کورونا سے ڈرو…… نا
اب تک پوری دنیا میں سات ہزار سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔
چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والاکورونا وائرس پوری دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے اور انسانی جانوں پر حملہ آور ہے۔اب تک دنیا کے 150 سے زائد ممالک اس جان لیوا وباکی لپیٹ میں آچکے ہیں، ان ممالک میں متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار کے لگ بھگ ہے، یہ کورونا وائرس کے کیسز کی وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوئی، جو رپورٹ نہ ہوسکے وہ اس کے علاوہ ہیں۔
اب تک پوری دنیا میں سات ہزار سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ صرف چین میں ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر چکی ہے تاہم اطلاعات آرہی ہیں کہ چین نے کورونا وائرس پر قابو پالیا ہے۔ چین کے بعد کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں اٹلی ، اسپین اور ایران ہیں، اٹلی اور اسپین نے مکمل لاک ڈاؤن کر رکھا ہے اور اس مہلک وائرس کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
اٹلی یورپ کا سب سے زیادہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا ملک ہے۔ اب تک اٹلی میں 28ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے جن میں 350 لقمہ اجل بن چکے ہیں۔چین کے بعد اس وائرس سے متاثر ہونے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ایران ہے، جہاںاب تک ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک اور 11364 کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
چین، ایران اور اٹلی کے بعد اسپین میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی سب سے بڑی تعداد ریکارڈ کی گئی ہے، وہاں اس وبا کا شکار افراد کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ کورونا وائرس دنیا بھر کی معیشتوں اور معاشروں کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے،پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسے خطے میں موجود ہے، جہاں شمال مشرق میں چین اور مغرب میں ایران ہیں، دونوں ممالک کے ساتھ ہماری سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور یہ دونوں ممالک کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں، جہاں کورونا وائرس نے تباہ کن اثرات مرتب کیے۔
اس لیے پاکستان اپنے آپ کو اس وبا سے نہ بچا سکا، تین روز پہلے تک پاکستان میں کورونا کی صورتحال کافی قابو میں نظر آرہی تھی لیکن پھر اچانک کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے غیر معمولی اقدامات ہوتے دکھائی دیے۔ مبینہ طور پر پاکستان میں کورونا وائرس ایران ، شام اور عراق سے منتقل ہوا۔ صوبہ سندھ سے جو زائرین ان ممالک کے سفر پر تھے واپسی پر جب ان کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں کورونا وائرس کے مثبت رزلٹ آئے۔ یوں بدقسمتی سے پاکستان 151 ممالک کی اس فہرست میں شامل نظر آرہا ہے جوکورونا وائرس سے متاثر ہے۔
من حیث القوم ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال سے پہلے ہی ایک بہت بڑے بحران کا سامنا ہے اور اس بحران کا نام ہے ''گورننس کا بحران ''۔ یہ ایسا بحران ہے جوتمام بحرانوں کی ماں ہے، اس کی موجودگی میں کسی نئے بحران سے نمٹنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔جب گورننس کا بحران موجود ہوتو پھرایک بحران کئی نئے بحرانوں کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی کورونا وائرس کی بازگشت سنائی ہی دی تھی کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہو گئی کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری تفتان سے آئے 3000 زائرین کوبنا چیکنگ کے لے گئے، منگل کے روز خواجہ آصف نے یہ معاملہ سینیٹ میں بھی اٹھایا۔ گو کہ زلفی بخاری نے اس خبر کی تردید کردی لیکن کیا ریاست کی ذمے داری نہیں کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرائے۔ اس حوالے سے ایک اور بری خبر بھی سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ کروڑوں روپے مالیت کے ماسک بیرون ملک اسمگل ہوئے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اس کے بارے میں تحقیقات شروع کردی ہیں۔ یہ دونوں خبریں کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر انتہائی غیر معمولی نوعیت کی ہیں ،کیا ریاست اس غیر معمولی نوعیت کے معاملے کی سنجیدہ تحقیقات کرکے رپورٹ قوم کے سامنے لائے گی؟یاآٹا بحران کی طرح محض زبانی دعوے ہی کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ آٹا بحران کے ذمے داروں کو قوم کے سامنے لائیں گے لیکن قوم ابھی تک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم کا وعدہ کب سچ ثابت ہوگا۔
خدا کرے میرے ملک میں گورننس کے معاملات میں بہتری آئے اور بحرانوں سے فائدہ اٹھا کر قوم کا خون چوسنے والی جونکوں کا خاتمہ ممکن ہو۔ اگر گورننس کے معاملات کے حوالے سے ہمیں مایوسی نظر آرہی ہے تب بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس ہنگامی صورتحال میں معاشرے کے ہر فرد کو آگے بڑھنا ہوگا اور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
کورونا وائرس کے کیسز ہر آنے والے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس وبا کی روک تھام کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ احتیاطی تدابیر ، عوام کے لیے آگاہی مہم ، افواہ سازی کی روک تھام، علاج معالجہ کی بہترین سہولیات کا بندوبست ، ایئرپورٹس اور سرحدوں پر انسان دوست حفاظتی اقدامات ، معاشی بحران سے بچنے کے لیے تدبیر سازی پر خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک اس وائرس کے اثرات دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہیں تب تک ایک لمحے کی بھی غفلت اور لاپروائی کی گنجائش نہیں۔اس کی روک تھام کے لیے ہمیں صرف حکومت کی جانب نہیں دیکھنا بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ماہرین طب کاکہنا ہے کہ کورونا وائرس طاعون کی طرح کی بیماری ہے، اس کے فوری طور پر ختم ہونے کے امکانا ت کم اور مزید پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے۔ جن لوگوں میں قوت مدافعت کم ہے وہ اس سے زیادہ بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ پانچ سال سے کم بچوں ا ور پچاس سال سے زائد عمر لوگوں کو اس وبا سے زیادہ خطرہ ہے۔قوت مدافعت بڑھانے کی تدابیر پر زیادہ توجہ دی جائے۔ رات کی نیند پوری نہ ہونے سے اگلے دن قوت مدافعت کم ہوتی ہے لہٰذا کم از کم آٹھ گھنٹے کی نیند پوری کریں۔ صحت بخش غذا کا استعمال بڑھائیں۔پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے لیے تازہ وضو کریں اور اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔چھینکتے وقت منہ پر رومال یا ٹشو رکھیں تاکہ اس کے اثرات سے دوسرے محفوظ رہیں۔
پیاس لگے یا نہ لگے ہر گھنٹے بعد پانی پئیں، خدانخواستہ اگر کسی کو کورونا وائرس ہوتا ہے تو وہ گلے سے پھیپھڑے کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے، اسے پھیپھڑوں میں جانے سے روکنا ضروری ہے، پانی کا بار بار استعمال یہ کام کرتا ہے، اس عمل سے وائرس گلے سے پیٹ میں چلا جاتا ہے اور پیٹ کا قدرتی نظام اسے ختم کردیتا ہے۔ تمام سیاسی و مذہبی اجتماعات کو فی الفور ملتوی کر دیا جائے۔مساجد میں نماز باجماعت فرش پر ادا کی جائے اور نماز کی ادائیگی سے قبل اگر سرف یا صابن سے فرش کو دھو لیا جائے تو بہتر ہو گا۔کورونا وائرس کی احتیاط میں مصافحہ نہ کرنے کا کہا گیا ہے لہٰذا مصافحہ اور معانقہ کی بجائے زبان سے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا جائے۔ذخیرہ اندوزی سے مکمل گریز کیا جائے ، ذخیرہ اندوزوں کی حکومتی ذمے داروں کو شکایت کی جائے۔
مساجد میں وضو خانوں اور طہارت خانوں کی مکمل صفائی کا خیال رکھا جائے، صابن اور اگر ممکن ہو تو سنیٹائزر رکھے جائیں۔ہر قسم کی افواہوں سے گریز کیا جائے۔ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم عالیہ نے کورونا وائرس کی وبا سے متعلق جاری ہونے والی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ احتیاطی تدابیر شرعی تعلیمات کے مطابق ہے۔کورونا کی وبا کا چرچا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، اس کی روک تھام اور خود محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔مفتی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں اللہ پر توکل کی خلاف ورزی ہوتی ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔
انھوں نے ایک حدیث بیان کی اور بتایا کہ رسول کریمؐ نے حکم دیا ہے کہ ایسے موقع پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، آپ نے طاعون کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ جب کسی جگہ طاعون پھیلے تو باہر کے لوگ اندر اور اندر کے لوگ باہر نہ آئیں۔اس وقت کورونا سے ساری دنیا ڈری ہوئی ہے پاکستان ایک باہمت اور نڈر قوم ہے ، اس قوم کو ڈرنا نہیں بلکہ کورونا کا مقابلہ جوانمردی سے کرنا ہے۔اس ناگہانی صورتحال کے پیش نظر عوام الناس کو رجوع و توکل الی اللہ کرنا چاہیے، پوری قوم کثرت سے استغفار کرے ، آیت کریمہ ، درود شریف کا وردایک تسلسل کے ساتھ کیا جائے،حسب استطاعت صدقات و خیرات کیے جائیں، بیشک اللہ کے سوا کوئی طاقت ہمیں اس آفت سے نہیں بچا سکتی۔