سر ڈیوڈ لین ۔۔۔ اک صدی کا عظیم ہدایت کار

 جس نے عملی زندگی کا آغاز ایک سٹوڈیو میں ٹی بوائے سے کیا


Rana Naseem March 22, 2020
 جس نے عملی زندگی کا آغاز ایک سٹوڈیو میں ٹی بوائے سے کیا ۔ فوٹو : فائل

''ڈرامائی انداز میں پیش کی جانے والی حقیقت کو فلم کہا جاتا ہے اور فلم کو حقیقت تک پہنچانا ایک ڈائریکٹر کا کام ہے'' یہ مقولہ اس عظیم ہدایت کار کا ہے، جسے دنیا سر ڈیوڈ لین کے نام سے جانتی ہے۔ بلاشبہ ڈیوڈ لین وہ شخصیت تھے، جنہوں نے فلم سازی کا کلچر ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔

پورے کیرئیر میں صرف 17 فلمیں بنا کر خود کو فلم سازی کی تاریخ میں امر کرنے والے ڈیوڈ لین نے رزمیہ (Epic) فلموں کی وجہ سے وہ شہرت کمائی، جو شائد کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ہدایت کاری کی صنف کو جدید رموزو اوقاف سکھانے والے لین کو صدی کے بہترین ڈائریکٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے زیادہ تر جنگوں اور رومانس پر مبنی فلمیں بنائیں، جنہیں دیکھ کر آج بھی شائقین ڈیوڈ کو داد دیئے بنا نہیں رہ سکتے۔ ڈیوڈ وہ ڈائریکٹر تھے، جو صرف خود ہی فلمی دنیا کے آسمان پر نہیں چمکے بلکہ جو ان کے ساتھ چلا وہ بھی دنیا کی آنکھ کا تارا بن گیا، جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ڈیوڈ لین کی ہدایت کاری کی وجہ سے ہالی وڈ کی 11 اداکاراؤں کو آسکر مل چکا ہے۔

ہالی وڈ لیجنڈ فلم ڈائریکٹر ڈیوڈ لین اگر زندہ ہوتے تو رواں ماہ 25 مارچ کو وہ اپنی 112واں جنم دن منا رہے ہوتے۔ لین 25 مارچ 1908ء کو جنوبی لندن کے ایک ٹاؤن کرائے ڈن میں پیدا ہوئے، ان کے والد فرانسیس ویلیم لین اور والدہ کا نام ہیلینا ٹینگیے تھا، جو معروف برطانوی انجینئر سر رچرڈ ٹینگیے کی بھانجی تھیں۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ نے جنوب مشرقی انگلستان کی کاؤنٹی برک شائر میں واقع سکول لائیٹن پارک میں تعلیم حاصل کی۔

ان کے چھوٹے بھائی ایڈورڈ لین ادب سے خاص شغف رکھتے تھے اور اسی شوق کی تسکین کے لئے دوران تعلیم ہی انہوں نے ''اینک لینگز'' کے نام سے ایک ادبی کلب بنایا، جو 2 دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہا، تاہم ایڈورڈ کے برعکس ڈیوڈ کو تعلیم حاصل کرنے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی، اس لئے انہیں ایک ناکام طالب علم کہا جاتا تھا۔ 1926ء میں انہوں نے صرف 18 برس کی عمر میں سکول چھوڑ کر اپنے والد کی فرم کو بحیثیت انٹرنی جوائن کر لیا۔

اسکول سے بھاگنے کی ایک بڑی وجہ ڈیوڈ کے اس شوق کی تسکین بھی تھی، جو بچپن سے ہی ان کے سر پر سوار تھا یعنی عکس بندی۔ 10 برس کی عمر میں ڈیوڈ کو ان کے انکل نے تحفتاً ایک کیمرا دیا، جس سے تصاویر بنانا ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیوڈ لین کا کیرئیر بنانے میں ان کے انکل کا بھی بڑا ہاتھ ہے، کیوں کہ ڈیوڈ بچپن سے ہی اس شعبے کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ 1923ء میں ڈیوڈ کے والد نے ان کے والدہ کو طلاق دے کر اپنا گھر اجاڑ دیا اور شائد یہی وجہ تھی کہ بعدازاں ڈیوڈ بھی انہی راستوں پر چل نکلے کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی پہلی بیوی کو اس وقت طلاق دی، جب وہ ایک عدد بیٹے کے والد تھے۔

عظیم ہدایت کار کے کیرئیر کا آغاز زمین کی تہہ سے شروع ہوا لیکن پھر وہ آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ والدکی فرم میں ایک سال کے دوران ہی ڈیوڈ میں کام سے بیزار ہونے لگے، جسے دور کرنے کے لئے ان کی ہر شام سینما میں گزرتی، اس روش کو دیکھتے ہوئے ڈیوڈ کی آنٹی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ سینما میں ہی کوئی ملازمت تلاش کر لے، جس سے کام کے ساتھ ساتھ ان کے شوق کی تسکین بھی ہوتی رہے گی۔

آنٹی کا مشورہ کام کر گیا اور انہوں نے Gaumont Studiosمیں ملازمت کی ٹھان لی، جہاں پہلے ایک ماہ انہیں اجرت کے بغیر کام کرنا پڑا۔ Gaumont Studiosمیں ڈیوڈ نے پہلے پہل ٹی بوائے(چائے پیش کرنے والا لڑکا) کا کام کیا تو پھر انہیں ترقی دے کر کلیپر بوائے (سین شروع کرنے کے لئے لکڑی کی تختی بجانے والا) بنا دیا گیا، بعدازاں جلد ہی وہ تھرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گئے۔ 1930ء تک پہنچتے پہنچتے ڈیوڈ فلم ایڈیٹر بن چکے تھے۔ The Night Porter لین کے کیریئر کی وہ پہلی فلم تھی، جو انہوں نے ایڈیٹ کی، جس کے بعد انہوں نے اس وقت کی بہترین فلموں کی کانٹ چھانٹ کے فرائض سرانجام دیئے۔

خداداد صلاحیتوں کے مالک اور محنت شائقہ کے قائل ڈیوڈ نے فلم ایڈیٹر کے بعد اپنے ذہنی میلان کے مطابق ہدایت کاری کی جانب رخ کیا۔ سب سے پہلی فلم جو انہوں نے ڈائریکٹ کی وہ In Which We Serve تھی، جس میں ان کے ساتھ اس وقت کے معروف ہدایت کار نوئل کوارڈ بھی شامل تھے، تاہم اس فلم کی کامیابی کے بعد ڈیوڈ میں مزید حوصلہ پیدا ہوا اور صرف 2 سال بعد ہی یعنی 1944ء میں انہوں نے ایک اور فلم (This Happy Breed) اپنی ہدایت کاری میں بنا ڈالی اور اس بار وہ نہ صرف اکیلے ہدایت کار تھے بلکہ اس فلم کی کہانی بھی انہوں نے خود لکھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ 1955ء میں بننی والیSummertime وہ فلم تھی، جسے ڈیوڈ کے لئے نئے سفر کا آغاز قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس پر لگنے والا پیسا پہلی بار ملک کے باہر یعنی امریکا سے آیا، اس فلم کی ہیروئن (کیتھرین ہببرن) بھی ایک امریکن تھیں۔

ہدایت کاری سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ڈیوڈ لین زندگی کے آخری ایام میں بھی اپنے کام میں مصروف رہتے تھے۔ جس برس ان کا انتقال ہوا یعنی 16 اپریل 1991ء کو تو اس وقت بھی وہ جوزف کونرڈ کے ایک ناول پر بننے والی ایک فلم کی پری پروڈکشن میں مصروف تھے تاہم سکرپٹ پر جھگڑے کی وجہ سے وہ یہ پراجیکٹ چھوڑ گئے، تاہم بعدازاں ڈیوڈ نے میگی انسوارٹ (معروف سینما ماہر جیوفیر انسوارت کی اہلیہ) کے ساتھ مل کر خود ہی اس فلم کا سکرپٹ لکھنے کی ٹھانی۔ فلم کے لئے 46 ملین ڈالر کا بجٹ موجود تھا، لیکن بدقسمتی سے فلم کی شروعات کے صرف 6 ہفتے قبل ہی ڈیوڈ لین کی موت واقع ہو گئی۔

فلمی دنیا کا سفر اور اعزازات
برطانیہ کا سب سے بڑا سول اعزازMost Excellent Order of the British Empire پانے والے ڈائریکٹر ڈیوڈ لین نے فلمی صنعت میں بحیثیت ایڈیٹر قدم رکھا اور جو پہلی فلم انہوں نے ایڈیٹ کی وہ The Night Porter تھی۔

گومونت برٹش پیکچر کارپوریشن کے بینر تلے بننے والی یہ ایک مزاحیہ فلم تھی، جس کے بعد 1931ء میں بننے والی فلم These Charming People سے لے کر 1942ء میں بننے والی فلم One of Our Aircraft is Missing تک ڈیوڈ لین نے مجموعی طور پر کل 25 فلموں میں بحیثیت ایڈیٹر کام کیا۔ 1942ء میں بطور ایڈیٹر آخری فلم کرنے کے بعد اسی برس ڈیوڈ نے وہ کام شروع کیا، جس کے لئے شائد وہ جنم لئے تھے، یعنی ہدایت کاری۔

لین نے بحیثیت ڈائریکٹر سب سے پہلے In Which We Serve بنائی، جس پر 240ملین ڈالر لاگت آئی۔ یہ فلم دوسری جنگ عظیم کے دوران بنائی گئی تھی، اس لئے فلم کا پلاٹ بھی جنگ ہی تھا۔ اگرچہ یہ لین کی پہلی کاوش تھی لیکن پھر بھی یہ فلم اپنی لاگت کو پورا کرتے ہوئے کمائی کی جانب گئی یعنی باکس آفس پر اس نے 3 سو سے زائد ملین ڈالر کمائے۔ بحیثیت ڈائریکٹر پہلی فلم کے بعد ڈیوڈ لین کا حوصلہ بلند ہوا تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ایسی کمال فلمیں بنائیں جنہیں آج تک بھلایا نہیں جا سکا۔

The Bridge on the River Kwai، Lawrence of Arabia، Doctor Zhivago، A Passage to India، Summertime، Ryan's Daughter، Lost and Found: The Story of Cook's Anchor ڈیوڈ کی وہ شاہکار فلمیں ہیں، جنہیں ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ بحیثیت ڈائریکٹر لین نے کل 17 فلمیں بنائیں۔ فلمی صنعت میں انفرادیت اور جدت کی مثال ڈیوڈ لین کو بہترین خدمات پر ملکہ الزبتھ نے 1984ء میں ڈیوڈ کو سر کا خطاب دیا۔

ایوارڈز کی بات کی جائے تو ڈیوڈ لین کو 1958ء میں فلم The Bridge on the River Kwai کے لئے بہترین ہدایت کاری پر آسکر دیا گیا، اسی طرح 1963ء میں بھی انہیں فلم Lawrence of Arabia کے لئے بہتری ہدایت کاری پر اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈیوڈ 3 بار گولڈن گلوب، 6 بار بی اے ایف ٹی اے، 2 بار ڈائریکٹرز گیلڈ آف امریکا، 4 بار نینشل بورڈ آف ریویو، 3 بار نیویارک فلم کریٹیکس سرکل کے علاوہ سلور کونڈر، برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، کیناس فلم فیسٹیول، ڈیوڈ دی ڈونٹیلو، ایوینگ سٹینڈرڈ برٹش فلم، ہیوگو، نیسٹرو، کینسس سٹی فلم کریٹیکس سرکل، رائٹرز گیلڈ آف امریکا سمیت متعدد ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔ 1990ء میں معروف ہدایت کار کو امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔

''ریانز ڈاٹر'' سے ملنے والی مایوسی

1970ء میں ڈیوڈ لین نے ریانز ڈاٹر (Ryan's Daughter) کے نام سے ایک رومانوی فلم بنائی۔ فلم میں پہلی جنگ عظیم کا دور دکھایا گیا، جس میں ایک شادی شدہ آئرش خاتون ایک برطانوی آفیسر سے محبت کر بیٹھتی ہے۔ فلم کی کہانی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس وقت کے بڑے بڑے ناقدین نے جی بھر کر فلم پر تنقید کی، جس کی وجہ سے ڈیوڈ کو اتنا دکھ اور افسوس ہوا کہ پھر اگلے 14 برس تک انہوں نے کوئی فلم نہیں بنائی، تاہم دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ بے پناہ تنقید کے باوجود اس فلم نے باکس آفس پر راج کیا۔ یہ فلم 13.3 ملین ڈالر کی لاگت سے بنائی گئی تھی جبکہ اس کی کمائی 31 ملین ڈالر تھی۔ ریانز ڈاٹر کو آسکر ایوارڈ کی چار مختلف کیٹیگریز کے لئے بھی نامزد کیا گیا، جن میں سے دو کیٹیگریز میں اسے فاتح قرار دیا گیا۔

ناکام نجی زندگی

ڈیوڈ لین کے شریک لکھاری اور پروڈیوسر نارمن سپنسر بتاتے ہیں کہ '' لین خواتین کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے، میرے خیال میں ان کے اردگرد کوئی ایک ہزار خواتین تو رہتی ہوں گی، لیکن انہوں نے شادی ان میں سے صرف 6 کے ساتھ کی'' ڈیوڈ نے 22سال کی عمر میں یعنی 28جون 1930ء کو اپنی کزن ازابیل لین سے شادی کی، جس میں سے انہیں قدرت نے ایک بیٹا پیٹر عطا کیا۔

1936ء میں یہ شادی کا بندھن ٹوٹ گیا اور 6 سال بعد یعنی 1940ء میں لین نے معروف اداکارہ اور ڈانسر کے واش سے بیاہ رچا لیا، لیکن یہ تعلق بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور 1949ء میں ان میں طلاق ہو گئی۔

اسی برس معروف ڈائریکٹر نے ایک خوبصورت اداکارہ و پروڈیوسر این ٹوڈ سے شادی کر لی، جو 8 سال چلی۔ 1960ء میں ڈیوڈ نے ایک بھارتی دوشیزہ لیلا سے شادی کر لی۔ ڈیوڈ کی تمام شادیوں میں سے یہ سب سے زیادہ دیر (18سال) چلنے والی شادی تھی لیکن بالآخر اس کا انجام بھی طلاق پر ہی ہوا۔ سینڈرا ہوٹز کے ساتھ 1981ء میں ہونے والی شادی صرف 3سال بعد یعنی 1984ء کو اپنے اختتام کو پہنچ گئی، جس کے بعد 1990ء ڈیوڈ نے آخری بیاہ سینڈرا کوک سے رچایا، کیوں کہ 1991ء میں خود لین کا انتقال ہو گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں