بری الذمہ

سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف آج بھی بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں خوفزدہ نہیں کرسکتی


MJ Gohar November 29, 2013
[email protected]

مسلم لیگ ن کے زعما اس بات پر بڑے شاداں اور نازاں ہیں کہ بالآخر انھوں نے وقت کے آمر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ شروع کرنے کا ''دلیرانہ'' قدم اٹھالیا ہے اور ان کی حکومت جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت سے انھیں سزا دلوانے میں بھی کامیاب ہوجائے گی۔ اس حوالے سے تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے، بس مقدمے کا آغاز ہونے کی دیر ہے۔ مسلم لیگ ن کے قانونی ماہرین اور اکابرین حکومت شاید یہ بات بھول رہے ہیں کہ مقدمہ درج کرنا تو چنداں مشکل نہیں لیکن اسے ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف آج بھی بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں خوفزدہ نہیں کرسکتی، ان کے خلاف سازش کرنے والوں کو سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

وہ کامل یقین کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ میرا دامن صاف ہے اور میں نے تمام فیصلے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کیے اور عدالتوں میں میرے خلاف کیسوں میں ضمانت کا ہونا میری بے گناہی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اکبر بگٹی قتل کیس، بے نظیر بھٹو قتل کیس، ججز برطرفی کیس اور لال مسجد کیس میں ضمانت منظور ہوچکی ہے اور ان کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے کراچی میں ایک درخواست زیر سماعت ہے۔ تاہم جنرل مشرف نے واضح کہا ہے کہ وہ غداری کے مقدمے کا سامنا کریں گے اور ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ جنرل مشرف نے اپنے مقدمے کی وکالت کے لیے ملک کے نامور آئینی و قانونی ماہر شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے میں جنرل مشرف کے وکیل غداری کیس کے لیے قائم خصوصی عدالت کو چیلنج کریں گے۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں ان پر الزام ہے کہ انھوں نے 3 نومبر 2007 کو غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور آئین کو معطل کردیا جو آئین کے آرٹیکل 6 کی سنگین خلاف ورزی ہے، ملک کے آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی دانشور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جنرل مشرف نے 3 نومبر 2007 کو جو ایمرجنسی نافذ کی تھی، اس سے پہلے 12 اکتوبر 1999 کو ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ وزیراعظم کو پابند سلاسل پھر ملک بدر کردیا تھا۔ پی سی او کے تحت عدلیہ کے ججز سے نیا حلف وفاداری لیا گیا تھا۔ اب ان دونوں میں سے زیادہ سنگین جرم تو 12ا کتوبر 1999 کا تھا تو پھر جنرل مشرف کے خلاف محض 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے خلاف مقدمہ کیوں؟ 12 اکتوبر 1999 سے ان کے خلاف غداری کے مقدمے کا آغاز کیوں نہیں کیا گیا۔ اس سے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ صاحب نے ایک باریک نکتہ اٹھایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایمرجنسی کو آرٹیکل 6 میں لے کر آنا اور مشرف کے خلاف مقدمہ مذاق کے مترادف ہے، مشرف کے خلاف کیس 12 اکتوبر 1999 کو بنتا ہے۔

جب انھوں نے جمہوری حکومت کا تختہ طاقت کے بل بوتے پر الٹا، کابینہ اور پارلیمنٹ کو ختم کردیا اور وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ خورشید شاہ صاحب کے بقول موجودہ حکمراں ایمرجنسی کے نفاذ پر آرٹیکل 6 کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ حکمران کسی کو بچانا چاہتے ہیں۔ شاہ صاحب کے موقف کے پس پردہ نکتے کو سمجھنے کے لیے دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں، آئینی و قانونی ماہرین اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جب عدالت کے روبرو 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا سوال زیر بحث ہوگا تو آئین کے آرٹیکل 6 پر دلائل دیے جائیںگے اور آئین کی اس دفعہ میں ان لوگوں اور ان اداروں کو بھی برابر کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے جنہوں نے غداری کے جرم میں معاونت کا ''فریضہ'' انجام دیا اور اس جرم کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ گویا بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی اور 3 نومبر کی ایمرجنسی کا مقدمہ 12 اکتوبر 1999 تک پھیل جائے گا اور پھر شریک جرم اور اس جرم کو تحفظ فراہم کرنیوالے سب ''لائن حاضر'' ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایسا بھلا ''کون'' چاہے گا۔ اسی لیے تو کہا جارہا ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کے بجائے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے حوالے سے مقدمے کا مقصد جنرل مشرف اور ''دیگر'' کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اپنی بات کی لاج بھی رکھنی ہے کہ ہم نے تو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ شروع کیا تھا لیکن اب یہ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں '' بے گناہ'' ثابت ہوگئے تو ہمارا کیا قصور، یعنی سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

اخباری اطلاعات کیمطابق ''امکانی خطرے'' کے پیش نظر جنرل مشرف کے اس وقت کے سیاسی ہمنوائوں نے اپنے اپنے بچائو کے لیے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیے ہیں اور جنرل مشرف کے دوستوں نے بھی حالات کے تناظر میں ''غور و فکر'' شروع کردیا ہے، غداری کیس نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کردیا ہے اور ملک کے سیاسی، صحافتی، آئینی و قانونی حلقوں میں بحث کا نیا دروازہ کھل گیا ہے، موشگافیوں کا موسم سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر اخباری صفحات تک غداری کیس ''ہاٹ کیک'' بنا ہوا ہے، نہ صرف اندرونی وطن بلکہ بیرون دنیا میں بھی اس کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق جنرل مشرف کے خلاف غداری کیس شروع ہونے سے پاکستان میں نیا طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ بعض طاقتور عسکری رہنمائوں نے اپنے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی پر نواز شریف سے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے اور کون نہیں چاہتا کہ چھ دہائیوں سے ملک میں ''فرمانروائی'' کا اصل مرکز کہاں ہے، اسی لیے تو کہا جارہا ہے کہ دیگر مقدمات کی طرح غداری کیس میں جنرل پرویز مشرف ''بری الذمہ'' قرار پائیںگے۔ بس تھوڑا انتظار کرلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں