عمران خان کی طرف سے ایران کا شکریہ
مسلمانوں کو ایک ’’ملّت‘‘ کہا جاتا ہے لیکن عملی محاذ پر ’’ملت‘‘ کے تقاضے پورے کرنے سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے
زبانی کلامی کہنے کو تو دُنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ''ملّت'' کہا جاتا ہے لیکن عملی محاذ پر ''ملت'' کے تقاضے پورے کرنے سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔ جب بھی دُنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں پر ظلم کا آسمان ٹوٹتا ہے،
اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے خاموشی کے سوا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آتالیکن مظلوم بھارتی مسلمانوں کی غیر مبہم حمایت اور نریندر مودی کو انتباہ کرتے ہُوئے ایک بار پھر ایران نے اپنا یہ تشخص برقرار رکھا ہے ۔ پچھلے کئی ہفتوں کے دوران سارے بھارت میں عمومی طور پر اور بھارتی راجدھانی، دہلی، میں بالخصوص غریب اور بے نوا مسلمانوںپر بھارتی متشدد اور بنیاد پرست ہندو جماعتوں کے غنڈوں نے جس وحشت و بربریت سے مسلمانوں کے خون سے آزادانہ ہولی کھیلی ہے ، اس کے خلاف عالمِ اسلام کے بیشتر ممالک مہر بہ لب ہیں ۔
ایسے میں اسلامی جمہوریہ ایران کابھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔ یہ دلیرانہ آواز ایران کے سپریم لیڈر عزت مآب آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے بلند کی گئی ہے ۔ گزشتہ روز انھوںنے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ''بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر دُنیا بھر کے مسلمانوں کے دل رنجیدہ ہیں ۔ '' اور بھارتی حکومت پر زور دیتے ہُوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں بھارتی مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکے اور خود کو مسلمان دُنیا میں تنہا ہونے سے بچائے۔ اس سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ، جواد ظریف، اور ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، عباس موسوی، بھی بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کر چکے ہیں ۔
بھارت کے لیے ایسا واضح ، غیر مبہم اور ترنت پیغام دراصل اسلامی ممالک کی تنظیم ''او آئی سی'' کی طرف سے آنا چاہیے تھا لیکن شومئی قسمت سے یہ واقعہ رُونما نہیں ہو سکا ۔ بیان آیا تو سہی ، لیکن ملفوف اور بین السطور سا ۔اب ایرانی سپریم لیڈر جناب آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے کمزور بھارتی مسلمانوں کے حق میں ایک طاقتور پیغام آیا ہے تو اس پر ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی ایران اور اعلیٰ ایرانی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے ۔اس ضمن میں خانصاحب ترک صدر جناب طیب اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے بھی مشکور ہیں کہ انھوں نے بھی بھارت سے احتجاج کیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی عالمِ اسلام کے چند ایک حکمرانوں کے دلوں میں حریت پسندی اور مسلمانوں سے غمخواری کی چنگاریاںروشن ہیں ۔
اور سچ یہی ہے کہ عالمِ اسلام کے بیشتر مقتدرین کی طرف سے، بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے تازہ مظالم کے خلاف ، کم کم آوازیں سامنے آ سکی ہیں ۔ عالمِ اسلام کے مگر عوام اپنی نجی حیثیت میں بھارتی دستِ ستم کے خلاف مقدور بھر آوازیں اُٹھا رہے ہیں ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی انتہا پسند ہندو جماعتوں کے خلاف کابل تا ہرات اور ڈھاکا میں بھی احتجاجی آوازیں اُٹھ رہی ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ احتجاجات چند روز قبل ، 6مارچ بروز جمعہ، دیکھنے میں آئے ہیں ۔ افغانستان کی انتظامیہ اور حکومت میں مبینہ طور پر بھارت نواز عناصر کی اکثریت ہے ۔ اس کے باوجود مگر گزشتہ جمعہ کو افغان دارالحکومت میں سول سوسائٹی کی خاصی بڑی تعداد نے بھارتی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کیا ۔
یہ احتجاج دراصل بھارتی حکومت کے مسلمان مخالف اقدامات کے خلاف اور بھارتی مسلمانوں کی حمایت اور یکجہتی کے لیے تھا۔ افغانستان کی طرح بنگلہ دیش کی حکومت بھی مودی کے زیر اثر بیان کی جاتی ہے ۔ اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود 6مارچ2020کو ڈھاکا میںہزاروں بنگلہ دیشیوں نے بھارت کے خلاف سخت نعروں کے ساتھ احتجاج کیا ہے ۔ بنگلہ دیش کی اہم ترین مذہبی جماعتوں (مثلاً: حفاظتِ اسلام، اسلامی اندولن ، خلافت مجلس وغیرہ) اور دو بڑی سیاسی جماعتوں کے وابستگان نے بیک زبان بھارتی مسلمانوں کے حق میں اور تشدد پسند ہندوؤں کی خونی وارداتوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
افغانستان میں اگرچہ صدر اشرف غنی اور بنگلہ دیش میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو بھارت کے خلاف اُٹھتی یہ احتجاجی آوازیں پسند تو نہیں آئیں لیکن وہ عوامی احساسات کے سامنے بے بس ہیں ۔ڈھاکا کی طرح ہرات ایسے اہم شہر میں بھی عوام نے مودی کی مسلمان دشمنی کے خلاف مظاہرے کیے ہیں ۔اس سلسلے میں سب سے بڑا مظاہرہ ہرات شہر میں ''جامعہ مسجد گزر گاہ شریف'' کے سامنے کیا گیا ہے ۔ اس کی قیادت ہرات کے مشہور عالمِ دین ، قاری مولانا مجیب الرحمن انصاری ، کررہے تھے ۔قاری مجیب الرحمن کا بھارتی مسلمانوں کی حمایت میں اور بھارتی مظالم کے خلاف نکلنا اہم واقعہ ہے کہ قاری صاحب ایسے معاملات میں کم کم اپنے آستانہ عالیہ سے باہر نکلتے ہیں ۔واضح رہنا چاہیے کہ قاری مجیب الرحمن انصاری صاحب ہرات کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ عبداللہ انصاری ( جو ''پیر ہرات'' کے نام سے بھی مشہور ہیں) کے مزار شریف کے متولی اور ساتھ ہی متصل ایک عظیم دینی مدرسے کے مہتمم بھی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے باسیوں اور مظلوم بھارتی مسلمانوں کی حمایت میں جو ملک ، حکمران، گروہ یا تنظیم اپنی آواز بلند کرتا ہے، ہمارے اجتماعی شکرئیے کا مستحق ہے ۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ مگر بڑی شرارت اور شیطنت کے ساتھ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بروئے کار ہے ۔ اُس نے بڑی شقاوت اور اسٹرٹیجی سے یوں کام لیا ہے کہ دہلی میں غریب مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بڑھکا کر ساری دُنیا کی نظریں ( چند ہفتوں ہی کے لیے سہی) مقبوضہ کشمیر کے سنگین مسائل سے ہٹا دی ہیں ۔ پچھلے کئی ایام سے دُنیا بھر کے میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کا نام نہیں ، دہلی کا نام گونج رہا ہے ۔
اِسی کا فائدہ اُٹھاتے ہُوئے بھارت نے 7مارچ کو خاموشی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں انٹر نیٹ پر لگائی گئی سخت پابندیاں اُٹھا دی ہیں ۔ یہ پابندیاں 15مارچ تک اُٹھی رہیں گی ، لیکن اس ''حکمت'' کے ساتھ کہ انٹرنیٹ کی آزادی سے موبائل فون پر استفادہ نہیں کیا جا سکے گا۔ مقبوضہ کشمیر میںانٹرنیٹ پر یہ بلیک آؤٹ مسلسل سات مہینوں کے بعد مشروط طور پر ختم کیا گیا ہے ۔ یہ سہولت کسی بھی وقت دوبارہ معطل کی جا سکتی ہے ۔ ''الجزیرہ'' ٹی وی نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے 7مہینوں کے دوران انٹر نیٹ پر لگائی گئی سخت پابندیوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ لاکھ لوگ بے روزگار ہُوئے ہیں ۔سرینگر یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کا بجا ہی تو کہنا ہے:''کشمیر میں اربوں روپے کے کاروبار اور لاکھوں زندگیاں تباہ کرنے کے بعد اب انٹر نیٹ پر یہ پابندیاںاُٹھائی بھی گئی ہیں تو کیا فائدہ؟''۔جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں ، اب تک مقبوضہ کشمیر میں140مرتبہ انٹر نیٹ پر پابندیاں لگا چکے ہیں ۔