کوچہ سخن

غریب کیا ہے امیر کو بھی نہیں ہے راحت<br /> سبھی کی جاں پر بنی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے


Arif Aziz March 22, 2020
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

غزل



کچھ معتدل حیات کا موسم ہُوا تو ہے
آنچل کسی کے دوش پہ پرچم ہوا تو ہے
پہلی سی اب مزاج میں شوخی نہیں رہی!
لہجہ کسی کی بات کا سرگم ہُوا تو ہے
مری شبیہ کا عکس بھی شاید دکھائی دے
گوشہ کسی کی آنکھ کا پُر نم ہوا تو ہے
محسوس کررہا ہوں کئی روز سے کمی
نالہ شبِ فراق کا کچھ کم ہُوا تو ہے
تنہائیوں میں یاد بھی رہتی ہے ساتھ ساتھ
لیکن خیالِ یار بھی ہمدم ہوا تو ہے
اڑتی سی اک خبر ہے کہ وہ بھی اداس ہے
اس کو بھی میری ذات کا کچھ غم ہُوا تو ہے
جلتا ہوں سَر سے پیر تک اپنی ہی آگ میں
کچھ حسرتوں کے زخم کا مرہم ہوا تو ہے!
کوئی تو ایسی بات تھی جو دل میں چبھ گئی
جس کا ملال آپ کو محرم ؔ ہُوا تو ہے
(رفیع یوسفی محرم۔ کراچی)


۔۔۔
غزل



تُو جو خدا کی نقل کر رہا ہے ایک کام کر
ظروف کو سنوار روح کا بھی انصرام کر
مری سعادتوں نے قصد کر لیا امام کا
تو راستے یزید کر یا فاصلے صدام کر
یہاں کوئی بھی موج پیاس کی امین تھی، نہ ہے
یہاں بھی اک فرات ہے یہاں پہ مت خیام کر
کلیم نے، خلیل نے حبیب نے یہی کہا
اذان دے، نماز پڑھ، قنود کر، سلام کر
خلوص ہی کٹار ہے، حرف کدوں کی جنگ میں
تہِ زباں دبا کے رکھ ابھی نہ بے نیام کر
شاید ترے سکون کا ادیب حل نکال لیں
مشاعرے شروع کر، مظاہرے تمام کر
سبیل زمزمی مزاج مانگتی ہے ساگرا
قبول ہے یہ شرط تو نگاہ میں قیام کر
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)


۔۔۔
غزل



حذر کی آخری حد کا عذاب ہونا پڑا
ہمیں بھی مصلحتاً بازیاب ہونا پڑا
ترے حواس پہ طاری تھا اب بچھڑ جانا
میں ہوش میں تھی مگر نیم خواب ہونا پڑا
ہمیں کوئی تو سنے ایک آرزو میں فقط
کسی کے ہاتھ میں کھیلے، رباب ہونا پڑا
نہ چاہ تھی، نہ طلب تھی، دیار انجانا
سو جس نے جیسے پکارا، شباب ہونا پڑا
تری کتاب کا ہر لفظ جس کا چہرہ تھا
یہ کیا ستم کہ اسے صرف باب ہونا پڑا
تو شاہ تھا ہی نہیں فقر تیرا پیشہ تھا
ہو خیر تیری تجھے کیوں خراب ہونا پڑا
وہ پیر باندھ کے بولے کہ ناچ اب سائیں
زمین سمٹی، ادب میں حساب ہونا پڑا
(سارہ خان۔ راولپنڈی)


۔۔۔
غزل



اک پیڑ پینٹ کر کے مصور جو تھک گیا
پنچھی تخیلات کی نس میں اٹک گیا
پیتا تھا گھول گھول کے الفاظِ شاعری
جب چڑھ گئی تو صاحبِ دیواں بہک گیا
مدت کے بعد نیند کی ٹہنی ہوئی نصیب
اتنے میں تیری یاد کا پنچھی چہک گیا
مرجھا گئے گلاب مرے زخم سونگھ کر
کیکر کا پیڑ دیکھ کے مجھ کو مہک گیا
پیچھا کِیا ہے ظلمتِ شب کا سحر تلک
سورج بہت گیا تو یہی شام تک گیا
اک عمر میری آنکھ ہی صحرا رہی فہدؔ
پھر یوں ہوا کہ خون کا آنسو ٹپک گیا
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)


۔۔۔
غزل



یوں بھی اپنا دل بہلاتا رہتا تھا
ریشم جیسے خواب بناتا رہتا تھا
چھیڑ کے سازِ ہجر میں رات کے پچھلے وقت
گلیوں میں آواز لگاتا رہتا تھا
اب یہ جانا میرے حق میں بہتر تھا
جو میں اپنا آپ چھپاتا رہتا تھا
اک شہزادی خواب میں ملنے آتی تھی
اور میں اس کو خواب سناتا رہتا تھا
اک درویش پڑوسی تھا اور وہ مجھ کو
شرک نہ کرنا، یہ سمجھاتا رہتا تھا
(طارق جاوید۔کبیر والا)


۔۔۔
غزل



ہوا کا ساتھ نبھانے سے معذرت کر لی
جلے چراغ بجھانے سے معذرت کر لی
ہمارے پاؤں مسافت سے تنگ آئے تھے
سو سَر کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کر لی
اسی کے گھر کو جلایا گیا ہے پچھلے دنوں
وہ جس نے شہر جلانے سے معذرت کر لی
اسی سے چھینا گیا رزق اس کے حصے کا
وہ جس نے چھین کے کھانے سے معذرت کر لی
اک عمر مجھ کو دلاسے دیے گئے یارو
پھر اس نے لوٹ کے آنے سے معذرت کر لی
توقعات پہ پورا اتر نہ پایا تو
نوید میں نے زمانے سے معذرت کر لی
(نوید انجم۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل



جو میں اپنے سے اچّھا ڈھونڈتا ہوں
کوئی ایسا ہی بندہ ڈھونڈتا ہوں
لگے اپنوں سے بڑھ کر جو پیارا
کوئی ایسا پرایا ڈھونڈتا ہوں
جو جیتا ہے کئی خانوں میں رہ کر
وہ دنیا کا اکیلا ڈھونڈتا ہوں
مکر جائے جو سچ کہہ کر زباں سے
اب ایسا ایک جھوٹا ڈھونڈتا ہوں
میری پہچان مجھ سے کھو گئی ہے
خود اپنا ہی میں چہرہ ڈھونڈتا ہوں
بہت اکتا گیا ہوں تیرگی سے
حقیقت میں اجالا ڈھونڈتا ہوں
بدل دے جو مقدر کو بھی عارفؔ
کوئی میں کرماں والا ڈھونڈتا ہوں
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل



بے چین دھڑکنوں میں ہیں گہری اداسیاں
روٹھا کوئی تو شہر میں پھیلی اداسیاں
رخصت ہوئے مکین تو خالی مکان میں
آسیب بن کے ہر جگہ اتری اداسیاں
شکوے بھلا کے میں بھی ترے پاس آ گئی
تو مسکرا کے ٹال دے ساری اداسیاں
ہوتی نہیں ہے شہر میں یونہی تو روشنی
ہر اک دیے کی لَو میں ہیں جلتی اداسیاں
آگے بھی اس سے دیکھ تو وحشت ہے کس قدر
تم نے تو صرف آنکھ میں دیکھی اداسیاں
تنہا بھی ہو کے میں کہیں تنہا نہیں رہی
میری سہیلیاں ہیں یہ میری اداسیاں
اس کا بھی کچھ مزاج اذیت پسند تھا
ہم نے بھی بال کھول کے اوڑھی اداسیاں
مانگے ہوئے ستارے، بہاریں ادھار کی
ان سے عزیز تر مجھے اپنی اداسیاں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل



کسی کی محبت میں مسمار ہونا
بڑا پُر خطر ہے یہاں پیار ہونا
کہیں دھڑکنیں بند کر دے نہ میری
کہیں جاں نہ لے لے جگر تار ہونا
سزا پائی ہے بے گناہی کی میں نے
سو واجب ہے اب تو گنہگار ہونا
سمجھ جاؤ گے عشق کیوں لادوا ہے
کسی کے کبھی تم بھی بیمار ہونا
کہ جب سے تمہاری طلب مار ڈالی
کھٹکتا ہے تب سے طلب گار ہونا
(کاظم علی۔ بورے والا)


۔۔۔
غزل



یقین والا جدائیوں کے گمان بانٹے
چراغ جیسے دھویں کے کالے نشان بانٹے
تمہاری آنکھوں نے اک گداگر کو کشمکش دی
تمہارے ہاتھوں سے بھیک لے یا وہ دھیان بانٹے
ابھی تو باری شکاریوں کی بھی آنے کو ہے
شکار کب تک وجودِ جاں کی لگان بانٹے
وہ جس کو حاصل ہیں خلقِ ہستی کے سب عناصر
اب اس پہ ہے کہ گلاب بانٹے، چٹان بانٹے
ہمارے پرکھوں نے یہ وراثت میں ہم کو سونپا
کہ سات نسلوں کو دردِ فرقت کے گیان بانٹے
برائے حجت یہ رونا دھونا، یہ آہ و زاری
ہمارے جانے پہ غم زدوں نے مکان بانٹے
مجھے تو تہذیب نے محبت کا گر سکھایا
تجھے بھلا کون نفرتوں کے بیان بانٹے؟
تمہارے در پر کئی سوالی اجڑ گئے ہیں
تمہارے در پر تمہارا باقی امان بانٹے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل



مکاں کی کھڑکی کُھلی ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
جہان نظر ہر جمی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے
یہ میں جو تجھ پہ نثار کرتا ہوں جان اپنی
یہ تو جو مجھ پہ مری ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
اسے جو پہلی نظر میں دیکھا تو یوں لگا کہ
وہ مجھ سے پہلے ملی ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
لہو میں لت پت پڑی ہے لڑکی اور آدھی بوتل
شراب کی بھی پڑی ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
غریب کیا ہے امیر کو بھی نہیں ہے راحت
سبھی کی جاں پر بنی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے
مِرے رفیقوں نے شاخِ الفت جو کاٹ دی تھی
وہ آج پھر سے ہری ہوئی ہے، ضرور کچھ ہے
یہ شوخ و چنچل کسی کا نمبر مِلا کے انجم
جو طاق پیچھے چھپی ہوئی ہے ضرور کچھ ہے
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں