پاکستان سمیت دنیا بھر میں نئی ہلچل

تقریبا گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا میں اتنی بڑی ہلچل کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی


Zuber Rehman March 17, 2020
[email protected]

HOCKENHEIM: تقریبا گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا میں اتنی بڑی ہلچل کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی ، جو 2018 سے 2020 میں ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں چونکہ ریاستی اداروں کے ذریعے عوام کو معاشی فائدہ نہیں دے سکیں اس لیے اکثر بڑے بڑے ملکوں میں انتہائی دایاں بازو عوام پرمسلط ہوگیا۔

یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں نے حالیہ انتخابات میں خطرناک حد تک عوام کی حمایت حاصل کی ہیں۔ ہنگری میں اڑھ سٹھ فیصد ، پولینڈ میں تینتالیس فیصد ، فرانس میں چونتیس فیصد، آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ میں چھبیس فیصد ، ڈنمارک میں اکیس فیصد، بیلجمم میں بیس فیصد، ایسٹونیا، فن لینڈ اور سویڈن میں اٹھارہ فیصد، اٹلی میں سترہ فیصد اور اسپین میں پندرہ فیصد۔ اسی آندھی کی لپیٹ میں ٹرمپ، بوریس، پوٹین، مودی، میکرون اور شی عوام پر مسلط ہوگئے ہیں۔

ان کے اقتدار پر مسلط ہونے سے عالمی معاشی حالات کی بدتری شروع ہوئی ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی یہ پیداوار ہیں۔ اس وقت امریکا کے جی ڈی پی کی شرح نمو دو عشاریہ ایک فیصد، کینیڈا کی ایک عشاریہ آٹھ فیصد ، جاپان کی ایک عشاریہ تین فیصد، یورپ کی ایک عشاریہ دو فیصد، برطانیہ کی ایک فیصد جب کہ برازیل، روس اور جنوبی افریقہ کی ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی سات فیصد سے گھٹ کر چار عشاریہ تین فیصد اور چین کی گیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پر آگئی ہے۔

معاشی بحران کے باعث ان ملکوں میںافراط زر ہونے سے مہنگائی اور بے روزگاری میں شدت آئی ہے۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر سڑکوں پہ نکل آئے ہیں۔ عوام کا یہ بڑھتا ہواسیلاب جنوبی امریکا سے یورپ اور مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا اور مشرق بعید تک جا پہنچا ہے۔ مہنگائی بے روزگاری، بھوک، افلاس، کرپشن اور ناانصافی کی وجہ سے جنوبی امریکا کے ملک چلی میں دس لاکھ، فرانس میں ڈیڑھ سال سے لگ بھگ ایک کروڑ، لبنان میں تیرہ لاکھ، ہندوستان میں پچیس کروڑ افراد کی ہڑتال اور ہانگ کانگ میں تقریبا ایک سال میں تیس لاکھ افراد سڑکوں پہ نکلے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے یہ ایک ایسا زلزلہ ہے کہ ہر ملک اپنے آس پاس کے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

برازیل کی ہڑتال نے چلی، اورے گوئے، کولمبیا، ایکواڈورکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک نے اسپین، یونان اور آسٹریا سمیت پورے یورپ کے سرمایہ داروں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ لبنان کے عوام کی احتجاج نے ایران اور عراق کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ہندوستان میں پچیس کروڑ افراد کی ہڑتال نے تاریخ رقم کر دی۔ ادھر ہانگ کانگ کو چین کی مطلق کمیونسٹ پارٹی بھی نہ دبا سکی۔ اس عالمی ہلچل کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ معاشی بحران دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں آیا ہے۔ مہنگائی سے عوام چیخ اٹھے ہیں۔ مزدور طلبہ، کسان، خواتین، استحصال زدہ گروہ اور نسلیں بلک اٹھی ہیں۔

مہنگائی نے عوام کا خصوصا مزدور اور کسانوں کا جینا دو بھر کردیا ہے۔ آئے روز مزدور اور کسان ہڑتال کرتے رہتے ہیں۔ کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں مزدوروں کی ہڑتالوں نے کہیں کہیں اپنے مطالبات منوائے بھی ہیں۔ گنا ،آلواورگندم کم قیمتوں میں کسانوں سے خریدا جا رہا ہے اور یہ اجناس عوام کو مہنگے داموں بیچی جا رہی ہیں ۔ حالیہ آ ٹا اور چینی کا بحران ہمارے سامنے ہے۔ آ ئے روز چار پانچ بچیاں اور عورتیں اغوا ہوتی ہیں اور ان کا ریپ کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔ بلوچستان، وزیرستان، اور تھرپارکر کے نوجوان اور محنت کش جمہوری آزادی سے محروم ہیں اور بے روزگاری ان کے سر پر مسلط ہے۔

ان زیادتیوں کے خلاف جب بلوچستان کے نوجوان اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں تو انھیں غائب کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ داروں کے ماتحت کانوں کے مزدوروں پر یونین سازی پہ عملا پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس کے خلاف مزدور سراپا احتجاج ہیں۔ پشتونوں کے مطالبات کو غداری قرار دے کر ان کی نقل وحمل اور حق اظہار رائے پر پابندی عائد ہے۔ چارسدہ کے عظیم الشان جلسے کو دیکھ کر حکمران طبقات میں لرزہ طاری ہے۔ عرصے سے طلبہ یونینوں پر پابندی ہے۔

اس کے خلاف طلبہ ایکشن کمیٹی نے ترپن شہروں میں زبردست احتجاج کر کے جزوی طور پر اپنے مطالبات منوایا ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کا بل پاس کیا ہے۔ سندھ اسمبلی نے مزدوروں کے حق یونین سازی اور سوشل سیکیورٹی کا بل بھی پاس کیا ہے۔ اب عورتوں نے اپنے مطالبات پر مبنی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ آٹھ مارچ کو محنت کش عورتوں کے مارچ سے حکمران طبقات بوکھلا گئے ہیں۔جب اختر مینگل حکومت میں شامل ہوئے تو حکومت نے بلوچوں کے چھ نکات کو تسلیم کیا مگر ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔

اب جب خواتین کے جزوی طور پر مطالبات تسلیم کرنے پر غور ہونے کے امکانات پیدا ہوئے تو انتہائی دائیں بازو اور سامراجی آلہء کار بوکھلاہٹ کے شکار ہوگئے اور میڈیا کے ذریعے شوروغوغا شروع کر دیا۔ ہندوستان میں مسلم مخالف شہریت بل کے خلاف جب کمیونسٹ پارٹیاں، کانگریس اور ٹریڈ یونینوں نے مل کر پچیس کروڑ انسانوں نے ہڑتال کی تو پاکستان کے نام نہاد اسلام پسندوں نے ان کا کوئی خیر مقدم نہیں کیا اور اب جب پاکستان کی خواتین اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں تو ہر ایک کو اسلام خطرے میں نظر آرہا ہے۔

اور اب لاہور میں تشکیل دی جانے والی عوامی ایکشن کمیٹی جو آنے والے آئی ایم ایف اور سامراجی بجٹ کے خلاف متبادل عوامی بجٹ پیش کرنے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید اسے بھی اسلام دشمن قرار دے دیا جائے، جس طرح افغانستان میں بائیں بازو کی سامراج مخالف حکومت قائم ہونے کے خلاف اسلام دشمن قرار دے کر امریکی اشاروں پر طالبان کو افغانستان میں بھیجا گیا اور اب یہ فلم خود ان کے اپنے گلے پڑگئی ہے۔

مزدورکسان طلبہ ، عورتوں یا پیداواری قوتوں کے حقوق سلب کرنے کے خلاف لڑائی ہو یاآئی ایم ایف کا تجویز کردہ بجٹ ہی کیوں نہ ہو اب عوام ان کے خلاف لڑیں گے۔ وہ ایکواڈورکے عوام کی طرح آئی ایم ایف سے لی جانے والی چار عشاریہ تین بلین ڈالرکے قرضے لوٹانے کا عمل پاکستان میں بھی شروع کریں گے۔ اب پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف کی تجویزکردہ نہیں بلکہ عوام کی خواہشات اور مفادات کے ماتحت ہوگا۔ جو غیر ترقیاتی بجٹ کو رد کرتے ہوئے عوام الناس کی فلاح وبہبود کا بجٹ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں