ماضی میں لوگ تربیت یافتہ ہوتے تھے‘ خواہ تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں شیخ جہانگیر محمود

جب انسان ایسا پودا لگائے جس کے سائے میں اُس نے نہیں بیٹھنا تو سمجھ لیں وہ زندگی کا مقصد جان گیا ہے


جب انسان ایسا پودا لگائے جس کے سائے میں اُس نے نہیں بیٹھنا تو سمجھ لیں وہ زندگی کا مقصد جان گیا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

شیخ جہانگیر محمودکا شمار بلاشبہ اِن خوش قسمت شخصیات میں ہوتا ہے جن کے اطمینان قلب کو رب تعالیٰ کارخیر کے ساتھ منسلک کردیتا ہے۔

وہ اُستاد ہیں' اساتذہ کی تربیت سے منسلک ہیں' ماہر تعلیم ہیں' تحریکی و ترغیبی مقرر ہیں اوراسلامی محقق ہیں۔ اُن کی علمی' تحقیقی' تعلیمی اور فکری سرگرمیاں محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ان حوالوں سے ان کا تعارف بین الاقوامی ہے۔ ان کے دادا جنوبی ایشیا کے اہم ماہر حیاتیات میں سے ایک شمار کیے جاتے تھے۔ ان کاسارا خاندان پشت در پشت درس و تدریس سے وابستہ چلا آرہا ہے اور انہیں اِس بات پر بجا طور پر فخر بھی ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم متحدہ عرب امارات میں حاصل کی۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔

اس کے بعد ایک ایسا مرحلہ آیا جب انہوں نے ساری توجہ دینی تعلیم پر مرکوز کردی۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ مدرسہ میں داخلہ لیا اور جید علماء سے کسب فیض کیا' آپ کو چار بڑے روحانی سلسلوں سے بھی نسبت ہے' انہوں نے دنیا بھر میں تعلیم و تعلّم کے حوالے سے اسلامی اقدار کے موضوع پر قلم اور زبان سے جہاد کیا۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ان کے لاتعداد پروگرام نشر ہوچکے ہیں۔

وہ 24کے قریب نصابی کتب تحریر کرچکے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے نصاب کے لیے تحریر کی جانے والی ٹیکسٹ بک آف اسلامیات اور The vision of an islamic school نامی کتابچے کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان موضوعات پر ان کے بہت سے تحقیقی مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے 2004ء میں سوسائٹی آف ایجوکیشنل ریسرچ کی بنیاد رکھی جس کے تحت وہ دس ہزار ٹریننگ سیشن مکمل کراچکے ہیں۔ ملکی اور غیرملکی سطح پر ان کی مشاورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ایکسپریس: اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔اپنے فیملی بیک گراؤنڈ کے حوالے سے کچھ بتائیے؟ابتدائی تعلیم کہاں سے حال کی؟

شیخ جہانگیر: بنیادی طور پر میں ایک اپنے آپ میں رہنے والا شخص ہوں۔ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں عموماً زیادہ بات نہیں کرتا۔ گزشتہ چار پانچ برسوں سے میں نے میڈیا پر آنا جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس سے ایک تو وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور مجھے لگتا ہے انسان کے نفس کو تقویت ملتی ہے۔ یعنی وہ مغرور ہوجاتا ہے۔

میرا تعلق پاکستان کے ایسے مڈل کلاس گھرانے سے ہے جن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ تربیت اور تعلیم کے علاوہ ان کے پاس بچوں کو دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ میری والدہ بھی استاد ہیں، والد بھی اور میرے دادا بھی، یوں میں استادوں کے خاندان کی تیسری پیڑھی سے ہوں۔ میرے دادا نے 1932ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے زولوجی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

انہیں ''بابائے فیشریز'' کہا جاتا ہے۔ان کی اکثر پوسٹنگ مشرقی پاکستان میں رہا کرتی تھی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بطور انسٹرکٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ یوں تعلیم و تعلم سے میرا تعلق ہمیشہ رہا۔ طرز زندگی نیم انگریزی نیم پاکستانی تھا جو ہمارے ہاں مڈل کلاس کا ہوتا ہے۔ سینئر کیمرج بیکن ہاؤس سے کیا۔ اس سے پہلے کی تعلیم متحدہ عرب امارات کی ہے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور چل اگیا۔ تایا، چچا ماموں سب تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے۔ مگر شاید اللہ کا ایک نظام ہے، شاید گریجویشن کے بعد میں ایک پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندان سے دین کی طرف راغب ہوا۔ اس سے پہلے میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔

دین کا علم براہ راست مدرسے کے علماء سے حاصل کرنے کا موقع ملا۔ والد کی وفات کے بعد مجھے ساری ذمہ داری سبھالنا پڑی تو بہت سی چیزوں کا براہ راست سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کا شکر ہے جوانی میں ہی مشکل وقت دیکھ لیا۔ آج جن دوستوں کو بڑھاپے میں ایسا وقت گزارتے دیکھتا ہوں تو بہت مشکل لگتا ہے۔ میرے بچے اکثر سوال کرتے ہیں کہ اپنے والد کی وفات کے صدمے سے کیسے نکلے؟ تو میں کہتا ہوں بیٹا میں نکلا ہی نہیں، میرے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ یہ تو آجکل کے بچوں کی عیاشی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم صدمے میں ہیں، ہمیں ٹائم چاہیے۔ ہمارے پاس تو وقت ہی نہ تھا، معاشی معاملات دیکھنے تھے۔ اس کے بعد آپ کہہ لیں کہ جب آدمی نیا نیا مسلمان ہوتا ہے یا مذہب کی جانب راغب ہوتا ہے تو تحریکوں کی جانب مائل ہوتا ہے، تو میں بھی ہوا۔

اایکسپریس: آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور تحقیقی مقالہ جات پہ بھی کام کر چکے ہیں، آپ کے خیال میں ہمارے معاشرے میں اسلامی اقدار صحیح معنوں میں مروج نہ ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟ اور ہم کس طرح اسلام کے اصولوں پہ عمل پیرا ہو سکتے ہیں؟

شیخ جہانگیر: میرے خیال میں ہم بہت حد تک دین کے معاملات میں ابھی تک عمل پیرا ہیں۔ میں آپ کو اس کی مثال دے سکتا ہوں۔ ہمیں بہت سی چیزیں ہمارے دین سے ملی ہیں۔ آج بھی بس سٹاپ پر بزرگوں اور خواتین کو راستہ دیا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارا ہی معاشرہ نیک ہوچکا ہے یا ایسا کرتا ہے مگر ہم ایسے ہیں۔ یہ سہولت آپ کو باہر نہیں ملے گی۔ ہمارے معاشرے میں ابھی اقدار زندہ ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو باہر سڑکوں پر نظر آتے ہیں، روز ٹی وی پر بوڑھے ماں باپ کو گھر سے نکالنے کے بارے میں کچھ نہ کچھ دکھایا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے لوگ نہیں لیکن کتنے لوگ ہیں؟

آج بھی لوگوں کے لیے خدا کا واسطہ اہمیت رکھتاہے۔ ہاں اطمینان کا فقدان ہے اور میں سمجھتا ہوں اس کا قصور وار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے۔ سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ عوام کو تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اس خاموش فیصلے پر آمادہ کردیا گیا ہے کہ دین زیادہ سے زیادہ تمہاری انشورنس پالیسی ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعد ہونے والا ہے۔ زندگی میں تم مت سوچو کہ تمہارا دین کیا ہے۔ اس میں مغرب کے اپنے مقاصد ہیں۔بنیادی وجہ اگر دو لفظوں میں بیان ہو تو وہ ہمارا تربیت اور تعلیم کا نظام ہے۔

آپ اس کو نوٹ کریں کہ میں نے تعلیم و تربیت نہیں کہا بلکہ تربیت و تعلیم کہا ہے۔ کیونکہ پہلے دور میں لوگ تربیت یافتہ ہوتے تھے،چاہے تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں۔ اب تعلیم تو بہت ہے لیکن تربیت نہیں۔ سکول تو بہت ہیں جو بچوں کو کتابیں بھی دیتے ہیں، مفت ناشتہ بھی کرواتے ہیں، لیکن وہاں ویسی تربیت نہیں ہوتی۔ تربیت ہوتی ضرور ہے مگر غلط تربیت ہوتی ہے۔ اب اگلا سوال ہے ٹھیک کیسے ہوگا۔ میرے خیال میں مستقبل میں جو سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ خواتین کی ہے، کیونکہ جو ذہن سازی خواتین گھر میں شروع کرتی ہیں وہی ساری زندگی چلتی ہے۔

خواتین بھی باقی دنیا کی طرح کیپیٹل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام میں Consumerism کے زیر اثر ہیں، جو ایک مذہب کا درجہ حاصل کر چکا۔ تو اگر وہ ایسی ہے تو یہ سوچیں کہ جس لڑکے کی وہ تربیت کرنے جاری ہیں اس لڑکے نے بڑے ہوکر عورتوں کی عزت کرنی ہے یا تذلیل۔ اسی بچی نے میری وراثت آگے لے کر جانی ہے۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آج تک وہ میرے خیال میں رول ماڈل ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مردوں سے ذمہ داری ہٹا رہا ہوں یا ریاست سے یا علماء سے یا اساتذہ سے بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر شروع کرنا ہے تو خواتین کریں گی اور اس کے لیے کوئی خاص طریقہ نہیں ہوگا کہ کوئی ادارہ بنے گا بلکہ یہ شعور گھروں میں ایک فرد بھی لاسکتا ہے۔

ایکسپریس: دنیا میں اس وقت سب سے Fashionable بات یہ سمجھی جاتی ہے کہ کسی بڑی تبدیلی یا انسانی مطالبے کی بنیاد مذہب کو نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچتا ہے۔ اس صورتحال میں ہماری Strategy کیا ہونی چاہیے جیسے ابھی مقبوضہ کشمیر میں اس بیانیے پر اصرار ہے کہ تحریک کا عنوان اسلام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس بڑے چیلنج کا ہم کیسے جواب دیں گے؟

شیخ جہانگیر:دیکھیں ہم تو اس کا جواب دے چکے ہیں۔ ہم نے جو لیڈر شپ پروگرام بنائے ہیں وہ مذہب کو بنیاد بنا کر ہی بنائے کیونکہ مذہب کے بنا ہم چل نہیں سکتے۔ مسلمانوں کا مذہب ان کی رہنمائی ہر شعبہ زندگی میں کرتا ہے پھر ان کے سیاسی، سفارتی اور عدالتی معاملات اس سے خالی کیوں ہیں،جبکہ اصول موجود ہیں۔ جیسے تاریخ میں جو خلیفہ یا انبیاء گزرے اگر کوئی شخص بھوکا یا مجبور تھا تو انہوں نے اس کے پڑوسی کی پوچھ کی۔ قاضی نے بلایا کہ اس کو شرم نہیں آتی اس کا ہمسایہ بھوکا تھا یا بچے کی دوا نہ تھی اور وہ مزے سے سو رہا تھا۔ ہمیں تو قرآن نے کہا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجاؤ۔

ایک پاؤں وہاں، دوسرا یہاں مت رکھو۔ اخلاقی برائی تو ختم ہوکر ذاتی معاملہ بن چکی ہے۔اب کشمیر کے مسئلے کی بات کریں تو کوئی آپ کو یہ نہیں بتا رہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو دس بارہ بابے سرجوڑ کر بیٹھے تھے، دنیا کو تقسیم کرنے، انہوں نے یہ سب اپنے کاروبار کے لیے کیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو حقوق دینے کے لیے یا ملائشین مسلمانوں کو آزاد کرنے کے لیے یہ سب نہیں کیا۔کہنے کی بات ہے وہ کیسے چھوڑ گئے یہ زمین۔ ہم تو دادا کی تین مرلہ زمین نہیں چھوڑتے۔ اس میں اپنا حصہ لیتے ہیں۔ ان کا یہ پلان تھا اور انہوں نے اس میں جھگڑے بھی شروع کروا دیئے۔ ایسا صرف ہندوستان میں نہیں کیا بلکہ ملائشیا، انڈونیشیا اور بوسنیا میں بھی ایسے بارڈر بنا دیئے کہ جھگڑا کبھی ختم نہ ہو اور پھر اقوام متحدہ کی فورسز وہاں بیٹھی ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو اس کے پاکستان کی شاہ رگ ہونے کی اولین وجہ وہاں سے پانی کی پاکستان کو فراہمی ہے۔

دوسری چیز یہ کہ ہم مسلمان چاہے جتنے بھی کمزور کیوں نہ ہوجائیں اپنے اعمال و فرائض پر پورے نہ اتریں، لیکن ہمارے درمیان ایک مشترکہ محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ محمد رضوان، عائشہ خان اور فاطمہ بٹ پر ظلم ہو رہا ہے تو ہم سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ ہماری تربیت ہے۔ ہمیں اس لڑی میں پرویا گیا ہے۔ اب مسئلہ کشمیر پر کہتے ہیں کہ اسے انسانی مسئلہ بنایا جائے تو چلیں وہی بنا دیں۔ کوئی انسانیت کی بنیاد پر ہی مداخلت کرے۔ مگر کوئی ایسا صرف اس لیے نہیں کررہا کہ وہ مسلمان ہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ کاروبار ہے، اب ریاست کاروباری لوگ چلاتے ہیں۔ جنگیں کاروبار کے لیے ہوتی ہے۔

کشمیر کا ایشو اگر کاروبار کے لیے اچھا ہے تو اسے کریں گے۔ کسی نے پوچھا کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جو بنیادی طور پر Mormon ہے (عیسائیوں میں بھی قادیانیوں کی طرح ایک فرقہ ہے جس میں ایک نبی آیا تھا تو وہ اپنے مذہب کے اعتبار سے ملحدہ ہے) یہ کہا گیا کہ دیکھیں! نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا، یہی اگر امریکہ میں ہوتا تو کوئی اتنی بڑی بات نہ ہوتی۔ یہاں حملہ ہوا تو وزیراعظم خود آئی ہے۔ میرا موقف یہ تھا کہ دونوں کا ایک ہی ری ایکشن تھا جو کارروبار کے لئے بہتر ہو وہی ردعمل آئے گا ۔ نیوزی لینڈ کے لیے سکیورٹی اچھی ہے تو اس پر غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی ۔ دوسروں کے لیے Insecurity بہتر ہے تو ویسا ہی رد عمل نظر آئے گا۔ ان کو مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔

ایکسپریس:آپ اسلامی تعلیم کے ماہر اور سماجی معاملات پہ عبور رکھتے ہیں، ہمارے معاشرے میں طبقاتی نظام کی وسیع ہوتی خلیج کو پاٹنے کا کیا حل تصور کرتے ہیں؟

شیخ جہانگیر: یہ بات سمجھ لیجئے کہ معاشرے میں ہمیشہ طبقات ہوں گے۔ ہم جسے آئیڈیل ریاست کہتے ہیں، یعنی اسلامی ریاست ، محمدﷺ کے دور میں بھی وہاں طبقات تھے۔ امیر بھی تھے، غریب بھی، بہت زیادہ مذہبی طبیعت والے لوگ بھی تھے، ہنسی مذاق والے لوگ بھی تھے۔ معاشرے میں یہ تفریق تو رہے گی۔ انسان ہیں بسکٹ تو ہیں نہیں کہ سب ہی ایک طرح کے نکل آئیں۔ خلیج اس لیے بنائی گئی ہے کہ ایک دوسرے کا استحصال کیا جائے۔ محنت کرنا امیر ہونا اور اس کے بعد اس بات کا اہتمام کرنا کہ میرے بعد کوئی امیر نہ ہوسکے، اللہ کی نعمتوں کو اپنے اوپر حلال کرنا اور دوسروں کے اوپر حرام کرنا یہ اصل مسئلہ ہے۔ اس میں پھر وہی تربیت اور تعلیم کی بات ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عمومی طور پر مغربی معاشرے میں جو لوگ جتنے امیر ہوتے ہیں اتنے ہی سخی ہوجاتے ہیں اور جو ریاست جتنی امیر ہے وہ اپنی رعایا پر اتنی ہی مہربان ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے وہاں یہ تربیت ہے۔ دنیا کی اہم یونیورسٹیاں 'جن کو ہم آج بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے' وہ بڑے لوگوں نے اس لیے نہیں بنائی تھیں کہ لوگ ان کا نام لیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب انسان ایک ایسا درخت کا پودا لگائے جس کے سائے میں اس نے کبھی نہیں بیٹھنا تو سمجھو وہ زندگی کو جان گیا ہے۔ تو ہمیں بھی وہ درخت لگانے ہیں جن کے سائے میں ہم نے نہیں بیٹھنا۔ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں ایسے پروجیکٹ شروع کریں جن کے ثمرات فوری طور پر سامنے نہیں آتے۔

کسی کا علاج کر دیا تو یہ بہت اچھی بات ہے لیکن کوئی ایسا بھی کام شروع کریں جس کے اثرات ایک پیڑھی کے بعد بھی نظر آئیں۔ مسجد میں پنکھا لگا دینا بڑی اچھی بات ہے۔ میں اس پر تنقید نہیں کرتا مگر ایسے ادارے بنائیں جن کے ثمرات بعد میں بھی دکھائی دیں۔ اب آپ کہیں گے ادارے تو موجود ہیں، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ تعلیمی کا م کا معیار گھٹتا نہیں، تربیت ہے جس کا معیار گھٹ جاتا ہے۔ لوگوں کی شخصیت سازی نہیں ہو رہی ہوتی۔

ایکسپریس: دنیا بھر کے تہذیبی ارتقاء میں فنون لطیفہ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اسے دین سے متصادم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس تضاد سے کیسے نمٹا جائے؟

شیخ جہانگیر: دیکھیں جو فنون لطیفہ یا لبرل آرٹس ہیں انہیں ہم نے چند ایک میڈیمز میں قید کردیا ہے۔ ٹی وی میں یا فلم میں، پینٹنگ میں یا مجسمہ سازی میں جس پر سب سے زیادہ اعتراض ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے ماضی میں ان چیزوں پر اتنا زور دیا کہ پھر صرف یہی رہ گئیں۔ میں کسی کی عبارت پڑھ رہا تھا کہ ایک تقریب پر کھانا بہت اچھا تھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ باورچی مغلوں کے زمانے کا تھا۔ بتانے لگا کہ آٹھ پیڑھیوں سے بادشاہوں سے تعلق کا پس منظر رکھتا ہے اور یہ چند مہمانوں کا کھانا کیا کھیر کی پچاس اقسام بنانا جانتا ہے۔ سو قسم کے پلاؤ جانتا ہے، ستر قسم کے روسٹ جانتا ہے۔ تو لکھاری نے کہا کہ جوں جوں وہ پلاؤ کی اقسام گنوانے لگا توں توں مجھے مغلوں کے زوال کے اسباب سمجھ آنے لگے۔

یہ آرکیٹکچر بھی لبرل آرٹس کا حصہ ہے۔ عمرانیات، Enthropology بھی لبرل آرٹس کا حصہ ہے، صرف گانا بجانا لبرل آرٹس نہیں ہوتا۔ دوسری بات جو میں نے پہلے کہا کہ Social-Reengneering ہورہی ہے اس کے لیے ضروری ہے لوگوں کو ایسے کاموں میں مصروف رکھا جائے جن کا کوئی مطلب و مقصد نہیں۔ دیکھیں کہا جاتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ I Think Its Junk Food کیا آپ کو معلوم ہے مشہور فاسٹ فوڈ کی ایک برانچ کے ایک برگر میں میٹ کتنا ہوتا ہے۔ صرف 8 فی صد اور باقی آنتیں اور نجانے کیا کیا بھرا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے خیال میں جنک فوڈ اچھا ہے تو کھالیں۔

میرا خیال ہے کہ اگر ایک انسان اپنی ذمہ داری سمجھ لے کہ اسے کوئی کارخیر انجام دینا ہے تو اسے فرصت ہی نہیں ملے گی یا کسی اور راحت کی ضرورت پڑے گی۔ایک بات آج کی تمام دینی جماعتوں کے حوالے سے کہ ان کا حال بالکل ایک پرانی گاڑی جیسا ہوچکا ہے جو ماضی میں بڑی عالیشان گاڑی تھی، کوئی ایک آکر کہتا ہے، اگر اس میں ٹائر ڈال لیں تو ٹھیک ہوجائے گی اور ٹائر ڈالنے ضروری ہیں اس میں کوئی انکار نہیں۔ لیکن جب تک اس میں انجن ہی نہیں ہوگا تو سٹارٹ کیسے ہوگی۔ اب انجن بنانے میں اتنا وقت صرف کر رہے ہیں اور ٹائر ڈالنے والے کے راستے میں رکاوٹ بھی ڈال رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ جز کو کل نہ سمجھا جائے۔ دوسرے کو بھی اپنا مسلمان بھائی سمجھیں وہ بھی کوئی اچھا کام کر رہا ہے۔ ہمارے اخوت فاؤنڈیشن والے دوست لوگوں کو بلا سود قرضے دے رہے ہیں وہ بھی دینی کام ہی ہے۔

ایکسپریس:پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے اسلامی تعلیمات سے کیسے مدد لی جا سکتی ہے اور سود سے پاک معیشت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟

شیخ جہانگیر: میرے خیال میں اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات بہت زیادہ مدد کرچکی ہیں اور بہت زیادہ محدود اختیارات اور گنجائش کے باوجود علماء نے اسلامک بینکنگ متعارف کروائی ہے۔ اب اس سے آگے صرف ریاست ہی کچھ کرسکتی ہے۔ اسلامک بینکوں کو شروع ہوئے سات برس بیت چکے ہیں ان کی جتنی کامیابی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں میں سود کا شعور تھا اور یہ سود کا شعور New York Times سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ مسجدوں اور ممبروں سے آیا تھا۔ بنکوں نے اپنی اسلامی برانچز بنا دی ہیں۔ انہوں نے اپنے اسلامک کاؤنٹر بنالیے ہیں۔ یعنی لوگوں کے جذبات اور نسبت تو ہے اور اگر وہ محسوس کرتے بھی ہیں کہ سہولیات اسلامک بینک میں کم ہیں تو پھر بھی وہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔

اسلامک سکول بھی ہیں میں اس موضوع پر کتابیں بھی لکھ چکا ہوں۔ اگر آپ دوپہر کے وقت کھڑے ہوں، ان سکولوں کے سامنے، آپ دیکھیں گے کہ بظاہر ایسے لوگ وہاں نظر آئیں گے جنہیں دیکھ کر شاید آپ اندازہ نہ کرسکیں کے ان کے بچے اسلامی سکولوں میں پڑھتے ہیں، لیکن وہ پڑھ رہے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کی صورتوں پر ایمان لے آتے ہیں کہ فلاں کا چہرہ اچھا لگ رہا تو یہ اسلامی ہوگا بہت سے لوگوں کے چہرے شاید ہمارے معیار کے نہیں ہوتے لیکن اللہ کے ہاں ان کا کیا درجہ ہے یہ تو ہمیں معلوم نہیں۔

ایکسپریس: آپ ماشااللہ 10000سے زائد ٹیچرز ٹرینگ دے چکے ہیں کیا وجہ سمجھتے ہیں کہ آج تک پاکستانی تعلیمی ادارے بین الاقوامی سطح پہ مستند مقام حاصل کرنے میں نا کام دکھائی دیتے ہیں؟

شیخ جہانگیر: استعمار نے ہمیں جو تحفے دیئے ہیں ان میں سے ایک Negative Self Imagingہے۔ جوں ہی کوئی شخص کہتا ہے کہ مسلمان بڑے بُرے ہیں بڑے پسماندہ ہیں تو ہم اسے بڑی خوشی کے ساتھ رضاکارانہ طور پر قبول کرتے ہیں کہ جناب ہم بہت بُرے ہیں۔ حالانکہ معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر آپ کو ہزاروں اچھی مثالیں مل سکتی ہیں۔اہم بات یہ کہ رینکنگ بناتا کون ہے۔ انٹرنیٹ پر آرٹیکلز کون لکھتا ہے؟ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں جو مجھے ایک دن ملے پوچھا کیا کررہے ہیں آجکل؟ کہنے لگے میں ایک آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔ مالدیپ (Maldives) اور آئرلینڈ (Irland) میں سے گھومنے پھرنے کے لیے کون سا ملک بہتر ہے۔ میں نے کہا، آپ ان ممالک میں گئے ہیں؟ تو کہنے لگے میں تو کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا تو میں نے کہا پھر آپ کیسے لکھیں گے۔

انہوں نے کہا نیٹ پر ہے سارا کچھ تو میں دیکھ دیکھ کر لکھوں گا۔ تو کون ہیں وہ ادارے ان کی اپنی Credibility کیا ہے۔ کیا وہ یونیورسٹیوں کے سپانسر سے ڈونیشن لیتے ہیں اور Ranking کردیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک مدرسہ ہے۔ الحمدللہ ہم اس کے ساتھ بڑے عرصے سے ٹریننگ کا کام کر رہے ہیں۔ اس مدرسہ میں 50 ممالک سے بچے پڑھنے آتے ہیں۔ پاکستان کے شہر کراچی میں ہے کوئی چھپا چھپایا نہیں ہے۔ کوئی رینکنگ ہوگی نہ کہ وہ بچے سعودیہ کیوں نہیں پڑھنے جاتے۔

انڈیا کیوں نہیں چلے جاتے، جامعہ ازھر کیوں نہیں چلے جاتے۔ یہاں ایجوکیشن فری ہے۔ کوئی ڈونیشن نہیں وہ خود یہ انتظام کرتے ہیں۔ تعلیم، رہائش، کھانا مفت ہے اور وظیفہ بھی ملتا ہے۔ Across the board تمام مدارس کا یہی نظام ہے۔ یہ کسی رینکنگ میں نہیں۔ وہ چاہتے ہیں یہ پیسے کیوں نہیں دیتے۔ انہیں تکلیف یہ ہے کہ جو ہزاروں بچوں کو کھانا کھلا رہے ہیں، ہمیں کیوں کچھ نہیں کھلاتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکیڈمک سٹینڈرڈز نیچے گرے ہیں۔ ہم سنتے تھے کہ گذرے زمانے کا میٹرک اور آج کا ایم اے برابر ہے۔ یہ بات درست ہے مگر آپ ریٹ بھی نکال کردیکھ لیں کہ آپ کی یونیورسٹی کتنے پیسوں میں ایم بی اے کی ڈگری دے رہی ہے اور ان کی یونیورسٹی کتنے پیسوں میں ایم بی اے کراتی ہے۔ تو پَر ڈالر ہماری کوالٹی ان سے بہتر ہے۔

ایکسپریس:آپ نے سرکاری اداروں کے ساتھ بھی کام کیا؟ یہ تجربہ کیسا رہاِ؟

شیخ جہانگیر:میں نے کئی دفعہ کام کیا وہاں لیکن یہ دیکھا کہ اول تو وہ اہمیت ہی نہیں دیتے، پھر ان میں سمجھنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکنوکریٹ بہت کم ہیں۔ سب سے بڑا ٹیکنوکریٹ وہ ہوگا جو محکمے کا کلرک ہے اور ڈیپارٹمنٹ کے Operational سسٹم کوجانتا ہے۔ اس کو ٹیکنوکریٹ سمجھتے ہیں اور جو اوپر افسر آیا ہے وہ دو سال کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹ میں آیا ہے۔ دو سال بعد کسی اور میں چلا جائے گا۔ اس نے دو سال گزارنے ہیں اور چلا جائے گا۔ سسٹم ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کبھی ٹھیک نہ ہوسکے۔ بیرون ممالک ٹریننگ دینے میں بہت لطف آتا ہے کیونکہ وہاں سب رسپانڈ کرتے ہیں۔ وہاں جو شخص معلم کے درجے پر فائز ہوتا ہے وہ جب تک چار برس بی ایس ایجوکیشن نہیں کرتا اسے استاد بننے کا لائسنس ہی نہیں ملتا۔

ایکسپریس:اسلام ایک پر امن دین ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ اسلام کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے؟

شیخ جہانگیر:دیکھیے یہ جملہ پتہ نہیں آیا کہاں سے ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ اگر اس معنی یہ ہے کہ مسلمان کسی پر جارحیت نہیں کرتا تو ٹھیک ہے لیکن اگر ہم پر جارحیت کی جائے تو اس کا جواب ہم دیتے ہیں اور ساری معقول انسانیت کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے۔ میں مانتا ہوں کہ مسلمان معاشرے میں ری ایکشن بڑا سٹرونگ آتا ہے مگر یہ دیکھیں کے ان کے پاس راستہ بھی کوئی نہیں۔ آپ دیکھیں دنیا بھر میں مسلمان ممالک مسلسل ایک دباؤ کا شکار ہیں۔آپ فلسطینی کے بچے کو سمجھائیں جس کا باپ گاؤں میں اپنی زمینوں پر حل چلارہا تھا اور اس کی ماں روٹی بنا رہی تھی اور اس کے اوپر آکر فوجی چڑھ گئے، کھینچ کر نکال دیا اور اس کا گھر مسمار کردیا آپ سے اس کہیں کہ پُر امن رہو تو کیاآپ سمجھا سکتے ہیں اس کو یہ بات؟

ایکسپریس: کیاہمارے ہاں جہاد کے اصل تصور کو فراموش کیا گیا ہے؟درحقیقت جہاد کا اسلامی تصور کیا ہے ؟

شیخ جہانگیر: اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے خود اپنا دین نہیں پڑھا، تو اب غیرآپ کو آپ کا دین پڑھا رہے ہیں۔ اگر خود پڑھ لیتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔ آپ کا جو پڑھا لکھا طبقہ کہلاتا ہے وہ تو شاید اسے پڑھنے کو اچھا بھی نہیں سمجھتا۔ لفظ ''جہاد'' کے بڑے سادہ سے معنی ہیں۔ میں جہاد کی وہ تعریف کرنے جارہا ہوں جو شاید تمام مسالک میں مشترک ہے۔ لفظ جہاد قرآن مجید میں ایک سے زیادہ معنوں میں آیا ہے۔ اصل تصور ہے جدوجہد کا، ہر وہ چیز جو آپ اور آپ کے رب کے درمیان حائل ہے اس کے خلاف جدوجہد کرنا۔ وہ اندرونی بھی ہوگی، بیرونی بھی ہوگی، وہ خرچ کرنے سے بھی ہوگی خرچ روکنے سے بھی ہوگی اور ضرورت پڑنے پر ہاتھ میں اسلحہ بھی ہوگا۔

اس میں قتال الگ ہے،انفال فی سبیل اللہ الگ ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا ہم نے پڑھا نہیں ہے تو اب جو بھی ہمیں کہتا ہے یا ہم ادھر ادھر سے پوچھتے پھرتے ہیں جہاد کس نے کیا؟ بے بس اور لاچار قومیں جن پر مغربی طاقتیں مسلط ہوگئیں۔ فلسطین اور کشمیر بھی اس میں شامل ہیں۔ بوسنیا کے لوگ بھی تنگ آکر مجبوری میں نکلے۔ نہ ان کے پاس اسلحہ، نہ ان کے پاس فوج، نہ کوئی ٹریننگ، نہ ان کے پاس کوئی ڈائریکشن وہ بے چارے اپنے گھروں اپنی خواتین، ان کی عصمت کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے ہیں تو اس کو جہاد کہہ دیتے ہیں۔ جب بوسنیا میں Weapon emergo لگایا تو وہ لاگو مسلمانوں پر ہوا، بوسنیائی سربوں پر تو نہیں ہوا۔ حدیث میں آتا ہے کہ جس نے اپنے گھر کا دفاع کیا وہ بھی جہاد ہے۔ اگر کوئی اپنے گھر کا دفاع کرتے مارا گیا تو وہ بھی شہید کہلائے گا۔

ایکسپریس:ہمارے معاشرے میں لفظ مولوی کا تاثر غلط انداز میں لیا جاتا ہے۔ مولوی کی قابلیت پہ شک و شبہ کا اظہار کیاجاتا ہے، لفظ مولوی کے برے تاثر کی وجہ کیا ہے، اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

شیخ جہانگیر:اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے ذمہ دار خود مولوی حضرات ہیں تو میں اس کا جواب یہ دوں گا کہ اس تاثر کو ٹھیک نہ کرنے کے ذمہ دار تو مولوی ہوسکتے ہیں لیکن یہ تاثر بھی Social Reengineering کا حصہ ہے۔ جن ممالک میں 'جیسے پاکستان، مصر یا الجزائر' براہ راست دین کو گالی نہیں نکال سکتے وہاں دین داروں کو، دین کے شعار کو گالی دے کر اسے کمزور کیا جائے۔ میں بھی باہر جاتا ہوں، لوگ مجھے مولوی صاحب بلاتے ہیں لیکن مجھے عزت کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ میں سری لنکا کے ایئرپورٹ پر تھا کہ وہاں ایک گارڈ آیا جو ہندو تھا ، کہنے لگا کہ آپ ''استاذ'' ہیں؟ آپ وہاں بیٹھ جائیں۔ اُن سیٹوں پر سفید کپڑا لگا ہوا تھا۔ وہ کنے لگا ''آپ لوگ پاک صاف ہوتے ہیں عبادت کرنی ہوتی ہے تو یہ صاف سیٹوں پر بیٹھیں ان کا کپڑا ہم روز بدلتے ہیں۔

ایکسپریس:کیا کبھی محبت ہوئی؟ محبت کے بارے میں کیا نظریات ہیں آپ کے؟

شیخ جہانگیر:میرے نزدیک محبت کا تصور عام تصور سے الگ ہے۔ محبت جسے ہم Love کہتے ہیں یہ Verb ہے اسم نہیں ہے۔ محبت مجھے اب ہوگئی ہے کچھ عرصہ پہلے ہی مجھے سچی محبت ہوئی، اپنی بیوی سے۔ مجھے احساس ہوا کہ اس نے 24 چوبیس سال جو میرا ساتھ دیا تو میری ساری کامیابیوں میں اس کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ کتنی راتیں اس نے خاموشی سے گزار دیں۔ میرے بچوں نے میرا بڑا ساتھ دیا۔ بہت سی فرمائشیں نہیں کیں۔ جس زمانے میں بہت سفر کرتا تھا میرے دیر سے آنے پر تم نے شکوہ نہ کیا تو یہ میری محبت ہے۔ محبت کا ایک رومانوی سا افسانوی تصور جو فلموں نے دیا ہے اس نے ہم سے محبتیں چھین لیں۔

ایکسپریس:زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ۔

شیخ جہانگیر: ناقابل فراموش واقعات تو حقیقت میں بہت سارے ہیں لیکن میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ میرے دین کی طرف آنے کا سبب ہے۔ ایک بحث تھی دین دار شخص سے جب کہ میں اس وقت ایک دین دار شخص نہ تھا کیونکہ وہ دین دار تھا تو مجھ سے سبقت تھی اسے۔ اس بحث کے نتیجے میں میرا واپس آنا، قرآن مجید کو کھولنا، اسے پڑھنا اور اسے پڑھ کر میرا سینہ روشن ہوجانا اور جو زندگی بھر کی تشنگی و اضطراب دور ہوجانا اور اصل سفر اور زندگی کی شروعات ہونا وہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے اور قابل قدر واقعہ ہے۔ وہ جگہ اور وہ دن یاد ہے مجھے، نوجوانی تھی اور اس بحث کے دوران ہونے والے سوالات کے جوابوں کی خاطر میں نے قرآن کو کھولا اور اس کے بعد جیسے اللہ نے محبت سے اپنی آغوش میں لے لیا کہ اب تم ادھر ہی آجاؤ۔

ایکسپریس:مذہبی طرز زندگی اپنانے والوں کو دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے، برقعہ اور داڑھی کے حوالے سے جو منفی تاثرات موجود ہیں آپ بطور موٹیویشنل اسپیکر ان کو زائل کرنے کے لئے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں؟

شیخ جہانگیر:اگر کوئی شخص داڑھی یا برقعے کے بارے میں منفی تاثر رکھتا ہے تو یہ اس کا حق ہے وہ رکھے۔ ہم اس کو مجبور تو نہیں کرسکتے کہ وہ اس کو تبدیل کرے۔ میں نے اس کا اپنی ذاتی حیثیت میں جو حل سوچا کوشش کرتا ہوں کہ خود اس پر عمل پیرا ہوں اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہتا ہوں کہ اس پر عمل کریں وہ یہ کہ آپ اخلاقیات کے اس اعلیٰ درجے پر اپنے آپ کو فائز کریں کہ یہ تصور بدلے اور اس کے لیے آپ Out of the Way بھی جائیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ باہر نکلتے ہیں۔ سڑکوں پر بازاروں میں اور آپ کا حلیہ وہ ہے جسے لوگ اسلامی سمجھتے ہیں تو آپ اپنے اخلاق کا زیادہ خیال کریں کیونکہ آپ اس پورے طبقے کی نمائندگی کررہے ہیں جس کے بارے میں بعض لوگوں میں منفی تاثر پھیلایا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد میں پارکنگ پر کھڑے تھے تو میرے ڈرائیور نے وہاں گاڑی پارک کردی، ساتھ ہی ایک اور صاحب کافی دیر سے انتظار کررہے تھے میں نے اسے روکا اور خود دوسری گاڑی والوں کے پاس گیا میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ آپ پہلے سے انتظار کررہے تھے تو پہلے آپ گاڑی پارک کیجئے۔ میرا ڈرائیور پارکنگ خالی کرے گا اور آپ گاڑی کھڑی کریں گے۔ وہ شاک میں چلاگیا۔ تو وہ کہنے لگا مجھے آپ کا نمبر مل سکتا ہے؟ میں میں نے کہا لیجئے۔ وہ کہنے لگے کبھی ایسا دیکھا نہیں۔

ینگ علماء لیڈر شپ پراجیکٹ نوجوان علماء کی کردار سازی کا سنگ میل ہے
میری ذات سے مخالفت رکھنے والے بھی اس سے مخالفت نہیں رکھتے

علماء کا جو معاشرتی رتبہ ہوا کرتا تھا وہ اب نہیں رہا۔ سرکاری پروٹوکولز میں درجا بندی میں سب سے نیچے مولوی صاحب کا لفظ آتا ہے تو ہم نے کہا اس کی وجہ کیا ہے؟ اب وجوہات تو بہت ساری ہیں ان میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مدارس کے نصاب میں انگریز کے بعد آنے والی تبدیلیوں نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یوں پیش کرتا ہوں کہ پہلے علماء کو اُس زمانے کے سارے جدید علوم پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن انگریز کے آنے کے بعد انہیں نصاب سے الگ کردیا گیا۔ ہمیں علم دین تو تفویض ہوگئے۔

مگر اب وہ پہلے والا مقام نہیں ،آج برصغیر میں جو مسلمان ہیں وہ انہی کی مرہون منت ہیں۔ اور اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں۔ اُس مقام کو دوبارہ پانے کے لیے جدید علماء کو ان علوم اور صلاحیت سے لیس کرنا پڑے گا تاکہ وہ جدید معاملات کا سامنا کرسکیں۔ دیکھیں!ً اب ایمانی معاملات بھی جدید ہوگئے ہیں۔ اب ایمان پر حملے اور طرح سے ہوتے ہیں۔ جدید ہوتے ہیں اور جدید زبانوں میں ہوتے ہیں تو پھر ہمارا طریقہ کار بھی جدید ہونا چاہیے۔ ہمارے بزرگوں نے ہندوستان میں ہمیشہ حالات کو معاشرے کو اور معاملات کو اور مشکلات کو دیکھ کر اپنے آپ کو آراستہ کیا اور اپنی جگہ کو قائم رکھا اور میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ہم نے اسی راستے پر چلنا ہے جس پر ہمارے بزرگ چلے، وہی راستہ جو پیچھے جاکر امنبیاء سے ملتا ہے اور آپﷺ سے ملتا ہے۔ اس راستے پر چلنا ہے، کھڑے نہیں رہنا۔ بڑا فرق ہے کھڑے رہنے اور چلنے میں۔ موٹر وے پر اگر کھڑے رہیں تو کبھی اسلام آباد نہیں پہنچ پائیں گے، چلنا شرط ہے چاہے پیدل ہوں، سائیکل پر، چاہے گاڑی یا بس پر۔ بزرگوں نے ضرورت محسوس کی اور ہمیشہ مشعل راہ دکھائی۔

جب یہ پروگرام شروع کیا تھا تو میرا کیا ہم سب کا یہ خیال تھا کہ ہماری عمر بھر کی کمائی یہ ہوگی کہ ہم اس دیوار کے ساتھ سر ٹکراتے ٹکراتے مرجائیں گے۔ لیکن ہمارا خیال آٹھ دس سال ایسے ہی چلتا رہا اس کے بعد ایک دم سے ماحول میں کچھ تبدیلی آئی۔ شاید ہمارا کوئی تکا چل گیا ہوگا۔ عام سا آدمی ہوں بس اللہ کی جانب سے ماحول میں تبدیلی آئی اور لوگوں نے اس کو قبول کرنا شروع کردیا اور اس میں بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہمارے علماء نے مختلف ممالک کے سفر کیے۔ سفر سے اک دنیا کُھلتی ہے۔ پھر خاصی طور پر 9/11 کے بعد ہر مسلمان پر جو پریشر بڑھا دنیا کے ہر ملک میں اس سے بھی ذہن کھلا، تو جہاں تک کامیابی کی بات ہے، تصور سے کہیں بڑھ کر کامیابی ملی۔

اب تو اس کے مخالف جوکہ شاید میری ذات سے مخالفت رکھتے ہوں وہ بھی اس سے مخالفت نہیں رکھتے۔ہمارے ادارے کے قیام کو سولہ برس بیت چکے ہیں۔ اس سے قبل ہم اور اداروں کے ساتھ کام کرتے تھے وہ زیادہ انتظامی نوعیت کا نہ تھا اور کتابوں کے حوالے سے اندازہ یوں لگا لیجئے کہ ہماری کتابوں کے ایک لاکھ (100,000) آن لائن ڈاؤن لوڈز ہیں۔ دوسرا یہ کہ لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ پیسے لیا کرو ورنہ لوگ قدر نہیں کریں گے۔ ہم نے کبھی پیسے نہیں لیے جس نے قدر کرنی تھی اس نے کرلی جس نے نہیں کرنی وہ پیسے دے کر بھی نہیں کرتے۔ قدر دان یا جس کو بھوک لگی ہوتی ہے وہ کوڑے سے اٹھا کر بھی آدھا سیب کھا لیتا ہے اور جس کو قدر نہیں کرنا ہوتی وہ قیمتی برگر اٹھا کر کوڑے میں پھینک دیتا ہے۔

بے قدری مزاج کا نام ہے اس کا نوٹوں کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا۔ 10,000 دس ہزار ٹرینگز صرف میری ہیں اس کے علاوہ ہماری پوری ٹیم ہے اور اس میں بہت سے لوگ ہیں اور اس کی ٹریننگ لارنس کالج گھوڑا گلی سے لے کر اُن اسکولوں تک ہے جن کی ایک دیوار پر گوبر لگا ہوتا ہے۔ ان تمام اداروں میں یکساں ٹریننگ اس لیے دی جاتی ہے کیونکہ ہم پیسے نہیں لیتے۔ ہمارا سٹاف فرق نہیں کرے گا کیونکہ جہاں سے کچھ ملنا ہی نہیں وہاں تفریق کیسی۔ ہم جو سالانہ پروگرام کرتے ہیں 100 علماء کو لے کر جاتے ہیں۔ 15 دن کی ٹریننگ کرواتے ہیں بھوربن میں جاکر۔ کاش ان نوجوان لڑکوں کی تصویریں کھینچ سکتے کہ پہلے شکل کیسی تھی اور ٹریننگ کے بعد کیسی ہوگئی۔

جب تاثر بدلتا ہے تو شکلیں ہی بدل جاتی ہیں۔ تاثر کیسے بدلتا ہے یہ بھی سن لیں۔ ایک دوسرے کی قدر کرنا، اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا، ایک دوسرے کی بات سننے کی عادت ڈالنے سے اور جو باہمی گفتگو کرنی وہ بھی عزت و محبت سے اور حق کا بیان بھی احترام سے کرنا ہے۔ اگر حق بول رہے ہیں تو چیخنے چنگھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ شعلہ بیانی یہ نہیں ہوتی کہ منہ سے شعلے نکل رہے ہوں۔ بلکہ دلوں میں ایمان کا شعلہ بھڑکتا ہے۔ یہ ہے شعلہ بیانی۔ اس ادارے کی کتابیں اور ٹریننگز اپنی جگہ لیکن سب سے جو اہم Achievement ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ہے۔ ہم نے تصور بدلدیا ہے۔

Perspective ہی تبدیل کردیا ہے کیونکہ جب ذہن بدل جاتا ہے تو باقی سب بھی بدل جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے 32 ممالک میں ہماری رسائی ہے۔ کیلیفورنیا سے ساؤتھ امریکہ تک۔

فلموں سے دلچسپی کبھی نہیں رہی

مجھے یہ سب فیک (Fake) سا لگتا تھا۔ ایک سکرین ہے ایک شیشہ ہے اس میں جو کچھ ہورہا ہے وہ Real نہیں ہے اور بچپن میں یہ بات بہت عجیب لگتی تھی کہ لوگ کسی کی نقلی غمی کو دیکھ کر روتے بھی ہیں۔ اس کام پر لوگ مجھ پر لعن طعن بھی کرتے کہ تم ہنس رہے ہو۔ میں کہتا کہ عجیب طریقے سے یہ آدمی رو رہا ہے۔ ابھی سکرین بند ہوگی اور یہ ہنس رہا ہوگا کہ لوگوں کو میں نے خوب رُلا دیا ہے۔ فیک ہونے کی وجہ سے کبھی بھی فلم سے دلچسپی نہیں رہی البتہ کتابوں سے میرا گہرا تعلق رہا۔ کتاب پڑھے بنا نہیں سو سکتا۔ جیسے نشہ ہوتا ہے کسی چیز کا کہ رات کوئی سگریٹ پیتا ہے تو مجھے یہ ہوتا ہے کہ کتاب مجھے مل جائے۔ بچپن میں بہت فکشن پڑھی۔ بچپن کا آل ٹائم فیورٹ 'شرلک ہومز' ہے۔ سکواش کھیلا کرتا تھا۔

لوگ پوچھتے ہیں کون جنتی ہے کون جہنمی؟

نوجوانی میں مرزا غالب اور احمد فراز سے متاثر رہا اور پھر تھوڑا انقلابی ذہن ہے تو فیض احمد فیض کی جو انقلابی شاعری ہے اسے پڑھا۔ فیض کی براہ راست فکر سے تو اتفاق نہیں کرتا لیکن اس بات کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہر شخص میں جو خیر ہوئی ہے اسے حاصل کرلینا چاہیے۔ اور ذاتیات پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ فلاں شخص کی ذاتی زندگی ایسی تھی یا ویسی ہوگی مگر اس کا جواب میں نے نہیں دینا۔ دوست پوچھتے ہیں فلاں شخص جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔ یہاں تک کہ جناح صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ جنت میں جائیں گے یا نہیں۔ نیلسن منڈیا نے بڑا کام کیا، کیا وہ جنتی ہوگا؟تو میرا جواب عموماً تمسخر بھرا ہوتا ہے ''بھئی تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ وہ جائے یا نہ جائے تمہارا اس سے کیا مطلب۔ مجھے اس شخص کی تلاش ہے جو اپنے بارے میں پوچھے میں اپنے اعمال کی بنا پر جنتی ہوں یا جہنمی ہوں؟ یہ کوئی نہیں پوچھتا۔

مغربی ممالک کے بیانیے کا ٹکرائو مذہب کے ساتھ نہیں، اقدار کے ساتھ ہے
ویسٹ کی Debate کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب ایک Consumer Culture ہے۔ وہ معاشرے میں کنزیومرازم کو پرستش کے درجے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ کیوں لے کر جانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ تمام مذاہب میں ایک چیز تو مشترک ہوگی۔ مذہب اصرار کرتا ہے کہ اقدار جو کروڑوں سالوں سے چل رہی ہیں ان کی پیروی ہو۔ مغرب والے ان اقدار کو توڑنا چاہتے ہیں۔

اس لیے بنیادی حملہ مرد اور عورت کے تعلق پر ہوتا ہے کہ اس پر کوئی قدغن نہ ہو، کیونکہ معاشرے کی بنیادی اینٹ ہی شادی ہے۔ شادیوں سے خاندان ہے اور خاندان سے معاشرہ ملک و ملت اور اُمت ہے۔ اب اگر وہ اینٹ ہی ٹوٹ گئی تو؟ اس کوکہتے ہیں Social Reengineering۔ آپ کو لگتا ہے کہ ان کومسئلہ اسلام سے ہے لیکن درحقیقت ان کو مذہب سے مسئلہ ہے۔ وہ سالوں سے اس Social Reenginering پر کام کررہے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت سے کہا جائے تم ذلیل ہو رہی ہو۔ تم کھانے گرم کرتی ہو، لعنت ہے تم پر تم ایک گھٹیا عورت ہو۔ اگر یہی کام آدمی کریں تو کیا وہ گھٹیا نہیں ہوں گے؟ وہ مرد اور عورت کے اس تعلق کو توڑنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں جہاں سب روپے کے، Creditcard کے غلام ہوں۔ اصل میں جھگڑا ہے Consumerism کا اور ان اقدار کا جس کے باعث وہ تمام مذاہب سے خار کھاتے ہیں۔ اسلام بڑا مذہب ہے اور اس سے سب کی وابستگی بھی مضبوط ہے۔ عیسائیوں کی حالت اب کمزور ہے۔

انہیں وہ پہلے ہی توڑ کر الگ کرچکے ہیں۔ بظاہر ان کی جنگ اسلام سے نظر آتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال میں یوں دینا چاہوں گا کہ اسلام کہتا ہے پانی سے ہاتھ دھونے ہیں، چلو اگر صابن ہو تو اچھی بات ہے، پانی نہیں ہے تو پتوں سے صاف کرلو وہ بھی نہیں تو مٹی سے صاف کر لو۔ لیکن دوسری جانب وہ کہتے ہیں یہ آپ کا عام صابن ہے، یہ ہینڈ واش ہے، یہ فیس واش ہے، بالوں کا الگ ہے، گنجوں کا الگ ہے، پیروں کا سوپ الگ ہے ۔ تو قرآن میں کہا گیا کہ''اَلْھَکُمُ التَّکَاثُرْ حَتّٰی زُرْتُمْ الْمَکَابِرَo'' یعنی ''تمہیں دنیا کے مال کی کثرت گھاٹے میں لے جائے گی'' تو وہ آپ کو اور سے اور کی جانب لے جا رہے ہیں۔ کاروبار کیسے چلیں گے ان کے، آپ محسوس کریں گے کہ اگر فون ایک سال پرانا ہوگیا ہے تو لوگ ترحم بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ میں فون خریدتا ہی ایک سال پرانا ہوں، تب تک اس کے پرائس بھی نیچے آچکے ہوتے ہیں تو یہ دیکھ کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ''شیخ صاحب اتنا پرانا موبائل۔ ایک سال پُرانے موبائل کے ساتھ آپ زندہ کیسے ہیں؟''
ویسٹرن میڈیا تو ویسٹرن کارپوریشنز کی پروپیگنڈامشن ہے
ویسٹرن میڈیا نے تو وہی کہتا ہے جو ان ممالک کو سپورٹ کرتا ہے۔ انھیں کیا لینا دینا ہے آپ سے، یا آپ کے مسائل سے یا ضرورتوں سے۔ یہ کام تو مسلمانوں کے میڈیا کا ہے کہ اصل تصویر دیکھیں۔ جب وہ اپنے ممالک دکھاتے ہیں تو آپ کو وہ کروڑوں لوگ نہیں دکھائے جاتے جو بے گھر ہیں اور فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور کوڑے سے کھاتے ہیں۔

وہ آپ کے وہ ادارے نہیں دکھاتے جہاں لنگر سینکڑوں سالوں سے چل رہا ہے۔اصل ذمہ داری تو ہمارے میڈیا کی ہے کہ وہ یہ بھی دکھائے کہ ہمارے ہاں غریب سے غریب آدمی بھی صدقہ کرتا ہے۔ مغرب والے تو اپنے ماں باپ پر خرچ نہیں کرتے۔ یہ بات آپ کو کوئی بتائے گا نہیں۔ ان کی دفعہ دکھائیں گے Manhattan, Dawnton۔ کیفلیفورنیا کے مہنگے مہنگے محلے۔ اور ہماری دفعہ مصری شاہ دکھائیں گے کہ یہ پاکستان دیکھو کہ چھوٹی چھوٹی سڑکیں ہیں، ہمارا اصل حصہ تو دکھائیں گے نہیں۔ وہ ان چھوٹی گلیوں کے حوالے سے یہ نہیں دکھائیں گے کہ کون سارا دن نوکری کرنے کے بعد اپنی ماں کو اُٹھا کر رات کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے، پوری رات اُس کے سرہانے جاگتا ہے اور صبح پھر کام پر نکل جاتا ہے۔

یہ سٹوریز میڈیا کیوں نہیں دکھاتا؟ صرف یہ یہی کیوں دکھاتا ہے کہ فلاں نے ماں کو گھر سے نکال دیا۔ فلاں کا باپ بیمار تھا۔ فلاں بچے کے ساتھ یہ ہوگیا، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مسائل موجود ہیں لیکن صرف Negativity کو دکھانا اپنا منصب بنا لیا گیا ہے تو کیا کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں