جاپان اورجرمنی سے سبق سیکھا جائے
ہم 73 سال سے مسلسل بحرانوں کا شکار ہیں۔ اس دوران ہم کئی جنگیں لڑ نے کے علاوہ اور اپنے ملک کو دو لخت کرچکے ہیں۔
ان دنوں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا خوف میں مبتلاہے ، جس سے عالمی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ دنیا پہلے ہی کساد بازاری کا شکار تھی ، اس بحران سے اس میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔
عالمی سطح پر جو معاشی بحران پیدا ہوا ہے، اس کا سب بڑا مظہر تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ہیں، پچھلے دنوں تیل کی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ آئی ہے جو ایک اچھا شگون ہرگز نہیں ہے۔ تیل اور اس سے وابستہ صنعتوں میں ہر سال کھربوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے، تیل کی کھپت اور قیمت میں کمی کا براہ راست اثر ان بینکوں، انشورنس کمپنیوں، مالیاتی اداروں، جہاز راں کمپنیوں پر پڑے گا جن کے کاروبار تیل کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے جب کہ تصویرکا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بہت سے ایسے پس ماندہ اور ترقی پذیر ملک جو معاشی بحران میں مبتلا ہیں وہ تیل کی قیمتوں میں ہونے والی اس کمی سے بہت خوش نظر آتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی کچھ اسی طرح کا ماحول پایا جاتا ہے۔ حکومت خوش ہے کہ تیل کی قیمت میں کمی سے اسے تیل کی درآمد پرکم زر مبادلہ خرچ کرنا پڑے گا ۔ اسے یہ بھی خوشی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارہ بھی کم ہوجائے گا جس سے افراط زر اور مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
یہ درست ہے کہ حکومت کو وقتی فائدہ ضرور پہنچے گا لیکن اس کا اصل فائدہ اس وقت ہوگا جب تیل کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ عام صارفین اور معیشت کو منتقل کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے معاشی جمود ٹوٹے گا لیکن اگر حکومت نے سارا فائدہ خود اٹھانے کی کوشش کی تو اس کی اپنی معیشت تو شاید کچھ دنوں کے لیے بہتر ہوجائے لیکن ملک کی معیشت کوکوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ بدستور بحران میں رہے گی۔
دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں دنیا ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہوئی تھی۔ اس جنگ نے جاپان اور جرمنی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا لیکن ان ملکوں نے تباہ ہونے کے بعد جس دانش کا مظاہرہ کیا اس میں ہم جیسے ملکوں کے لیے بڑے سبق پوشیدہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے جس تیزی سے ترقی کی دنیا اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خود کو عالمی معاشی طاقت بنا لیا جنگ عظیم سے پہلے بھی جاپان بہت ترقی یافتہ تھا۔ اس نے بھی 20 ویں صدی کے کئی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح اپنی معاشی ترقی کا فائدہ اٹھا کر خود کو ایک بڑی فوجی طاقت بنایا اور ایشیا کے کئی ملکوں کو اپنی نو آبادی بنا لیا۔ سامراجی ملکوں نے منڈیوں پر قبضے کے لیے آپس میں خوب جنگیں لڑیں جس کا انجام و اختتام دوسری جنگ عظیم کی صورت میں سامنے آیا۔
جنگ میں شکست کے بعد جاپان شاید اتنی تیزی سے خود کو تبدیل نہ کر پاتا اگر ایک معاہدے کے بعد اسے اپنی فوج کو ختم کرنے پر مجبور نہ کردیا جاتا۔ جنگ میں شکست اور بظاہر ذلت آمیز شرائط پر ہتھیار ڈالنے کی وجہ نے تباہ شدہ جاپان کو از سر نو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم کیا۔ جاپان کے لاکھوں ہنر مند کارکنوں کو پیدواری صنعتوں میں استعمال کیا جانے لگا اور بینکوں اور سرمایہ کاروں نے جنگی سازوسامان کے بجائے صارفین کے لیے اشیا تیار کرنے والی صنعتوں میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔
جاپان کے پاس بنیادی ڈھانچہ اور ہنر مند افرادی قوت پہلے سے موجود تھی، پہلے اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تو اسے شرم ناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا لیکن مجبوراً ہی سہی جب اس نے اپنے مالی اور انسانی وسائل کو تعمیری اور پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کیا تو چند دہائیوں کے اندر وہ ایک عالمی معاشی قوت بن گیا۔
جاپان اور جرمنی دونوںکو شکست کے بعد فوجی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ان دونوں ملکوں نے ان پابندیوں کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ جاپان نے جنگ عظیم کے بعد وقت ضایع کیے بغیر خود کو نئے حالات میں ڈھالنا شروع کردیا۔ جو افراد جاپان میں جنگی خدمات سر انجام دے رہے تھے انھوں نے کاروبارکرنا شروع کردیے۔ سونی کی مصنوعات دنیا میں بہت مقبول ہیں۔
اس کمپنی کو قائم کرنے والے دو افراد وہ تھے جو دوران جنگ جاپان کی بحریہ میں انجینئر تھے۔ جس امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے ، اسی جاپان نے نام نہاد قومی غیرت کا مسئلہ بنائے بغیر امریکی امداد کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی جنگی معیشت کو منافع بخش پیداواری معیشت میں بدل دیا اور چند دہائیوں کے اندر امریکا کے مد مقابل آگیا۔ جب کوریا کی جنگ ہوئی تو امریکا نے جاپان کو ایک فوجی اڈے کے طور پر استعمال کیا اور رسد کی فراہمی کے لیے جاپانی کمپنیوں کو تین ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم ادا کی تھی۔
جاپان کی دانش دیکھیے کہ اس نے امریکا کے جنگی عزائم کو نظر اندازکرتے ہوئے امریکی ٹیکنالوجی اور اس کے پیشہ ورماہرین کے ساتھ مل کر مٹسوئی اور مٹشوبشی جیسے بڑے برانڈ متعارف کرائے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کھنڈر بن چکا تھا اور لوگ پسماندگی کی گہرائیوں میں ڈوب چکے تھے لیکن انھوں نے اپنی دانش ، حکمت ، صبر اور لچکدار رویوں سے یہ کرشمہ کردکھایا کہ صرف 1950-51کے ایک سال کے دوران ، جاپان کے مینو فیکچرنگ سیکٹرکی پیداوار میں 50% اضافہ ہوگیا اور اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس دوران لوگوں نے اپنا وہی معیار زندگی دوبارہ حاصل کرلیا جو جنگ عظیم سے پہلے تھا۔
اب ایک جائزہ جرمنی کا لیا جائے، وہ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر ملبے کا ڈھیر نظر آتا تھا۔ اتحادی افواج کے حملوں اور بمباریوں سے اس ملک کے کئی بڑے شہر جن میں ڈریسڈن بھی شامل تھا مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔ اس وقت یوں لگتا تھا کہ جیسے اب جرمنی دوبارہ کبھی اپنے پیروں پرکھڑا نہیں ہوسکے گا۔ جنگ ختم ہوئی تو اس کے گھروں کی تعداد صرف 20 فیصد رہ گئی تھی ، غذائی پیداوار 50% کم ہوچکی تھی اور 18 سے 35 کی عمرکے لوگوں کی غالب تعداد یا تو جنگ میں ماری گئی تھی یا پھر معذور ہوچکی تھی۔ جرمنی پر چار ملکوں کا قبضہ تھا اور وہ دو حصوں میں تقسیم بھی کر دیا گیا تھا۔
جرمنی نے بھی معاشی کرشمہ کردکھایا۔ 1948میں نئی کرنسی جاری کی گئی جس سے جنگ کے دوران کمائے گئے کالے دھن کا صفایا ہوگیا۔ جنگ کے اختتام پر صنعتی پیداوار 1936 کے مقابلے میں آدھی رہ گئی تھی وہ محض ایک سال کے اندر 80 فیصد کی سطح تک پہنچ گئی۔ امریکا جنگ کے دور میں جرمنی کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے مارشل پلان کے تحت جرمنی کی مدد کی جس سے اس ملک نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امریکا نے اس وقت مارشل پلان کے ذریعے جرمنی کو 15 ارب ڈالر (جو آج کے 173 ارب ڈالر کے برابر ہیں) تعمیر نو اور معیشت کی بحالی کے لیے دیے۔ جرمنی نے اس مالی مدد کے ذریعے خود کو دوبارہ بحال کر لیا اور صرف 10 برسوں میں اپنی صنعتی پیدوار میں چارگنا اضافہ کرلیا۔
قصہ مختصر یہ کہ جاپان کی طرح جرمنی نے بھی جنگ کی ہولناک تباہی کے بعد یہ سبق سیکھا کہ معاشی معجزے وہی قومیں کر دکھاتی ہیں جو خود کو ماضی کا قیدی بنا کر نہیں رکھتیں، جو کسی کو اپنا دائمی اور ازلی دشمن قرار نہیں دیتیں، وہ بدلے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو تبدیل کر لیتی ہیں، اپنے مالی اور انسانی وسائل کو پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، وہ جمہوری نظام پر یقین رکھتی ہیں ، اپنے شہریوں کو بلا تفریق مساوی حقوق کی فراہمی یقینی بناتی ہیں ۔
ہم 73 سال سے مسلسل بحرانوں کا شکار ہیں۔ اس دوران ہم کئی جنگیں لڑ نے کے علاوہ اور اپنے ملک کو دو لخت کرچکے ہیں۔ ہم نے اپنے شہریوں کو حقیقی جمہوری حقوق اور آزادی سے محروم رکھا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تیل کی قیمتیں کم ہونے پر خوشیاں منانے کے بجائے ہم جاپان اور جرمنی کی طرح سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں اور وہی کچھ کریں جو انھوں نے کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد وہ دنیا کے سب سے تباہ حال ملک تھے، اس وقت ہم ان سے کافی بہتر تھے۔
آج وہ کہاں اور ہم کہاں ہیں؟ کوئی موازنہ ہے؟ سوچنا تو چاہیے۔