بے ہنگم ہاؤسنگ سوسائٹیاں زرعی زمینوں کو نگل رہی ہیں

کنسٹرکشن کمپنیاں اور ڈیولپرز زرعی رقبوں کے مالکان کو ورغلاتے ہیں اور انہیں لالچ دے کر ان سے زمین خرید لیتے ہیں


ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فیشن نے زرعی زمینوں کا خاتمہ شروع کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

زراعت کسی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی زراعت ملکی معیشت کےلیے ایسے ہی ہے جیسے انسان کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی۔ اگر ریڑھ کی ہڈی کو ذرا سی چوٹ پہنچ جائے تو انسان اٹھنے بیٹھنے بلکہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسے ہی جب ملک میں زراعت کا شعبہ کمزور پڑتا ہے تو ملکی معیشت کو خسارہ ہوتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کی معیشت میں زراعت کا کردار نہایت اہم ہے۔ ملکی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہی ہے۔ پاکستان کے 45 فیصد لوگوں کا براہ راست روزگار کا ذریعہ زراعت ہے، اس کے علاوہ ملکی برآمدات میں 60 فیصد بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کا حصہ ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک اس شعبے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں زراعت کا شعبہ پہلے ہی مشکلات کا شکار تھا، اب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فیشن نے زرعی زمینوں کا خاتمہ شروع کردیا ہے۔ تمام بڑے شہروں کے گرد و نواح میں زرعی زمینوں کے خاتمے کےلیے بہت زیادہ محنت جاری ہے۔ شہر سے باہر نکلیں تو چاروں طرف بڑی بڑی مشینیں لہلہاتے کھیتوں کو صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ کنسٹرکشن کمپنیاں اور ڈیولپرز زرعی رقبوں کے مالکان کو ورغلاتے ہیں اور انہیں بڑے لالچ دے کر ان سے زمین خرید لیتے ہیں یا ان کی زمین پر کام کرکے منافع میں انہیں شریک کرلیتے ہیں۔ زرعی زمینوں کے مالکان بھی لالچ میں آکر ایک ہی بار سونے کے تمام انڈے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ ایک شخص کے پاس مرغی تھی جو ہر روز سونے کا انڈا دیتی تھی۔ ایک دن اس نے سوچا کہ میں کیوں نہ مرغی کو ذبح کرکے اس کا پیٹ چاک کردوں اور ایک ہی بار سارے انڈے نکال لوں۔ لیکن جب اس نے مرغی کا پیٹ چیرا تو کوئی انڈا نہ ملا اور جو روز ایک انڈا حاصل کرتا تھا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

یہی حال یہاں بھی ہے کہ لوگ اپنے کھیتوں سے ہر سال تھوڑی تھوڑی آمدن کے بجائے ایک ہی مرتبہ زیادہ منافع حاصل کرنے کی خواہش میں اپنی زمینیں فروخت کر دیتے ہیں یا ڈیولپمنٹ کمپنیوں کے ساتھ مل کر کھیتوں کو صاف کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کردیتے ہیں۔ یوں وہ کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے سائٹ آفسز بنا کر وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پلاٹوں کی فائلیں بیچتے رہتے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ان فائلوں کے ذریعے لوگوں کو کیسے دھوکا دیا جاتا ہے؟ کم پلاٹوں پر زیادہ فائلیں کیسے فروخت کی جاتی ہیں؟ لوگوں سے رقم وصول کرنے کے بعد کئی سال تک انہیں پلاٹ فراہم نہیں کیے جاتے اور کھڑی فصلوں والی زمینوں پر پلاٹوں کی نشاندہی کے بغیر ہی فائلیں فروخت کردی جاتی ہیں۔ اس کے بعد لوگ لاکھوں روپے لٹا کر سالہاسال ترقیاتی کام شروع ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران سوسائٹی کے غیر قانونی ہونے، این او سی نہ ملنے یا منسوخ ہوجانے کی افواہیں بھی انہیں پریشان کرتی رہتی ہیں۔

ہمارے ہاں زرعی زمینوں کا اتنی بے دردی سے خاتمہ کیا جارہا ہے کہ شہروں کے اطراف میں روزانہ ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی متعارف کرائی جارہی ہے اور ان سوسائٹیوں کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہے کہ ایک شہر دوسرے شہر کے ساتھ مل گیا ہے۔ ان شہروں کے درمیان موجود ہرے بھرے کھیت کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہورہے ہیں۔ جو ملکی معیشت کےلیے شدید نقصان دہ ثابت ہونے کے ساتھ انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی توجہ اس جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخبارات اور ٹیلی وژن پر ہر روز نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں، جن میں سے اکثر غیر قانونی ہوتی ہیں۔ جبکہ انتظامیہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی خواب غفلت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ ان غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ یوں یہ غیر قانونی سوسائٹیاں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلتی جارہی ہیں۔ مستقبل میں ان کے مضر اثرات سے معاشرہ بری طرح متاثر ہوگا۔

ہمارے ملک میں زراعت کے شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ یہاں کسانوں کو سہولیات نہیں ملتیں۔ کسانوں کے مسائل کی طرف حکومت کی توجہ نہیں۔ کھاد، مشینری، کیڑے مارنے والی ادویات اور بجلی مہنگی ملتی ہے۔ کسان پورا سال محنت کرکے فصل تیار کرتے ہیں لیکن جب انہیں صلہ ملنے کا وقت آتا ہے تو انہیں پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا اور وہ فیکٹری مالکان اور سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے لگاتے تھک جاتے ہیں۔ ان پریشانیوں کے ستائے ہوئے کسان زرعی زمین کو ہاؤسنگ سوسائٹی کےلیے استعمال کرنے والوں کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں اور جلد ہی ان کی باتوں میں آکر اپنی زمینیں فروخت کردیتے ہیں تاکہ انہیں کم محنت میں زیادہ منافع حاصل ہو۔ جب زمیندار حضرات اپنی محنت کا پورا پورا صلہ ملتا ہوا دیکھیں گے تو وہ اپنی زرخیز زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کرکے زرعی رقبہ برباد کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔ اگر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کی ضرورت بھی ہو تو اس کےلیے بنجر اور ناہموار زمینوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو قابل کاشت نہ ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں