نہ شور نہ شنوائی بس دوہائی
دلی میں تین علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اچھی تعداد بستی ہے
پچھلے ہفتے دلی میں جو کچھ ہوا اس کا موازنہ اکتیس اکتوبر انیس سو چوراسی کے سکھ قتلِ عام سے کیا جا رہا ہے جب دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے قتل کی خبر پھیلتے ہی دلی کے سکھوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور اڑتالیس گھنٹے میں تین ہزار سکھ قتل کر دیے گئے اور دلی میں کوئی بھی سکھ کنبہ ایسا نہ تھا جو اگر جانی نقصان سے بچ بھی گیا تو مالی و املاکی نقصان ، بے گھری یا ہجرت سے ضرور متاثر ہوا۔
مگر پچھلے ہفتے کے دلی کے واقعات اور چوراسی کے سکھ قتلِ عام میں ایک بنیادی فرق ہے۔اگر مسز اندراگاندھی قتل نہ ہوتیں تو سکھوں کے خلاف ردِعمل نہ ہوتا۔یہ ردِعمل اچانک اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہوا اور پھر کانگریس کے مقامی رہنماؤں نے اسے ایک منظم شکل دے دی۔
لیکن پچھلے ماہ کی پچیس تا اٹھائیس تاریخ شمال مشرقی دلی میں چاند باغ سے بھجن پورہ تک کی پٹی میں جو خونی ہولی رچائی گئی وہ اچانک نہیں تھی بلکہ اس کی منصوبہ بندی دلی میں آٹھ فروری کو ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے کر لی گئی تھی۔یعنی الیکشن مسلمان دشمن تقاریر کر کے اور دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کے نعرے لگوا کے اور ہندوؤں کو شاہین باغ کے دھرنے سے خوفزدہ کر کے جیتنے کی کوشش کی جائے۔اگر ہار گئے تو پھر دہشت و بربریت کے ذریعے ایک ایسی دراڑ پیدا کر دی جائے کہ باقی بھارت کو پیغام چلا جائے کہ اگر تم نے ہمیں ووٹ نہ دیا تو پھر تمہارے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو ہم نے شمال مشرقی دلی میں بطور ماڈل دکھایا ہے۔
یہ ماڈل اتنا ڈراؤنا ہے کہ عام آدمی پارٹی آج دلی میں ستر میں سے باسٹھ سیٹیں جیتنے کے باوجود کسی بھی مصیبت زدہ کے ساتھ کھڑی دکھائی نہیں دے رہی اور شکستِ فاش کھانے والی بے جے پی کا غنڈہ راج ہر طرف دندنا رہا ہے۔
شمال مشرقی دلی نے سو فیصد عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا مگر وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال سمیت کسی اعلیٰ عہدیدار نے جانی و معاشی قتلِ عام کے ایک ہفتے بعد تک اپنے ہی حامی اس متاثرہ علاقوں میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کی۔مبادا انھیں مسلمان دوست سمجھ لیا جائے۔
دلی میں تین علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اچھی تعداد بستی ہے۔پرانی دلی کا جامع مسجد سے دریا گنج تک کا علاقہ، اوکھلا کا متوسط طبقاتی علاقہ جہاں جامعہ ملیہ بھی واقعہ ہے اور تیسرا شمال مشرقی دلی میں جعفر آباد ، بھجن پورہ ، کھجوری خاص و سیلم پور تک کی پٹی جہاں انتہائی غریب ہندو اور مسلمان بستے ہیں۔اکثر دہاڑی دار یا خوانچہ فروش یا دکانوں میں کام کرتے ہیں اور کچھ کے چھوٹے موٹے کاروبار ہیں۔
جامع مسجد سے دریا گنج تک کا علاقہ چونکہ گنجان مسلمان اکثریتی علاقہ ہے اس لیے وہاں مسلمانوں کا بہت زیادہ جانی و املاکی نقصان نہیں ہو سکتا تھا۔اوکھلا چونکہ مڈل کلاس علاقہ ہے اور دسمبر میں جامعہ ملیہ میں پولیس نے گھس کر جس طرح طلبا و طالبات کو زدو کوب کیا وہ بذاتِ خود ایک بین الاقوامی خبر بن گئی تھی۔لہذا اس کے فوراً بعد وہاں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی ممکن نہ تھی۔
اب رھ گیا شمال مشرقی دلی کے کنگلے مسلمانوں اور ہندوؤں کا علاقہ جن کی سیاسی و سماجی پہنچ سب سے کم اور کمزوری سب سے زیادہ ہے۔ ایسے ہی علاقے قتل و غارت کے لیے سب سے بہتر لیبارٹری ہوا کرتے ہیں۔خواندگی کاتناسب واجبی ہوتا ہے۔ چنانچہ نہ شور نہ شنوائی بس دہائی۔لہذا اس لیبارٹری میں تین مرحلوں پر مشتمل تجربہ ہوا۔
چوبیس فروری کو بی جے پی کا مقامی رہنما کپل مشرا شمال مشرقی دلی میں شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف جاری چاند باغ دھرنے سے ذرا فاصلے پر ایک اعلیٰ پولیس افسر کو بغل میں کھڑا کر کے ایک بھیڑ سے خطاب کرتا ہے کہ ہم صرف ٹرمپ کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔اگر اگلے تین دن کے اندر اندر یہ دھرنا ختم کروا کے دلی پولیس نے راستے نہیں کھلوائے تو پھر ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے اور خود ہی کوئی کارروائی کریں گے۔
اس موقع پر اعلیٰ پولیس افسر خاموش کھڑا رہتا ہے۔کیونکہ مشتعل کرنے والے رہنما کپل مشرا کو بھی معلوم ہے کہ دلی پولیس براہِ راست وزیرِ داخلہ اور گجرات قتلِ عام کے معمار امیت شا کے ماتحت ہے۔اور اعلیٰ پولیس افسروں کو بھی معلوم ہے کہ کس کے احکامات پر تماشائی بننا ہے اور کب متحرک ہو جانا ہے۔
دلی پولیس کی یہ ڈرل جنوری میں ہو چکی تھی جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں نقاب پوشوں نے اندر گھس کے توڑ پھوڑ کی اور طلبا و طالبات کو مارا پیٹا اور پولیس یونیورسٹی کے صدر دروازے کے باہر ہی کھڑی رہی۔دوسری جانب جب جامعہ ملیہ کے طلبا نے شہریت کے قانون کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا تو یہی پولیس بلا اجازت جامعہ ملیہ میں گھس گئی اور لائبریری میں بیٹھے طلبا و طالبات کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
کپل مشرا کی دھمکی کے گزشتہ روز پچیس فروری کو بی جے پی شمال مشرقی دلی میں ڈنڈوں، سریوں، اور ہتھیار بندوں سے مسلح جلوس نکالتی ہے۔اس موقعے پر چاند باغ کے دھرنے میں بیٹھے مسلمان نوجوان بھی مشتعل ہو جاتے ہیں اور دھرنا توڑ کر احتجاجی جلوس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ وہ اسٹرٹیجک غلطی تھی جو کسی صورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔چنانچہ بی جے پی کے حامیوں اور دھرنا دینے والوں کے درمیان پتھر بازی ہوتی ہے اور اس کی زد میں آ کر ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک ہو جاتا ہے۔ میڈیا جو پہلے ہی سے مودی سرکار کی مٹھی میں ہے وہ پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت کا الزام مسلمان احتجاجیوں پر لگاتا ہے حالانکہ کانسٹیبل کے ورثا کہتے ہیں کہ مارنے والے جے شری رام اور جے بجرنگ بلی کا نعرہ لگا رہے تھے مگر ان کی آواز الیکٹرونک و سوشل میڈیائی نقار خانے میں توتی کی صدا ثابت ہوتی ہے۔
اور پھر منصوبے کے تیسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں پچیس اور چھبیس فروری کی درمیانی شب اور اگلے دن نقاب پوش اور ہیلمٹ پہنے لونڈوں کے جتھے مسلمانوں کے پہلے سے نشان زد گھروں اور کاروبار پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔زور آگ لگانے اور تیز دھار آلات سے قتل کرنے اور پستول استعمال کرنے پر رہا۔پولیس طے شدہ منصوبے کے مطابق غائب ہے اور جب بلوائی اپنا کام کر کے منتشر ہو جاتے ہیں تب پولیس متاثرہ علاقے میں داخل ہوتی ہے۔
یہ حملہ آور کون تھے ؟ یہ مقامی نہیں تھے۔اب رفتہ رفتہ کھل رہا ہے کہ انھیں قتلِ عام سے پہلے اتر پردیش کے مختلف اضلاع سے لا کر شمال مشرقی دلی میں ٹھہرایا گیا تھا اور یہ دو دن میں اپنا کام کر کے روانہ ہو گئے۔
پچاس سے زائد لاشیں مل چکی ہیں ، اب بھی جلے ہوئے ملبے اور گندے نالوں سے لاشیں مل رہی ہیں۔ چار سو سے زائد زخمی ہوئے ان میں ہندو مسلمان دونوں شامل ہیں۔جب کہ تین سو ستائیس کاروبار اور دکانیں جلیں۔ان میں سے اسی فیصد کاروبار مسلمانوں کا تھا۔ ہزاروں مسلمانوں نے حفاظتی نقلِ مکانی کی۔
ایک مقامی مسیحی وکیل نے آگ و خون کے پہلے دن ہی دلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت سے درخواست کی کہ آگ بھڑکانے والے بی جے پی کے چار بنیادی رہنماؤں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جائیں نیز پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ زخمیوں کو اسپتال پہنچانے والی ایمبولینسوں کا گھیراؤ کرنے والے مجمع سے نمٹے۔
جسٹس مرلی دھرن نے فوری طور پر پولیس قیادت کو طلب کر کے اشتعال پھیلانے والے رہنماؤں کی گرفتاری کے بارے میں گزشتہ روز رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا۔چند ہی گھنٹے بعد صدرِ مملکت نے جسٹس مرلی دھرن کا پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ میں فوری تبادلہ کر دیا۔جب کہ دلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے دلی پولیس چیف اور مرکزی حکومت کو اپریل کے وسط تک اپنا جواب دائر کرنے کی مہلت دے دی۔جن چار رہنماؤں کی گرفتاری کی درخواست کی گئی تھی انھیں وزیرِ داخلہ امیت شا نے زیڈ کیٹگری کی پولیس سیکیورٹی فراہم کر دی۔
کیا یہ کہانی دلی تک ہی رہے گی ؟ جی نہیں اب یہ ماڈل مرحلہ وار پورے ملک میں دھرایا جائے گا۔دنیا نے آخری بار اصلی فاش ازم پچھتر برس پہلے ہٹلر اور مسولینی کی شکل میں دیکھا تھا۔تب سے اب تک چار نسلیں بغیر فاشزم دیکھے گذر گئیں۔ہم اور آپ آنے والے دنوں میں ایک بار پھر اصلی فاشزم دیکھیں گے۔ اور پھر اسی دنیا کو دیکھیں گے جس نے ہٹلر اور مسولینی کو براہِ راست چیلنج کرنے کے بجائے شتر مرغ سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا اور پھر اس شتر مرغی کی قیمت وسیع تباہی اور تین کروڑ جانوں کی شکل میں ادا کی۔لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)