سارے رنگ

عجب عالم ہے صاحب، کسی سے بھی ہاتھ ملانے سے پہلے جھجھکنا پڑتا ہے کہ ہاتھ ملائیں یا نہ ملائیں۔۔۔


Rizwan Tahir Mubeen March 22, 2020
عجب عالم ہے صاحب، کسی سے بھی ہاتھ ملانے سے پہلے جھجھکنا پڑتا ہے کہ ہاتھ ملائیں یا نہ ملائیں۔۔۔فوٹو : فائل

ISLAMABAD: نگاہیں ملانے سے 'کورونا' نہیں پھیلتا۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

ہماری معاشرتی زندگی میں 'کورونا' وائرس بہت شدید اثر ڈالنے لگا ہے۔۔۔ اس سے تحفظ کے پیش نظر تمام تعلیمی ادارے بند کیے جا رہے ہیں، امتحانات ملتوی ہوگئے ہیں، تفریح گاہوں سے لے کر شادی بیاہ اور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔۔۔ لوگوں میں بھی بے انتہا تشویش اور غیر یقینی کی کیفیت ہے، کہ نہ جانے کل کیا ہو۔۔۔!

کچھ لوگ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ مبینہ طور پر متاثرین سے متعلق حقائق چھپائے جارہے ہیں، کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 'میاں، کچھ بھی نہیں ہے!' اور یہ سب فقط 'چکر بازی' کی جا رہی ہے۔۔۔! ثمر بھائی کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے، ایسا لگتا ہے کہ 'کورونا کی وجہ سے اِس بار 'دفعہ 144' گھروں کے اندر بھی لگانا پڑ جائے گی۔۔۔ کیوں کہ ہمارے اس خوف کا کوئی انت نہیں ہے، کہیں یہ اعلان بھی نہ ہو جائے کہ اب کسی کو اِدھر سے اُدھر جانے نہیں دیا جائے گا۔۔۔ پھر خاکم بدہن گھروں کے دروازوں پر پہرے ہو جائیں کہ خبردار، یہاں مہمانوں کے آنے پر قدغن ہے۔۔۔!

دوسری طرف اہل 'ہجر و وصل' بھی شاکی ہیں کہ 'بے وفاؤں' کو تو بس 'کورونا' چاہیے تھا۔۔۔ وہ تو ہم سے ایسے ہاتھ چھڑا کے بھاگے ہیں کہ الامان الحفیظ۔۔۔! ارے، انہیں کوئی جا کے یہ تو بتائے کہ اب تک کسی احتیاطی تدبیر میں یہ تو نہیں کہا گیا کہ نظریں ملانے سے بھی 'کورونا' پھیل سکتا ہے، لیکن 'اِن' لوگوں کا یہ عالم ہے کہ 'کورونا' کے نام پر نگاہیں ملانے سے بھی گئے۔۔۔ ہو نہ ہو اہل ستم اس 'افواہ' کو ضرور پھیلائیں گے، تاکہ پھر کوئی ان ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ بہت سے 'اہل دل' یہ کہتے ہوئے دل تھامے بیٹھے ہیں کہ اب تو 'کورونا' کا بہانہ ہے، ورنہ یہاں جانے والے تو بہت پہلے ہی سے 'خوار کروناں' کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔۔۔

عجب عالم ہے صاحب، کسی سے بھی ہاتھ ملانے سے پہلے جھجھکنا پڑتا ہے کہ ہاتھ ملائیں یا نہ ملائیں۔۔۔ کہیں کوئی مصافحے کے بہ جائے مکّا بنا کر مخاطب کے مُکّے سے ملا رہا ہے، تو کوئی کہنی سے کہنیاں ٹکرا رہا ہے، تو کہیں پیر سے پیر ملائے جا رہے ہیں۔۔۔! ہم دو دن سے بشیر بدر کا یہ شعر 'خانہ پُری' میں لکھنے کے لیے ذہن میں دبائے بیٹھے تھے، مگر یار لوگوں نے اِس سے پہلے ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر 'الم نشرح' کر دیا ؎

کوئی ہا تھ بھی نہ ملائے گا، جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

بے شمار چیزیں ہیں جو اس 'وبا' کے حوالے سے سامنے آرہی ہیں، پہلے فاصلوں پر مر جانے کی دُہائی دی جاتی تھی، تو اب فاصلہ ختم ہونے پر 'ہتھیا' ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ حجاموں نے حجامت بنانے کے واسطے اپنے اوزار ڈنڈوں پر نصب کر دیے ہیں! ہمیں تو لگتا ہے کہ قربتوں پر قدغن ہونے سے ہم پر شاید یہ اہمیت آشکار ہو جائے کہ بہ حیثیت انسان یہ 'نزدیکیاں' کس قدر ضروری ہیں۔۔۔ مانا کہ آج ہر کام بہت دور سے اور گھر بیٹھے بھی ممکن ہے، لیکن اب بھی بہت کچھ اس طرح ممکن نہیں ہے۔۔۔ سوچیے تو ساری خوشی غمی، فساد، لڑائی جھگڑے، ان سب کا کس قدر انحصار 'ملنے' پر ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سارے 'ہنگامے' اِس 'ملنے' پر ہی تو موقوف ہیں، مگر اب جب تک 'کورونا' ہے تو سب پَرے پَرے رہنے پر مجبور ہیں۔۔۔ رہے نام اللہ کا!

۔۔۔

کیا علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلاآزاد کے درمیان کبھی ملاقات ہوئی؟
اعزاز احمد کیانی، راول پنڈی

اگر اسلامی تاریخ کے اس مخصوص عہد کو دیکھا جائے، جس عہد میں اقبال پیدا ہوئے، تو یہ بات بالکل بجا ہے کہ اس عہد میں اقبال سے بڑی شخصیت تو درکنار اقبال کے برابر کی بھی کوئی شخصیت نہیں پیدا ہوئی۔ اس پورے عہد میں ایک ہی ایسی شخصیت ہے، جو اقبال ہی کی طرح ہمہ جہت تھی اور اس کا اقبال سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کی تھی۔ ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال دونوں مشرق و مغرب کے علوم سے واقف ہمہ جہت شخصیتیں تھیں۔

دونوں بہ یک وقت مذہب و سائنس، تاریخ و فلسفہ، شعر و ادب اور سیاسیات و عمرانیات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ شخصیت کے اس اشتراک اور مماثلت کے باوجود دونوں حضرات میں واضح تفاوت موجود ہے۔ ابوالکلام اپنی تمام تر علمی قابلیت کے باوجود نہ کسی نئی فکر کے بانی ہوئے اور نہ اپنے پیچھے کوئی فلسفہ چھوڑا ہے۔

اس کے بر عکس اقبال نے انفرادی خودی سے اجتماعی خودی اور تصور پاکستان سے اسلام ریاست کا مجموعی نظم و نسق کیسے چلے گا تک ایک مربوط فکر اور فلسفہ چھوڑا ہے۔ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ شاید اقبال کے پیش نظر ایک خاص منصوبہ تھا، جس پر وہ پیہم مصروف کار تھے، جب کہ مولانا ابو الکلام کے پیش نظر کوئی خاص منصوبہ نہ تھا۔

شخصیت کے اس تفاوت کے ساتھ دونوں میں ایک قدر مشترک بھی ہے۔ اقبال اور آزاد دونوں اپنے اپنے میدان میں ایک نئے اسلوب کے موجد ہوئے۔ اقبال نے اردو شعری روایت کو تبدیل کیا تو ابوالکلام نے نثر میں اپنی 'طرح' کی بنیاد رکھی۔ اردو نثر میں اردو، عربی اور فارسی مقولات، امثال اور اشعار کا درست اور بر محل استعمال مولانا آزاد ہی کا خاصہ ہے۔

غالباً سجاد انصاری نے کہا تھا کہ اگر قران اردو زبان میں نازل ہوتا، تو اس کے لیے یا ابوالکلام کی نثر منتخب کی جاتی یا اقبال کی شاعری۔ ان دونوں شخصیتوں کے متعلق یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ دونوں ایک ہی ملک میں پیدا ہوئے اور ساری عمر وہیں بسر کی، دونوں کے سامنے مسائل بھی ایک ہی تھے اور دونوں کے مخاطبین بھی ایک ہی تھے، مگر دونوں کے مابین نہ کسی ملاقات کے شواہد ہیں اور نہ کسی خط و کتابت کے شواہد موجود ہیں۔ البتہ فرندِاقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں جس میں اقبال اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے، اس میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی موجود تھے۔

۔۔۔

والدین کی نذر۔۔۔!
فروہ حیدر، کراچی

والدین دنیا کی سب سے قیمتی تحفہ ہیں۔ 'والدین' کے 'و' میں وفا۔۔۔ 'الف' میں اخلاص۔۔۔ 'ل' میں لوری۔۔۔ 'د' میں دعا۔۔۔ 'ی' میں یادیں اور 'ن' میں نعمت ہے پنہاں! یہ ہنسیں تو لگے رقصاں ہیں تتلیاں۔۔۔ گر اداس ہوں تو جیسے شجر سے گرتی ہوں پتّیاں۔۔۔ دستِ شفقت، محبت اور وہ تھپکیاں۔۔۔ خدا کا عظیم تحفہ ہیں یہ ہستیاں۔۔۔ اپنا آپ مٹاکر سجاتے ہیں یہ بستیاں۔۔۔ والدین ہیں اولاد کے لیے ایک عظیم سائباں۔۔۔ نعم البدل ہے ان کا کوئی اور کہاں۔۔۔!

اے خدا ماں، باپ کی دعائیں سدا رہیں ہماری نگہباں۔۔۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
احتیاط
رضوان طاہر مبین
ایک جگہ کچھ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
''کیا آپ کو نہیں پتا کہ 'کورونا' وائرس کے خدشے کے سبب بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے؟''
میرے یہ کہتے ہی انہوں نے اپنے چہرے دوسری طرف کر لیے۔
میں نے اپنی بات دُہرائی، تو ان کا ایک چھوٹا بچہ بولا:
''ہم اپنے 'گھر' میں ہی تو ہیں۔۔۔
یہ دیکھیے، یہی تو میرا 'کمرا' ہے۔۔۔''
وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے فرش سے پتھر کنکر ہٹانے لگا، پھر بولا:
'میں روز یہیں کھیلتا تھا۔۔۔
پھر ایک دن ہتھوڑوں والے انکل آگئے اور بولے کہ یہ 'غیرقانونی' ہے۔۔۔!''

۔۔۔

سب یاد رکھا جائے گا۔۔۔!
ابراہیم یحییٰ، کہکشاں، کلفٹن

ایک ہندوستانی نوجوان عامر عزیز نے مودی سرکار کی حالیہ وحشت وبربریت پر ایک نعرۂ مستانہ بلند کیا ہے۔ جس میں انہوں نے ایک طرف وہاں کے سنگین حالات کی منظر کشی کی ہے، تو وہیں جدوجہد کرنے والے شہریوں کے عزم وحوصلے کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ظالموں کو للکارنے والے یہ الفاظ 'سب یاد رکھا جائے گا!' کے عنوان سے دنیا بھر کے سیاسی کارکنوں میں یہ بہت شوق سے پڑھے اور سنے جا رہے ہیں۔

سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

اور تمہاری لاٹھیوں اور گولیوں سے جو قتل ہوئے ہیں میرے یار سب

ان کی یاد میں دلوں کو برباد رکھا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

تم سیاہیوں سے جھوٹ لکھو گے ہمیں معلوم ہے

ہو ہمارے خون سے ہی ہو صحیح سچ ضرور لکھا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

موبائل ٹیلی فون انٹرنیٹ بھری دوپہر میں بند کرکے

سرد اندھیری رات میں پورے شہر کو نظربند کرکے

ہتھوڑیاں لے کر دفعتاً میرے گھر میں گھس آنا

میرا سر بدن، میری مختصر سی زندگی کو توڑ جانا!

میرے لخت جگر کو بیچ چوراہے پہ مار کر۔۔۔

یوں بے انداز جھنڈ میں کھڑے ہو کر تمہارا مسکرانا

سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

دن میں میٹھی میٹھی باتیں کرنا سامنے سے

'سب کچھ ٹھیک ہے' ہر زبان میں تتلانا

رات ہوتے ہی حق مانگ رہے لوگوں پر

لاٹھیاں چلانا، گولیاں چلانا

ہمی پہ حملہ کرنا، ہمی کو حملہ آور بتانا

سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

میں اپنی ہڈیوں پہ لکھ کے رکھوں گا یہ سارے واردات

تم جو مانگتے ہو مجھ سے میرے ہونے کے کاغذات

اپنی ہستی کا تم کو ثبوت ضرور دیا جائے گا

یہ جنگ تمہاری آخری سانس تک لڑا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

یہ بھی یاد رکھا جائے گا

کس کس طرح سے تم نے وطن کو توڑنے کی سازشیں کیں

یہ بھی یاد رکھا جائے گا

کس کس جتن سے ہم نے وطن کو جوڑنے کی خواہشیں کیں

یہ بھی یاد رکھا جائے گا

جب کبھی بھی ذکر آئے گا جہاں میں دورِ بزدلی کا

تمہارا کام یاد رکھا جائے گا

جب کبھی بھی ذکر آئے گا جہاں میں طورِ زندگی کا

ہمارا نام یاد رکھا جائے گا

کہ کچھ لوگ تھے جن کے ارادے ٹوٹے نہیں تھے لوہے کی ہتھوڑیوں سے

کہ کچھ لوگ تھے جن کے ضمیر بِکے نہیں تھے عزاداروں کی کوڑیوں سے

کہ کچھ لوگ تھے جو ڈٹے رہے تھے طوفانِ نوح کے گزر جانے کے بعد تک

کہ کچھ لوگ تھے جو زندہ رہے تھے اپنی موت کی خبر آنے کے بعد تک

بھلے بھول جائے پلک آنکھوں کو موندنا

بھلے بھول جائے زمین اپنی دوری پہ گھومنا

ہمارے کٹے پروں کی پرواز کو

ہمارے پھٹے گلوں کی آواز کو

یاد رکھا جائے گا

تم رات لکھو ہم چاند لکھیں گے

تم جیل میں ڈال دو، ہم دیوار پھاند لکھیں گے

تم 'ایف آئی آر لکھو' ہم ہیں تیار، لکھیں گے

یوں کرو تم ہمیں قتل کردو!

ہم بن کے بھوت لکھیں گے

تمہارے قتل کے سارے ثبوت لکھیں گے

تم عدالتوں سے بیٹھ کر چُٹکلے لکھو

ہم سڑکوں دیواروں پہ انصاف لکھیں گے

بہرے بھی سن لیں اتنی زور سے بولیں گے

اندھے بھی پڑھ لیں اتنا صاف لکھیں گے

تم کالا کنول لکھو

ہم لال گلاب لکھیں گے

تم زمیں پہ ظلم لکھ دو

آسمان پہ انقلاب لکھا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا

تاکہ تمہارے نام پر تاعمر لعنتیں بھیجی جا سکیں

تاکہ تمہارے مجسموں پر کالکیں تھوپی جا سکیں

تمہارے نام تمہارے مجسموں کو آباد رکھا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا۔۔۔!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں