جنرل کیانی کی کہانی

گوجر خان کے سپوت کو تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز کا سامنا رہا۔


عبید اللہ عابد November 27, 2013
کیانی کے دور میں ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف قوم پوری طرح یکسو ہوچکی تھی۔ فوٹو : فائل

SUKKUR: ایک روز بعدریٹائرہونے والے پاکستان آرمی کے چودھویں سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے بطور آرمی چیف چھ سال تک بھرپور اندازمیں اپنا وقت گزارا۔

انھوں نے ایک ایسے وقت میں فوج کی کمان سنبھالی جب ان کے پیشرو جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے فوج کے بارے میں تاثرگدلاہورہا تھا۔ ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف قوم پوری طرح یکسو ہوچکی تھی۔ اس وقت بھی ایک اہم ترین چیلنج دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی۔ وزیرستان،سوات سے بلوچستان تک آگ اور خون کا سلسلہ جاری تھا، جس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہورہے تھے۔ ملک میں اس کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظرتھے، اسے امریکی جنگ سمجھنے والے بھی موجود تھے اور پاکستان کی جنگ قراردینے والے بھی۔

سنگین تر معاملہ یہ تھا کہ امریکی حکام بھی ''ڈومور''،''ڈومور'' کہہ رہے تھے۔انہی دنوں ملک میں عام انتخابات بھی سر پرتھے، ہرطرف افواہیں اڑرہی تھیں کہ جنرل پرویزمشرف نے قومی وصوبائی انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے منصوبہ تیارکررکھا ہے، ایسے میں ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کے مخالفین میں تشویش غیرمعمولی تھی۔ایک اہم مسئلہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججز کا تھا جنھیں جنرل پرویزمشرف فارغ کرچکے تھے۔مٹھی بھرلوگوں کے سوا پوری قوم جنرل مشرف کے اس اقدام کے خلاف تھی اور ججز کی بحالی چاہتی تھی۔ اس سارے منظرنامے کو ذہن میں رکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کمان سنبھالتے وقت صورت حال کیاتھی۔



جنرل کیانی کا آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنماؤں سے قریبی رابطہ رہا تھا۔ اسی طرح وہ امریکہ میں بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں تعینات رہے، بتایا جاتا ہے کہ امریکی فوج میں ان کی خاصی جان پہچان تھی۔ان دونوں پہلوئوں کی بنیاد پرقوم کو یک گونہ اطمینان تھا کہ جنرل کیانی ملک وقوم کو درپیش چیلنجز سے بخوبی نمٹیں گے اور قوم کو بحران سے نکال باہر لائیں گے۔

جنرل کیانی نے بطورآرمی چیف 13 فروری 2008ء کو پہلاحکم سول اداروں سے فوجی افسران کی واپسی کا دیا۔ ان کاحکم میڈیا میں آیا تو پوری قوم خوشی کی عجب کیفیت سے سرشار ہوگئی۔اسی اقدام نے جنرل کیانی کے بارے میں جہاں قوم کی امیدوں کا گراف بلند کیا، وہاں ان سے وابستہ توقعات بھی غیرمعمولی طورپر بڑھ گئیں۔

انھوں نے آنے والے دنوں میں جمہوریت کی بحالی اور مضبوطی میں اپنا بے مثل کردار ادا کرکے قوم کی نظروں میں فوج کے وقارکو مزید بلند کیا۔ سول اداروں سے فوجی افسران کی واپسی سے پہلے جنرل کیانی کا وہ حکم بھی تاریخ ساز قرارپائے گا جس میں انھوں نے سیاست دانوں سے فوجی افسران کے رابطوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ جنرل پرویزمشرف کی پالیسؤں سے واپسی کا آغاز تھا۔مختلف رپورٹس کے مطابق جنرل کیانی کے حکم نامے کے فوراً بعد 23سول محکموں سے فوجی افسران کی واپسی ہوئی، ان میں نیشنل ہائی وے، نیشنل اکائونٹیبلیٹی بؤرو(نیب)، وزارت تعلیم اور واپڈا بھی شامل ہیں۔

جنرل کیانی کے لئے سب سے پہلا باقاعدہ چیلنج سن 2008ء کے عام انتخابات تھے۔ انھوں نے سات مارچ2008ء کو بیان جاری کیا کہ مسلح افواج سیاست سے الگ تھلگ رہیں گی اور عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی کسی بھی حکومت کو مکمل طورپرسپورٹ کریں گی۔راولپنڈی میں فوجی کمانڈروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج جمہوری عمل کی حمایت کرے گی اور صرف اپنا آئینی کردار ادا کرے گی۔

ملک میں یہ تاثرعام تھا کہ جنرل پرویزمشرف نے جنرل کیانی کو کمان تھمانے سے پہلے مرضی کی اگلی حکومت بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے مطابق مسلم لیگ ق، پیپلزپارٹی، ایم کؤایم اور اے این پی کو اقتدارکا بڑا حصہ دیا جانا تھا۔ تاہم جنرل اشفاق پرویزکیانی نے آنے والے دنوں میں اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ فوج حکومت سازی کے منصوبوں سے بہت دور کھڑی ہے، اگرجنرل مشرف کا کوئی ایسا منصوبہ تھا، تو جنرل کیانی نے ویسا کوئی کردار ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان اور باہر کے تمام تجزیہ نگار اس امرپر متفق نظرآئے کہ جنرل کیانی نے اس مرحلے پر بھی قوم کا دل جیت لیا، قومی سیاست میں فوجی مداخلت کے مخالفین نے بھی سکون کا سانس لیاکہ فوج اپنی اصل اور آئینی ذمہ دارؤں کی ادائیگی میں جت گئی ہے۔

اسی اثناء میں جنرل کیانی نے فوج کے مورال کو بلند سے بلندتر کرنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے2008ء کو ''سولجرز کا سال'' قرار دیا، اس ضمن میںفوجی جوانوں کی فلاح و بہبود بالخصوص ان کی رہائش اور معیاری خوراک کے علاوہ بہت سے فلاحی منصوبے شروع کئے ۔ جوانوں کی رہائش اور خوراک اور ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے خاطرخواہ انتظامات کئے۔ بڑے شہروں میں ہاسٹل بنا کر فوجؤں کے بچوں کیلئے اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم اور قیام کے بہترین مواقع فراہم کئے، دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور اٹھا رہے ہیں۔

جنرل کیانی کو ملک کے ایک اہم ترین ادارے کے سربراہ کے طورپر حقیقتاً چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔عدلیہ بحالی کا معاملہ ایک قومی بحران کی صورت میں موجودتھا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے اور جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد بھی یہ مسئلہ جوں کا توں تھا۔ نئے صدرآصف علی زرداری بار بار قلابازیاں کھارہے تھے۔

وہ پہلے پہل اپنے ذہن میں ''ون مائنس فارمولا'' بناکر چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بحال کرنے سے انکارکرتے رہے تاہم مارچ 2009ء کے وسط میں جب وکلا اور اپوزیشن جماعتوں نے لانگ مارچ شروع کیا تو زرداری ، گیلانی حکومت کو عوام کی اکثریت کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔اس موقع پر کہاجاتا ہے کہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے حکومت کو آمادہ کیا کہ وہ سنگین بحران سے دوچارہونے سے بچے۔ ان کا یہ کردار بھی تاریخی تھا، ورنہ ان کے پاس موقع تھا کہ بحران کو سنگین ہونے دیتے اور پھر ملک کی ڈرائؤنگ سیٹ پر بیٹھ کراس صورت حال کا فائدہ اٹھا لیتے۔ تاہم وہ ایک سچے اور پکے فوجی ثابت ہوئے۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان کے روایتی دشمن وطن عزیز کے خلاف غیر معمولی طور پر متحرک ہو چکے تھے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی حالات کے پیش نظرجنرل کیانی نے ''عزم نو2009ء'' کے عنوان سے چارسالہ فوجی مشقیں شروع کیں۔ماہ نومبر 2013 ء میںکامیابی سے اختتام پذیر ہونے والی اِن مشقوں کے ذریعے دشمنوں پر واضح کیاگیا کہ پاکستان کی مسلح افواج بھارتی کولڈ سٹارٹ ملٹری ڈاکٹرائن( Cold Start Doctrine)کا موثر جواب دینے کی صلاحیت اور منصوبہ رکھتی ہیں۔ بھارتی فوج کا یہ ڈاکٹرائن دراصل پاکستان کے خلاف جنگ کا ایک منصوبہ تھا۔

اس کے مطابق بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ بیک وقت پنجاب اور راجستھان سے ایک نئے انداز کی جنگ شروع کرکے پاکستانی افواج کو حیران و پریشان کردیں گے۔ تاہم جنرل اشفاق پرویزکیانی نے 'عزم نو 2009ء' کے ذریعے دشمن کو ایک مسکت جواب دیا کہ وہ اپنے مذموم ارادوں پر عمل کرنے سے پہلے سوچ لے کہ اس کے بعد اس کے ساتھ کیا بیتے گی۔ ان مشقوں کے دوران 60کلومیٹر دور تک مارکرنے والے نصرمیزائل کا تجربہ بھی کیاگیا۔دفاعی ماہرین کے مطابق حتف فیملی سے تعلق رکھنے والے اس میزائل کا تجربہ دراصل دشمن کو جارحیت سے بازرکھنے کی ایک کوشش تھی۔

جنرل کیانی کے لئے مشرقی سرحدوں پر موجود دشمن سے نمٹنے کی تیارؤں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں پر خطرناک صورت سے عہدہ برا ہونا بھی اہم چیلنج تھا۔ سوات کا آپریشن جنرل کیانی کی جنگی کامیابؤں میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔2009 ء میں سوات میں ہونے والے آپریشن میں دہشت گردوں کو بری طرح شکست فاش ہوئی۔آپریشن کی کامیابی کی بعد سوات میں چار سال سے حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں۔ اس آپریشن کے بعد تقریباً دس لاکھ سے زائد افراد (جو آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے) کو واپس اپنے گھروں میں پہنچانا ایک مشکل کام تھا جسے فوج کی زیر نگرانی کامیابی سے مکمل کیا گیا۔

سال 2009ء ہی میں جنوبی وزیرستان میں کامیابی سے آپریشن مکمل کیا گیا۔ باجوڑ، مہمند، خیبر اور کرم ایجنسؤں میں بھی متعددکامیاب آپریشن کئے گئے۔ جنرل کیانی کے دور میں پاکستانی فوج کو زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوجی تنصیبات پر ایسے تباہ کن حملے ہوئے جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 10اکتوبر2009ء کو جی ایچ کؤ پر اس وقت حملہ ہوا جب10دہشت گرد فوجی وردیاں پہن کر ایک سفیدکار میں فوجی ہیڈکوارٹر میں گھس گئے۔ جی ایچ کؤ کے اندر کئی گھنٹے لڑائی چلی، اس واقعہ میں 11فوجی، تین یرغمالی شہید جبکہ 9دہشت گرد مارے گئے۔



تیرہ دن بعد23 اکتوبر کو منہاس ملٹری ائیربیس کامرہ پر حملہ ہوا، اس میں2فوجی اور 6دیگرافراد شہید جبکہ17زخمی ہوئے۔ 22مئی2011ء کو پی این ایس مہران بیس کراچی پر حملہ ہوا، یہاں17گھنٹے تک لڑائی جاری رہی جس میں10اہلکار شہید ہوئے۔ حملہ آوروں کی تعداد چارسے چھ بتائی گئی۔ 16اگست2012ء کو پاکستان ائیرفورس منہاس ائیربیس کامرہ پر حملہ ہوا، آٹھ حملہ آور تھے، سب کے سب مارے گئے جبکہ ایک فوجی شہید ہوا۔ دسمبر 2012ء میں پشاور میں ائیرفورس بیس پر حملہ ہوا۔ اس میں پانچ دہشت گردوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تمام ترواقعات جنرل کیانی کی قیادت میں فوج کے عزم اور مورال کو متاثر نہ کرسکے۔

جنرل کیانی نے قبائلی علاقوں کے متعدد دورے کئے اور جنگ میں برسرپیکارافسروں اور جوانوں کے ساتھ خوب وقت گزارا۔ فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد انھوں نے پہلی عید اپنے گھروالوں کی بجائے وزیرستان میں اپنے جوانوں کے ساتھ منائی۔ انھوں نے قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا آغازکیا جن میں سڑکوں کا وسیع وعریض جال، تعلیمی اداروں کی تعمیر اور صحت کے چھوٹے مراکز اور بڑے ہسپتالوں کا قیام سر فہرست ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں سنٹرل ٹریڈ کوریڈور کی تعمیر ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔700کلو میٹر طویل اور 6 میٹر چوڑی شاہراہ کا تقریباً (70%),520کلومیٹر حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسی جدید تجارتی گزرگاہ ہے جو شمالی و جنوبی وزیرستان سے گزرتی ہوئی پاکستان اور افغانستان کو باہم ملاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شاہراہ کی بدولت نہ صرف معیشت اور تجارت کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے قبائل کو بھی ایک دوسرے سے تعلق رکھنے میں سہولت ملے گی۔

قبائلی علاقوں اور صوبہ بلوچستان میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کی تعمیربھی جنرل کیانی کا اہم کارنامہ ہے۔ملٹری کالج مری، ملٹری کالج سوئی، کیڈٹ کالج وانا، کیڈٹ کالج سوات، بلوچستان انسیٹؤٹ آف میڈیکل سائنسز کے علاوہ قبائلی علاقوں میں 52سے زائد سکول اور کالجوں کی تعمیر اور بلوچستان میں 44 سے زائد تعلیمی اداروںکا قیام جنرل کیانی کی اہم کامیابؤں میں شامل ہے۔ اس وقت 23000سے زائد بلوچ نوجوان فوج کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچ نوجوانوں کو روزگار کے متعددمواقع بھی فراہم کئے ہیں جن میں اہم ترین ان کی فوج میں شمولیت ہے۔ آج فوج میں بلوچ جوانوں کی تعداد پہلے کے کسی بھی دور کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس وقت 12000سے زائد بلوچ نوجوان فوج میں شامل ہو کر ملکی دفاع کا مقدس فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

جنرل اشفاق پرویزکیانی نے2010ء کو فوج کے لئے 'تربیتی سال' قرار دیا،بالخصوص انہوں نے دہشت گردی کے خلاف تربیت کو اہمیت دی، اس سلسلے میں نئی جنگی جہتوں کو تربیتی شیڈول میں متعارف کروایا گیا۔ ماہر نشانہ بازوں پر مشتمل، حربی اور جسمانی لحاظ سے تیز ترین جوانوں پر مشتمل خصوصی ؤنٹوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس کے بعد سن 2011ء کو 'فائرنگ کا سال' قرار دیا گیا اور Marksmanship کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی۔ عسکری امور کو جاننے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ کس قدراہم کام کیاگیا ہے۔

تمام تجزیہ نگار معترف ہیں کہ جنرل کیانی کے دور میں سول اور ملٹری اداروں کے درمیان تعاون کو مزید تقویت ملی۔ جنرل کیانی نے قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کا بھر پور ساتھ دیا۔ جہاں بھی ضرورت محسوس ہوئی فوج نے قوم کی پکار پر لبیک کہا۔ سن 2010ء کے سیلاب اور2011ء اور 2013ء کے بلوچ زلزلہ زدگان کی مدد کرنے میں فوج کے جوانوں نے بہترین اندازمیں اپنا کردار ادا کیا اورجنرل کیانی نے متعدد بار بذات خود ان علاقوں کا دورہ کیا۔اس تناظرمیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنے کندھوں پر آنے والی ہرذمہ داری کوسب سے اہم سمجھا۔

جنرل کیانی اپنے دور میں انھیں بھی نہیں بھولے جنھوں نے اپنی جانیں وطن کی خاطر قربان کیں اور ان کے لواحقین کی زندگی میںبہتر سے بہترین سہولیات لانے کیلئے کوششیں کیں، اس ضمن میں شہداء کے لواحقین کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا۔ جی ایچ کؤمیں شہداء سیل کا قیام، شہداء کے لواحقین کیلئے700سے زائد گھروں کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ابھی بڑی تعداد میں گھر زیر تعمیر ہیں، ان کی تکمیل کے ساتھ ہی تقسیم کاکام بھی جلد ہی پورا ہوگا۔

پاکستانی فوج ایک مکمل اور مضبوط فیملی کا دوسرا نام ہے۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ہرفوجی دوسرے فوجی کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ سن 2012ء میںجب سیاچن کے علاقے میں گیاری کے مقام پر برف کا ایک بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گرا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فوجی اس کے نیچے دب گئے تھے۔ ان جوانوں کو زندہ نکال لینے کے عزم سے دن رات کا کوئی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کھدائی کرتے ہوئے مسلسل محنت اور کوشش کی گئی جوکامریڈ شپ (Comradeship) کی ایک شاندارمثال ہے۔ قریباً ڈیڑھ سال طویل تلاش کے بعد 140شہداء کے جسدِ خاکی نکال کر ورثاء کے حوالے کئے گئے اور انہیں پورے فوجی اعزاز سے سپردِخاک کیا گیا۔ جنرل کیانی کے دور کی ایک اہم ترین خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے پاک فوج میں آئی ٹی کلچر کو فروغ دینے کی تمام تر کوششیں کیں۔تاکہ پاکستانی فوج کسی بھی اعتبار سے دنیا کی دیگرافواج سے کم نہ ہو۔

جنرل کیانی کیلئے عدلیہ بحالی کے بحران کے دوران ہی فوجی بغاوت کا امکان پیدا نہیں ہواتھا بلکہ آنے والے برسوں میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تھے۔ تاہم کیانی اپنے عزم پر قائم رہے۔ایبٹ آباد آپریشن اورمیموگیٹ سکینڈل کے وقت حالات بہت مخدوش ہوئے تھے لیکن جنرل کیانی نے صرف اور صرف فوجی رہنے کا ثبوت دیا۔ سن 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی جنرل کیانی نے ثابت کیا کہ فوج سیاست میں مداخلت کے اپنے عزم پر قائم ودائم ہے۔یقینا اسی میں ملک وقوم کی بہتری تھی اورہے کہ فوج اپنی تمام تر توجہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ دارؤں پر مرکوز رکھے۔سرحدوں کا بہترین اندازمیں دفاع اسی صورت ممکن ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جنرل کیانی نے تمام محاذوں پر اپنا کردار بہترین اندازمیں اداکیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں