ذمے دارحکمران ہوتے ہیں۔ اور اب تو وہ خود حکمران ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور: یہ ان دنوں کی بات جب تبدیلی آنے والی تھی۔ الیکشن کا دور دورہ تھا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں تبدیلی سرکار کی اس وقت کی حالت زار سے پریشان ایک کالج کی لڑکی نے عمران خان سے سوال کیا ''سر آپ تو کرپشن کے خلاف ہیں، مگر سارے کرپٹ لوگ تو آپ کی پارٹی میں آرہے ہیں''؟ خان صاحب نے بڑے تحمل سے سوال کو سنا اور جو فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں تھا ''جو آرہا ہے آنے دیں، ہم نظام ایسا بنائیں گے کہ یہ لوگ کرپشن نہ کرسکیں''۔

آج ان کی حکومت قائم ہونے کے تقریباً انیس ماہ بعد صورتحال یہ ہے کہ ایسا کوئی نظام تو درکنار، موجودہ نیب کے ایک آرڈننس کے ذریعے پر کٹ چکے ہیں اور پرانے نظام کے تحت جو لوگ شکنجے میں تھے، وہ بھی ایک ایک کرکے باہر نکل رہے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم کو عدالت نے اس لیے رہا کردیا کہ صدارتی آرڈیننس کے بعد ان کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا۔ اور ان کی پارٹی کی قیادت کی جانب سے اسے حق کی فتح قرار دیا گیا۔

معاشی میدان میں پی ٹی آئی سرکار کی کیا صورتحال ہے؟ اس کا اندازہ وفاقی ادارہ شماریات کے فراہم کردہ ان اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے جن کے مطابق ملک میں افراط زر گزشتہ 12 سال میں بلند ترین سطح پر ہے اور 5.8 فیصد سے 14 فیصد تک تجاوز کرچکا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہ درحقیقت 20 فیصد سے بھی زائد ہے، وفاقی ادارہ شماریات نے ہاتھ ہلکا رکھا ہے۔

بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ادرہ شماریات کے مطابق جون 2013 میں ''ن لیگ'' اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئی تو دس کلو آٹے کی قیمت اسلام آباد میں 375 اور جب اگست 2018 میں پی ٹی آئی سرکار کو حکومت ملی تو اسلام آباد میں 10 کلو آٹے کی قیمت 385 روپے تھی۔ اور اب صرف 19 ماہ کے بعد اسلام آباد میں 10 کلو آٹے کی قیمت 482 روپے، اور کراچی میں تو مہنگائی کو گویا پر ہی لگ گئے ہیں، 10 کلو آٹے کی قیمت 617 روپے تک پہنچ گئی۔ کھانا پکانے کے تیل کی قیمت جون 2013 میں ڈھائی لیٹر کی اوسط قیمت 545 روپے اور اگست 2018 میں ڈھائی لیٹر کی اوسط قیمت 485 روپے تھی۔ لیکن آج ڈھائی لیٹر کا ڈبہ اسلام آباد میں 600 روپے ہے۔ اسی طرح ٹماٹر جو ہر ہانڈی کی ضرورت ہے، جون 2013 میں اسلام آباد میں 60 روپے کلو، اگست 2018 میں 82 روپے کلو دستیاب تھا، جنوری 2020 میں اسلام آباد میں 134روپے کلو تک پہنچ گیا۔ جبکہ گزشتہ مہینوں ٹماٹر قلت کے بعد 240 روپے کلو تک فروخت ہوا۔ دال کی قیمت جون 2013 میں 153 اور اگست 2018 میں 155 روپے تھی جو جنوری 2020 میں 234 روپے ہے۔

مندرجہ بالا اعداد وشمار کو ذہن میں رکھیں اور وزیراعظم کے گزشتہ بیانات کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ موجودہ حکومت ترقی کی جانب گامزن ہے یا تنزلی کی طرف جارہی ہے۔ کیونکہ عمران خان تو کہا کرتے تھے کرپشن کے ذمے دارحکمران ہوتے ہیں۔ اور اب تو وہ خود حکمران ہیں۔

شائد یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی حکومت سے مایوس ہوچکا ہے اور اسی وجہ سے پس پردہ تیاریاں جاری ہیں۔ انہی تیاریوں کی بھنک حکومت کو بھی پڑ چکی ہے، جس کی تصدیق وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ ''لندن پلان بن رہا ہے''۔ دوسری جانب بعض غیر تصدیق شدہ ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ چوہدری نثار کا موجودہ دورہ لندن اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

اس سب کے باوجود پی ٹی آئی سرکار کے پاس ابھی وقت ہے۔ اگر وہ آنے والے دنوں میں پرفارم کرجاتی ہے تو پانچ سال پورے کرجائے گی، بصورت دیگر پھر سے 'کانٹے ہوں، کلیاں اور محبوب کی گلیاں ہوں' کا سفر شروع ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔