اس خوف کا مقابلہ کریں
وزیراعظم صورتحال خود مانیٹر کر رہے ہیں
کورونا وائرس کا خوف پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ چند ماہ میں پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اب تک 6 ہزار افراد کو نگل گیا ہے۔ بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس کی وجہ سے دنیا میں خوف و ہراس کی ایسی فضا قائم ہو چکی ہے کہ ہر قسم کی انسانی نقل و حرکت رک کر رہ گئی ہے۔ پوری دنیا کو گویا بریک لگ چکی ہے۔ ایک ملک کے باشندے دوسرے ملک کا سفر نہیں کر سکتے۔ بعض ممالک میں تو ایک شہرکے لوگ دوسرے شہر میںبھی داخل نہیں ہو سکتے۔ کاروبار ٹھپ ہیں۔
کھیلوں کے میدان سنسان ہو چکے ہیں اور دنیا بھر کی انتظامی مشینری اپنے ضروری معاملات چھوڑ کر کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدبیریں ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ خوف لاحق ہو چکا ہے کہ کورونا وائرس دنیا کو بدترین قحط سے دوچار نہ کر دے۔ کورونا وائرس سے ہونے والا نقصان، اسٹاک مارکیٹ کے مسلسل انہدام کو شامل کر کے 15 ٹریلئین سے کراس کر چکا ہے۔ اس کا مالی نقصان پانچ سال جاری رہنے والی دوسری جنگ عظیم کے نقصانات سے بڑھ چکا ہے، جب کہ اس وائرس کو تو ابھی تین مہینے ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے وائرس کو عالمی وبا قرار دیا ہے۔ یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے کو کھانسی، چھینک، گندی جگہوں کو چھونے، ہاتھ ملانے اور پھر ان ہاتھوں سے اپنے چہرے، منہ اور ناک کو چھونے سے لگ سکتا ہے۔ اس سے لوگوں کو کھانسی ہوتی ہے، ٹھنڈ لگتی ہے، بخار اور سر درد ہوتا ہے اور سینے میں انفیکشن کی وجہ سے سانس پھولتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ اس انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 سے 24 دنوں پر محیط ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وائرس کی ویکسین تیارکرنے کے لیے 18 ماہ لگ سکتے ہیں، جب کہ سائنسدان بھی ویکسین کی تیاری اس سال کے آخر تک کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کا اینٹی بائیوٹک ادویات سے علاج ممکن نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی باضابطہ علاج سامنے آیا ہے۔ یہ ہلکے سے درمیانی درجے کے پھیپھڑوں کے انفکیشن کا باعث بنتا ہے۔ بڑی عمر کے افراد یا قوت مدافعت میں کمی سے یہ شدید نمونیا کی طرف جا سکتا ہے۔ یہ وائرس 2 فیصد مریضوں میں جان لیوا ثابت ہوا ہے اور 98 فیصد افراد اس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کورونا ایک خطرناک وائرس ہے، مگر کوئی مرض کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، احتیاطی تدابیر اختیارکرکے اس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، اگر اس کا خوف طاری کر لیا تومقابلہ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اگر کسی ہلکی سی بیماری کا خوف بھی خود پر طاری کر لیا جائے تو وہ بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ کورونا وائرس کا خوف خود پر سوار نہ کریں، ۔
اس وائرس کا علاج تو ابھی تک ممکن نہیں ہوا، لیکن طبی ماہرین کے مطابق یہ احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ دوسرے افراد سے ہاتھ ملانا چھوڑ دیں۔ گلے ملنے سے گریزکریں اور گفتگو کے دروان فاصلہ رکھیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال کریں۔ اپنے چہرے خصوصاً آنکھوں اور ناک کو بار بار چھونے سے گریزکریں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں۔ ہجوم میں جانے سے گریز کریں۔ اپنے ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھوئیں۔ بخار، تھکاوٹ، خشک کھانسی، ناک یا گلے میں سوجن کی صورت میں فورا معالج سے رابطہ کریں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر آپ انفیکشن کا شکار ہوں یا پھر وائرس کے شکار مریض کا خیال رکھ رہے ہوں تو ہی آپ کا ماسک پہننا ضروری ہے۔
یہ وائرس چین سے پھیلنا شروع ہوا ہے۔ چین کی معیشت پر اس کے سب سے زیادہ مضر اثرات پڑے ہیں۔ لیکن چین نے اس کا بھرپور مقابلہ کر کے اسے شکست دی ہے۔ وبا کے آغاز سے چینی حکومت نے لوگوں کی صحت سے متعلق بے مثال اقدامات کیے ہیں۔ دنیا چین کی حکمت عملی کی پیروی کر سکتی ہے۔ کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے چین نے اپنے وسائل تیزی سے استعمال کیے۔ 10 روز میں اسپتال تعمیر کر دیا۔
پورا ہوبائی صوبہ بند کر دیا اور عارضی صحت کے مراکز قائم کیے، تاکہ مریضوں کا جلد از جلد علاج ممکن ہو سکے۔ چین کی سرکاری کمپنی 'چائنہ گیزوبا گروپ نے پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں کی حفاظت کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے، تاکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود کمپنی کی کنسٹرکشن سائٹس اور دفاتر میں کام کرنے والے پاکستانی اور چینی اسٹاف کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔ اس ضمن میں تمام ملازمین کو حفاظتی کِٹس مہیا کی گئیں۔تمام اسٹاف ممبرز کی روزانہ کی بنیاد پر اسکریننگ لازمی قرار دی گئی۔ سخت حفاظتی اقدامات کے تحت لنچ بریک کے دوران اسٹاف ممبرز کے ہال میں جمع ہونے اور مہمانوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ دفتر میں باقاعدگی سے جراثیم کش اسپرے کیا گیا اور ملازمین کے لیے ماسک پہننا لازم قرار دیا گیا۔
لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ نظام تنفس کو خطرہ پہنچانے والے اس وائرس کی روک تھام کے لیے تیزی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ الحمدللہ اس وائرس نے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں زیادہ نقصان نہیں پہنچایا، لیکن پھر بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں کورونا وائرس کے تدارک کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔
وزیراعظم صورتحال خود مانیٹر کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس پر کمانڈ اینڈ کنٹرول سیل قائم کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر ملک بھر کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں، عدالتوں، شادی ہالز، ہر طرح کے اجتماعات اور سینما گھروں کو تین ہفتوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ بیشتر شہروں میں عوامی تفریحی مقامات، درگاہیں بند کر دی گئی ہیں اور پورے ملک میں مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد ٹرانزٹ ٹریڈ اور راہداری سمیت ہر طرح کی آمدورفت کے لیے بند کر دی گئی ہے۔