کابل میں متوازی حکومتیں
عبداﷲ عبداﷲ تو کسی دھڑے کا نمایندہ ہے لیکن اشرف غنی کس کی نمایندگی کرے گا۔
افغانستان میں صدر اشرف غنی کی پہلی ٹرم پوری ہونے پر مارچ 2019 میں صدارتی الیکشن ہونے تھے جو ملتوی ہو کر جولائی 2019 پر چلے گئے۔ جولائی میں ایک بار پھر ملتوی ہوئے اور آخر کار یہ صدارتی الیکشن 28 ستمبر 2019 کو منعقد ہوئے۔
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کی خاتون سربراہ حوا عالم نورستانی نے اعلان کیا کہ صدارتی الیکشن کے نتائج 14 نومبر 2019 کو جاری کر دئے جائیں گے لیکن تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی۔ تاخیر کا سبب یہ بتایا جاتا رہا کہ بے شمار ووٹ متنازعہ ہیں اور جب تک ان متنازعہ ووٹوں کا کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا، نتائج کا اعلان ممکن نہیں۔ الیکشن کے تقریباً پانچ مہینے بعد18 فروری 2020کو نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔
اشرف غنی 923592 ووٹ لے کر دوسری ٹرم کے لیے صدر منتخب ہو گئے۔ عبداﷲ عبداﷲ کو سرکاری اعلان کے مطابق730841 ووٹ پڑے، یوں وہ دوسری مرتبہ رنراپ رہے۔ انھوں نے نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ افغان نژاد امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد ایک بار پھر بیچ میں پڑے۔ عبداﷲ عبداﷲ، اشرف غنی کی صدارت پر راضی ہو جائیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے۔ادھر دوحہ مذاکرات کو کامیاب کرنے کے لیے امریکا نے اشرف غنی کو حلف برداری کی تقریب موئخر کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔
سوموار 9 مارچ 2020 کو صدارتی حلف برداری کی دو الگ الگ تقریبات کابل میں منعقد ہوئیں۔ صدارتی محل میں اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی۔عین اسی وقت عبداﷲ عبداﷲ اپنے دفتر میں صدارت کا حلف اُٹھا رہے تھے۔ افغان ٹیلی وژن نے دونوں متوازی تقریبات کو ساتھ ساتھ دکھایا جسے دنیا اور افغانستان کی عوام نے دیکھا۔ ان کے اندر دونوں تقریبات کو دیکھ کر ہول اُٹھا اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کے سائے گہرے ہو گئے جو ابھی چند دن پہلے دوحہ میں امن معاہدے پر دستخطوں سے چھٹ گئے تھے اور لوگ والہانہ رقص کر رہے تھے۔
عبداﷲ عبداﷲ نے اپنی حلف برداری پر ایک بیان میں کہا کہ اگر اشرف غنی کے انتخاب کو جائز مان کر چپ ہو جایا جائے تو پھر افغانستان سے جمہوریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گی کیونکہ اشرف غنی نے الیکشن جیتے نہیں بلکہ اُن کی جیت کا بزور اعلان کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جمود کو توڑنے کے لیے نئے سرے سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔
اشرف غنی کی تقریبِ حلف برداری شروع ہوتے ہی صدارتی محل پے در پے دھماکوں سے گونج اُٹھا جس کی وجہ سے تقریب کچھ دیر کے لیے رک گئی لیکن اشرف غنی فوراً ہی سنبھلے اور کوٹ اتارنے کے انداز میں سینہ تانے حلف برداری کی تقریب کو جاری رکھا۔ بعد میں ایک ٹویٹ میں اشرف غنی نے کہا کہ نہ تو کوئی جان سے گیا اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا۔ مغربی ذرایع نے خبر دی ہے کہ داعش نے ایک وین میں نصب مارٹر توپ کے ذریعے یہ دھماکے کرائے ہیں۔ 29 فروری 2020 کو دوحہ قطر میں ہونے والے امن معاہدے کے لیے مذاکرات کے گیارہ دور ہوئے۔ اس کے علاوہ سامنے اور پسِ پردہ کئی ملاقاتیں اور دورے ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ہوئے۔
طالبان نے معاہدہ پر دستخطوں سے پہلے ایک ہفتے کے لیے تشدد کم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان نے اپنے وعدے کا پاس کیا۔ معاہدے کے بعد طالبان نے امریکی اور نیٹو فوجی دستوں پر اپنے حملوں کو روک رکھا ہے لیکن ایک بار صرف حکومت کے دستوں کو نشانہ بنایا۔ امن کی فضاء میں پہلا پتھر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کی شکل میں مارا ۔ بعد میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں اشرف غنی ایک ہزار پانچ سو قیدی فوری طور پر رہا کرنے پر تیار ہو گئے اور مشروط رہائی پر مبنی ایک صدارتی حکم جاری بھی ہو چکا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیدیوں کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ البتہ اشرف غنی نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ افغان حکومتی فوجی دستے شاید زیادہ عرصے تک طالبان پر حملے روک نہ سکیں۔ اگر دونوں طرف سے مخاصمت کی یہی فضا جاری رہی تو نقصان امن کا ہو گا۔ چین نے اشرف غنی کو دوسری بار عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد پیش کی۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اشرف غنی کو مبارک دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم افغانستان میں متوازی حکومت قائم کرنے کے کسی بھی اقدام اور سیاسی اختلافات کو حل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ ادھر افغان طالبان نے ملا ہیبت اﷲ کو ملک کا صدر بنانے کا اعلان کیا ہے۔
انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ یہی سب سے اہم اور مشکل مرحلہ ہے۔ ڈائیلاگ سے پہلے دونوں دھڑوں کا الگ الگ متوازی حکومت بنا لینا اور علیحدہ علیحدہ متوازی صدارت کا اعلان کرنا بہت خطرناک ڈویلپمنٹ ہے، اس سے حکومتی پوزیشن خاصی کمزور ہو گئی ہے۔ ولسن سینٹرکے مائیکل کو گلمین نے کہا کہ افغانستان میں ایک بالکل نئی مشکل جنم لے چکی ہے۔
زلمے خلیل زاد کے لیے نیا کام پیدا ہو گیا ہے اور یہ بہت ہی مشکل کام ہو گا، امن معاہدے کی پوری ڈِیل ہی رِسک پر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دفعہ یہ صورتحال جو پیدا ہو گئی ہے، اس میں طالبان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ طالبان کو یہ مشکل درپیش ہو گی کہ کس کابل حکومت کے نمایندوں سے بات کریں، عبداﷲ عبداﷲ تو کسی دھڑے کا نمایندہ ہے لیکن اشرف غنی کس کی نمایندگی کرے گا۔
ساری افسوسناک صورتحال میں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ امریکی اور دوسرے مغربی ذرایع ابلاغ اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ امریکی اور نیٹو افواج کا اِنخلا شروع ہو چکا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع مارک اسپر نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے جنرل اسکاٹ مِلر کو یہ اِختیار دیا ہے کہ وہ ٹروپس کا انخلا شروع کر سکتے ہیں۔ یوں دس مارچ سے انخلا شروع ہو گیا ہے۔
انخلا کا پہلا مرحلہ 135 دنوں میں مکمل ہو گا جس میں ٹروپس کی تعداد گھٹا کر 8600 پر لائی جائے گی اور چودہ ماہ میں بیرونی افواج مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائیں گی۔ متوازی حکومتوں کی چپقلش اِنٹرا افغان ڈائیلاگ کو مشکل سے دوچار کر چکی ہے اور اس بات کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ ڈائیلاگ شروع ہونے میں کہیں غیرضروری دیر نہ ہو جائے۔