پاکستان میں غربت ہے یا ٹینشن
ہماری قوم مرغن غذائیں کھانے کی شوقین ہے اور اس دنیا میں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کھاؤ پیو اور موج کرو۔
ایک خبر نے ہمارے اس خیال کو مزید تقویت پہنچائی کہ پاکستانی قوم کھانے پینے کی بے حد شوقین ہے، جس ریستوران میں چلے جائیں لوگوں کا رش لگا ہوگا، ہزاروں بیماریوں اور غیر معیاری گھی اور مسالوں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی اچھا کھانے پینے کے شوقین باربی کیو اور اسنیک بار کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج بے شمار مریض ایسے ہیں جو جعلی اشیا اور ادویہ کے استعمال کی وجہ سے موت کے دہانے پر جا کھڑے ہوئے ہیں، مختلف چینلوں کے ذریعے تیل، گھی، مسالوں، گوشت کے بیوپاریوں کی قلعی کھل گئی ہے کہ کس طرح یہ لوگ بے ایمانی کرتے ہیں اور صحت مند انسانوں کو خطرناک بیماریوں کے غار میں دھکیل دیتے ہیں، جہاں ہر مریض تڑپتے اور سسکتے رہتے ہیں۔ ایک ذرا سی حماقت اور چٹخاروں کی خاطر جان بوجھ کر مصیبت کو گلے لگا لیتے ہیں، معدے کی بیماریاں زیادہ تر ناقص غذا کے ہی استعمال سے پیدا ہوتی ہیں اور ہمارے جسم میں ''معدے'' کی بے حد اہمیت ہے، ویسے اگر غور کیا جائے تو جسم کے ہر عضو اور ہر حصے کی قدر و قیمت مسلم ہے، بیماری اور معذوری زندگی کو برباد کر دیتی ہے اور معدے کا گہرا تعلق کھانے پینے ہی سے ہے۔ لیکن اس ذوق و شوق کا کیا کیا جائے کہ جس کے ہاتھوں انسان مجبور ہو جاتا ہے، نفس کو قابو میں رکھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ زبان کے چٹخارے کے لیے تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ ویک اینڈ پر ہوٹلنگ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔
گرم گرم مسالے دار انواع و اقسام کے کھانے ہر شخص کی بھوک کو بڑھا دیتے ہیں اور دل للچانے لگتا ہے، اور پھر وہی نفس کی غلامی، لذیذ کھانوں کا بے صبری سے انتظار کہ کب پک کر آئیں اور بھوکا شکم سیر ہو۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو دن بھر بھوکا رہنے کے بعد ہوٹلوں اور شادی ہال کا رخ کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کھایا جائے اور لذت دہن کے مزے لوٹے جائیں۔ اتفاق ایسا ہے کہ پچھلے دنوں اپنے گھر والوں کے بے حد اصرار پر ہمارا بھی جانے کا اتفاق ایک ایسے ریستوران میں ہوا جو اپنے پکوان کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا تھا، بڑا مقام و مرتبہ حاصل تھا، لیکن اس جگہ پر قدم رکھتے ہی ہمارے تو خواب چکنا چور ہوگئے کہ ہمیں یہاں کا ماحول بالکل پسند نہیں آیا۔ یہ ہوٹل ایک مشہور شاہراہ کے سامنے واقع ہے بلکہ یہاں کئی ریستوران ہیں، کرسیوں کی جگہ پلنگ اور تختوں کا انتظام ہوتا ہے، جن پر ایک اندازے کے مطابق لنڈے کے کمبل اور موٹی چادریں بچھی ہوتی ہیں۔
کاش کہ رلی اور چٹائیاں بچھی ہوتیں تو زیادہ اطمینان ہوتا کہ ہمارے اپنے ملک کا مال اور ہماری ثقافت ہے۔ ہم اور ہمارے گھر والے کونوں پر ٹک گئے بقیہ لوگ تو باتوں میں لگ گئے اور ہم ماحول کا جائزہ لینے لگے، حد نگاہ تک چارپائیوں کا جال بچھا ہوا تھا اور پڑھے لکھے نوجوان خوش گپیوں میں مصروف تھے، وقت کی قدر و قیمت کا ذرا برابر احساس نہیں، حالات و واقعات سے بے خبر کہ نہ جانے کب فائرنگ یا دھماکا ہوجائے، چونکہ تخریب کار ایسی ہی جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ خون بہایا جائے۔ کچھ دہشت گرد فرقوں کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے خودکش دھماکے کرتے ہیں۔ خیر جانے دیں ایسے حالات تو ہمارے وطن میں برسوں سے ہیں۔ ہوٹل کے باہر بیٹھے بیٹھے ایک مدت گزر گئی، لیکن کھانے کا کچھ اتا پتا نہیں تھا، ایک دو ٹرے بذریعہ ویٹر طویل وقفے کے بعد آجاتیں تو یہ ٹرے انھیں پیش کردی جاتیں جو خاندان کم از کم دو تین گھنٹے انتظار کی سولی پر لٹکے رہے ہیں، کھانا پکنے کی خوشبو نے ان کی اشتہا کو بے قابو کردیا ہے۔ بھوکے پیاسے حضرات مایوسی سے اس سمت دیکھ رہے تھے جہاں سے بیرے ٹرے لے کر برآمد ہورہے تھے۔ افسوس کی بات یہ بھی تھی کہ ہمارے حصے میں جو تخت آیا تھا اس کا رخ بیت الخلا کی طرف تھا اور بیت الخلا جانے والوں کی کمی نہیں تھی، گویا یہ بھی ایک سزا تھی جو اس وقت ہماری قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔
ہم نے اپنے پرانے وقتوں یعنی 12-10 سال پہلے کے عرصے کو یاد کیا ، کیا منظر ہوا کرتا تھا۔ تختوں پر نئے نئے قالین اور اس پر خوبصورت مخملی گاؤ تکیے، قطار کی شکل میں گملے سجے ہوئے اور ان گملوں میں پھولوں اور خاص طور پر رات کی رانی خوشبو بکھیر کر ماحول کو مسحور کن بنادیتی، آسمان پر چمکنے والا چاند اور چمکتے ننھے منے تارے دل کو خوش کرنے کے لیے کافی ہوتے، صاف ستھری زمین یا فرش، اتنا رش بھی نہیں کہ گویا سب ہی فارغ ہیں، جو چلے آئے وقت پاس کرنے، میرے اندازے کے مطابق یہاں ہزار کے قریب لوگ ہوں گے۔ ہوسکتا ہے اس سے بھی زیادہ ہوں، فٹ پاتھ، ہوٹل کے اطراف میں ایسا ہی نقشہ نظر آرہا تھا۔
اب ایسے لوگوں کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں غربت ہے یا ٹینشن؟ یہ اور بات ہے کہ لوگ ماحول بدلنا چاہتے ہیں، گھریلو مسائل کو چند گھنٹوں کے لیے بھلانے کے متمنی ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ سودا مہنگا ہے کہ پرلطف نظارہ بھی نہیں، دل لبھانے والے منظر اور صحت دونوں سے محروم ہونا پڑتا ہے، واپس آنے والے لوگوں کو پیٹ درد اور سینے میں جلن کی شکایت ہوجاتی ہے، لذیذ کھانوں کے شوقین حضرات کو سوچنا چاہیے کہ جس ملک میں مردہ جانوروں حتیٰ کہ گدھے تک کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے اور ایسے ہی ہوٹلوں، اسنیک بار، باربی کیو میں کھلادیا جاتا ہے اگر نہیں کھلایا جاتا ہے تو قابل غور بات یہ ہے کہ پھر یہ گوشت، جانوروں کی آنتیں، اوجھڑی کہاں جاتی ہے؟ بے چارے غریب و مساکین لوگ تو ہزاروں کا بل دینے سے رہے، چونکہ ان ہوٹلوں میں کھانا کھانے والے لوگ چار پانچ ہزار سے 12-10 ہزار تک کا بل ادا کرتے ہیں۔ ایک انسان کا کھانا ہزار بارہ سو سے کم کا نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں دال اور سبزی بھی پچاس یا سو روپے سے کم نہیں ملتی، پھر بڑے ہوٹلوں کی تو بات ہی کیا ہے۔ سب سے بہتر یہ کہ گھر کے کھانوں کو ترجیح دی جائے تاکہ صحت بھی بہتر اور جان بھی سلامت رہے۔ جان تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے لیکن تندرستی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
اخبار کی جس خبر نے ہمیں کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ تھی کہ نان بائیوں کے تنور جدید شیر مال ہاؤس اور ہوٹلوں میں تبدیل ہوگئے، بیسنی روٹی، سوجی اور مختلف اقسام کے پراٹھے بھی متعارف کرائے گئے ہیں، کیوں کرائے گئے؟اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ہماری قوم اسی قسم کی مرغن غذائیں کھانے کی شوقین ہے اور اس دنیا میں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کھاؤ پیو اور موج کرو۔ اب حصول تعلیم کا شوق کم پایا جاتا ہے بہت کم طلبا ایسے ہیں جو دل لگا کر پڑھتے ہیں اور ملازمت تلاش کرکے رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں، ورنہ تو حال یہ ہے کہ پڑھنے والے نوجوان ہوں یا جاہل طبقہ شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ پتلی گلی سے نکلنا چاہتے ہیں راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھتے ہیں اپنی اس خواہش کے لیے جعلی ڈگریاں خریدتے ہیں، نمبر 2 کام اور قتل و غارت کرتے، حرام و حلال ان کا مسئلہ نہیں کہ پڑھا ہی نہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا؟
پڑھا اس لیے نہیں کہ ذاتی شوق نہیں اور پھر دل و دماغ منفی سرگرمیوں میں مصروف رہا، دوسرے گزشتہ دور حکومت نے اعلیٰ تعلیم کو مہنگا ترین کردیا، کالجوں اور یونیورسٹیز کے سربراہوں نے بھی طلبا اور ان کے مستقبل کے لیے غور و فکر نہیں کیا۔ ملت کے لیے کوئی کام کرنا اپنا فرض نہیں جانتا، پس زیادہ سے زیادہ فیسیں وصول کرنا ہی تعلیمی اداروں کا اولین کام ہے اور اپنوں کو فائدہ پہنچانا، پیسہ زیادہ سے زیادہ کمانا نصب العین ہے۔ جب حالات اس طرح کے ہوں گے تو یقیناً تعمیری کام کم اور تخریب زیادہ ہوگی۔ آج کل تعلیمی ادارے خاص طور پر کالج و یونیورسٹیز میں یہی حال ہے، طلبا اپنے پاس اسلحہ رکھتے ہیں اور وقت ضرورت پر استعمال بھی کرتے ہیں اور مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کیا تعلیم یہی سکھاتی ہے؟ جب ملک میں انارکی کی فضا پروان چڑھے گی تو درس گاہیں اکھاڑہ بن جائیں گی اور ہوٹلوں میں اضافہ ہوگا، یہی تاریک دور کی علامات ہیں۔