کورونا سے سیالکوٹ تک

بہر حال کورونا کی وجہ سے ملکی حالات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے


Abdul Qadir Hassan March 21, 2020
[email protected]

KARACHI: ؤئ۷ےؤأ۰۹۸۷أورونا وائرس سے بچاؤ کی سرکاری کوششیں کسی حد تک جاری ہیں اور حکومت کی جانب سے عوام کو تسلیاں دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن جس طرح کی بھونڈی کوشش اعلیٰ ترین دفتر سے کی گئی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو تقریر نویس انتہائی خوشامد پسند ہیں جو صاحب کی مرضی اور حسب منشا صفحے کالے کر کے تقریر لکھ دیتے اور اپنے علمی و قلمی جوہر کو سلا دیتے ہیں یا پھر دوسری بات یہ ہے کہ صاحب ان کی سننا ہی نہیں چاہتے ۔سنتے ہیں کہ صاحب فی البدیہہ تقریر کے زیادہ شوقین ہیں جس کے دوران خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکل جائے جس کو بعد میں حذف کرانا مشکل ہو جاتا ہے ۔

بہر حال کورونا کی وجہ سے ملکی حالات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اومعلوم یہ ہو رہا ہے کہ اس سلسلے میں سرکار کے اقدامات تسلی بخش نہیں ہیں جس کی وجہ سے مخدوش حالات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ اس بات کا خدشہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ کورونا سے نپٹنے کی صلاحیت پاکستان کے پاس نہیں ہے اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ تیزی سے پھیلے گا لیکن ساتھ ہی انھوں نے قوم کو پیغام دیا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے ۔ عرض یہ کرنی تھی کہ حکمران قوم کے باپ کا درجہ رکھتا ہے اور اس کا کام اپنی اولاد کو حوصلہ دیناہوتا ہے نا کہ قوم کو مزید ڈرا دے جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم نے کیا ہے انھوں نے قوم کو خبردار کر دیا ہے کہ اگر ملک میں کورونا وائرس پھیل گیا تو پھر ''ساڈے تے نہ رہنا''۔

حالانکہ حکومتیں اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے چھوٹے موٹے اعلانات کرتی رہتی ہیں اور ایسے حربے اختیار کیے جاتے جس سے حکومت اور عوام کارشتہ برقرار رہے اور وہ حکومت کے ساتھ جڑے رہیں لیکن ہماری موجودہ حکومت شاید اس فن میں بھی کوری ہے۔ دنیا کی بہترین حکومتیں بھی اپنے عوام کو لبھانے کے لیے حد سے گزر جاتی ہیں اور اپنے ووٹروں کو پکا کرنے کے لیے کئی ایسے فلاحی منصوبوںکا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے جو عملاًممکن نہیں ہوتے لیکن حکومت کو چونکہ عوام کو حوصلہ دینا ہوتا ہے اس لیے ملک تو جیسے پہلے چل رہا ہوتا ہے بعد میں بھی ایسے ہی چلتا رہتا ہے لیکن ان خوش کن وعدوں سے عوام کا اعتماد حاصل کر لیا جاتا ہے ۔

ہمارے ہاں ہمیشہ سے کسی قدرتی آفت سے نبرد آزما ہونا ایک مشکل کام رہا ہے اور جب بھی ملک پر کوئی مشکل وقت آیا تو ہم سب یعنی عوام اور حکمران فوج کی جانب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ایسے ہر موقع پر فوج بھی فوراً اپنے ہم وطنوں کی مدد کو پہنچتی ہے اب بھی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وباء سے نپٹنے کے لیے عوام اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں تا کہ ہم سب مل جل کر اس قدرتی آفت سے نپٹ سکیں ۔

دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی جو خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے انھوں نے جس جذبے اور تندہی سے اس قدرتی آفت سے بچاؤ کے انتظامات کیے ہیں بلا شبہ وہ قابل تعریف ہیں اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ایک مدت کے بعد سندھ کو قابل وزیر اعلیٰ ملا ہے جس نے سندھ کے عوام کے لیے کام کیا ہے۔ سکھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کے گئے اسپتال اور اس میں انتظامات کو دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہ اندرون سندھ کا کوئی اسپتال ہے یا کسی ترقی یافتہ ملک کا ہے، ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کا سہرا مراد علی شاہ نے اپنے سر سجایا ہے اور دنیا بھر میں ان کی کاوشو ں کو سراہا جارہا ہے۔ انھوں نے پارٹی کو سندھ میں ازسرنوزندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔

کورونا کی خبروں سے بھرے ہوئے اخباروں کے ایک کونے میںایک چھوٹی سی خبر نظر سے گزری ہے کہ لاہور سے سیالکوٹ کے لیے موٹر وے مکمل ہو گئی ہے اور اس کو سفر کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس موٹر وے کا باقاعدہ افتتاح نہیں کیا گیا اس لیے معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کی افتتاحی تختی پر کس کا نام چمک رہا ہے ۔ ہمارے سابقہ حکمران سڑکیں بنانے کے شوقین تھے اور ملک میںموٹر وے کا جال بچھانے کا کریڈٹ شریف برادران کو دیا جاتا ہے ۔ سیالکوٹ سے لاہور تک وسیع موٹر وے کا منصوبہ بھی شریف برادران کے دور حکومت میں شروع کیا گیاحالانکہ اس کی منصوبہ بندی پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کی گئی تھی لیکن معلوم نہیں اس وقت اس کی تعمیر کیوں شروع نہ کی جا سکی البتہ نواز شریف کے دور حکومت میں اس منصوبے کی تعمیر کا آغاز ہوا اور موجودہ حکومت نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے اب اس موٹر وے پر ٹریفک رواں دواں ہے جس کی وجہ سے سیالکوٹ اور لاہور کے سفر کا دورانیہ صرف پچاس منٹ کا رہ گیا ہے ۔

مجھے سیالکوٹ بہت پسند ہے ملا عبدالحکیم سیالکوٹی، اقبال اور فیض کا یہ شہر ہم پاکستانیوں کو بہت عزیز ہے اور میرے کئی عزیز دوستوں کا بھی اس شہر سے تعلق ہے ۔ مجھے وسطی پنجاب کے شہروں اور سیالکوٹ پر فخر ہے ۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چند نازک و پیچیدہ اور خصوصی نوعیت کے آلات کو چھوڑ کر ایٹم بم تو شہر اقبال اور گوجرانوالہ کے خرادیئے بھی بنا سکتے ہیں غالباً کچھ سامان بنوایا بھی گیا جس کے بارے میں ان ہنرمندوں کو علم نہیں تھا کہ ان سے یہ کیا بنوایا جارہا ہے ۔ فن کی مہارت اور نزاکت کا یہی حال سیالکوٹ کا بھی ہے بلکہ بہت زیادہ ہے کہ یہاں سرجری اور کھیلوں کا سامان اتنے اعلیٰ معیار کا بنایا جاتا ہے کہ یورپ کے اسپتالوں اور کھیل کے میدانوں میں سیالکوٹ کا یہ ہنر مند دنیا کو چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے ۔ ایک چٹے ان پڑھ کاریگر کو ایک تصویر دکھائی گئی کہ یہ چیز بنانی ہے اور اس نے وہ بنا کر دکھا دی اور کارخانہ دار نے اسے یورپ میں فروخت کر دیا۔

میں نے ایک سرجن ڈاکٹر سے پوچھا کہ وہ سرجری میں کس ملک کے آلات استعمال کرتے ہیں تو اس نے ان ملکوں میں پاکستان کا نام بھی لیا اور بتایا کہ یہ آلات وہ یورپ سے امپورٹ کرتے ہیں اور یورپ کے جن کاروباری اداروں کے ساتھ سیالکوٹ کے کارخانوںکا معاہدہ ہے وہ یہ آلات پاکستان میں فروخت نہیں کرسکتے۔ سیالکوٹ کے صنعتی فنون لطیفہ کا ذکر بہت ضروری ہے اس وقت تو یہ عرض کرنا ہے کہ سیالکوٹ اب لاہور سے صرف پچاس منٹ کی دوری پر ہے لاہور کے اندر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے اس سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اب جب میرادل چاہے گا موٹرکار میں بیٹھ کر سیالکوٹ شاپنگ کرنے جا سکتا ہوں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں