شاعری کی وجہ سے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے

غزل تادیر باقی رہنے والی صنف ہے، ہندوستان سے آئی ہوئی شاعرہ انا دہلوی کے ساتھ ایک بیٹھک


ہندوستان میں والدین توجہ دیں تو بچے اردو سے دور نہ ہوں، میری ہندی کتب زیادہ پڑھی جاتی ہیں

'ساکنان شہر قائد' کے عالمی مشاعرے کا منچ اگر ہندوستانی شعرا سے نہ سجتا، تو بہت سُونا رہ جاتا۔۔۔ چوں کہ دونوں ممالک کے تعلقات پھر سے کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔۔۔ اور اسی سبب اہل فن وادب کی آمدورفت بھی متاثر ہو رہی ہے، لہٰذا باذوق سامعین نہایت اضطرابی سے ہندوستانی مہمانوں کے منتظر تھے، غیر یقینی کی یہ صورت حال اُس وقت تک رہی، جب تک یہ مہمان کراچی پہنچ نہ گئے۔ انہی شعرا میں ایک نام 'انا دہلوی' کا تھا۔۔۔ ہم نے اِن کے کراچی میں موجودگی کو غنیمت جانا اور ''شخصیت'' کی بیٹھک اِن کے نام کی۔

انا دہلوی کا اصل نام روبینہ خان ہے۔ آنکھ ننھیالی شہر علی گڑھ میں کھولی، ددھیال لکھنؤ سے ہے۔ بچپن میں ہی والدہ کے ہم راہ دلی آگئیں، شاعری کو ننھیال کا ورثہ قرار دیتی ہیں۔ اِن کے ماموں اور والدہ وغیرہ شوقیہ اشعار کہتے تھے، لیکن مشاعروں میں کبھی نہیں گئے۔ انا دہلوی بھی بچپن سے ہی تک بندی کر لیتی تھیں، والدہ نے ان کے رجحان کو دیکھا تو کتابیں لاکر دیں۔ کہتی ہیں کہ ''12 سال کی عمر میں 1988ء میں اوڑئی (اتر پردیش) میں پہلی بار مشاعرہ پڑھا، جس کے 200 روپے طے ہوئے۔'' شروعات سے ہی انہوں نے شاعری کو پیشے کے طور پر اپنایا، کیوںکہ والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا، والدہ اسکول میں تدریس سے وابستہ تھیں، لیکن اب بیمار تھیں اور بھائی چھوٹا تھا۔ پہلے مشاعرے میں اُن کی آمدورفت وغیرہ کے اخراجات کا خیال رکھتے ہوئے 400 روپے دیے گئے۔ یہ اُس زمانے میں اُن کے لیے خاصی بڑی رقم تھی۔ مشاعروں میں عموماً نذرانہ سو روپے تھا، جو صرف اچھے شاعروں کو دیا جاتا۔ اُس وقت کی اپنی شاعری کے بارے میں انا کہتی ہیں کہ اُس وقت بچپنے والی بہت ہلکی شاعری تھی۔

کہتی ہیں کہ گھر کی سب سے بڑی اولاد ہوں، میری اتنی بساط نہیں تھی کہ گھر چلا سکوں، لیکن اللہ کا کرم تھا کہ یہ ذمہ داری ادا ہوئی۔ اپنی شاعری کی وجہ سے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ آسان زبان برتنے یک سبب اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں پسند کی جاتی ہوں، تو ہم سے بھی رہا نہ گیا اور بے ساختہ استفسار کیا کہ کیا آپ اردو اور ہندی کو الگ الگ زبانیں خیال کرتی ہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا بالکل، اردو میں لفظ، ہندی میں شبد ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں اردو اور ہندی کو دو بہنیں کہا جاتا ہے۔ وہاں کی سرکاری زبان تو ہندی ہے، لیکن اردو کے بغیر اُن کا گزارا نہیں۔ غزل، گائیکی سے عام فہم زبان، فلمیں اور بول چال تک میں اردو کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اردو ایک الگ تہذیب ہے، جس سے ادب آداب اور سلیقہ آتا ہے۔ لکھنے کو تو ہندی میں بھی شادی کو 'سادی' لکھ دیا جاتا ہے، ہے لیکن ہندی میں اگر لفظ میں ذرا سا بھی فرق ہو جائے، تو اس کی خوب صورتی ختم ہو جاتی ہے۔

انا دہلوی نے ابتدائی تعلیم دلی میں حاصل کی، کالج کے مراحل کان پور میں طے کیے۔ آٹھویں اور نویں جماعت اتر پردیش کے پُروا نامی قصبے میں پڑھی، جہاں رشتے کی نانی رہتی تھیں۔ باقاعدہ تعلیم انٹر تک حاصل کی۔ اس کے بعد کے تعلیمی مراحل پرائیوٹ طالب علم کے طور پر علی گڑھ سے طے کر رہی ہیں، کیوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔ چھوٹے بھائی اقبال خان علی گڑھ میں ہی ایک سرکاری محکمے سے منسلک ہیں۔ دادا علی گڑھ کی جانی پہچانی شخصیت تھے۔ والد کاروبار سے وابستہ تھے۔ والد چوں کہ یوسف زئی تھے، اس اعتبار سے خود کو پٹھان کہتی ہیں۔

تخلص انا رکھنے کا سبب انفرادیت قرار دیا۔ ان کے لیے کمال جیسی نے کئی نام تجویز کیے تھے، انا اُن میں تھلگ دکھائی دیا، سو یہ نام اپنا لیا اور دہلی میں رہنے کی بنا پر انا دہلوی کہلائیں اور پہلا مشاعرہ اسی نام سے پڑھا۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اُن کے ایک انکل ڈاکٹر اظہار عالم شعر کہتے تھے، انہوں نے کمال صاحب سے خیال ظاہر کیا کہ انا مشاعرہ پڑھیں گی، تو گھر کے اخراجات پورے ہو جایا کریں گے، کمال جیسی نے انا دہلوی سے کلام سنانے کو کہا اور پھر نصیر نادان صاحب انہیں مشاعرہ پڑھوانے کے لیے لے گئے۔

انا دہلوی کہتی ہیں کہ ہندوستان میں زیادہ تر لوگ اردو کم پڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور اُن کا ہندی بیٹھکوں میں بھی جانا رہتا ہے، یوں ہندی حلقوں میں بھی اُن کے پرستار موجود ہیں ۔جب انا دہلوی سے یہ پوچھا کہ کیا وہ اپنی اردو کتب کے ہندی اور ہندی کتب کے اردو ایڈیشن شایع کرتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ کچھ کلام ضرور نقل کرلیتی ہوں، لیکن باقی سارا کلام طبع زاد ہوتا ہے، کیوں کہ قارئین کو نیا کلام بھی تو ملنا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہی کتاب دوبارہ چھاپ دی جائے۔

انا دہلوی نے مختلف ٹی وی چینلوں پر اردو اور ہندی پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔ سرکاری ٹی وی 'نیشنل' میں رہیں، کہتی ہیں 'جب لوگ یہاں جانے کے خواب دیکھا کرتے تھے، تب وہ 20 برس اس سے منسلک رہیں اور پروگرام 'اردو بزم' کی میزبانی کی۔ 'ای اردو' میں بھی خدمات انجام دیں، 'زی سلام' سے بطور میزبان جڑی رہیں اور ہندی پروگرام ''واہ واہ کیابات ہے'' کیا، لیکن اب ٹی وی کے لیے وقت نہیں ملتا۔

ہندوستان میں ارود کے مستقبل کے سوال پر انا دہلوی بے ساختہ اطمینان کا اظہار کرتی ہیں کہ ''اللہ کا کرم ہے۔'' انہوں نے بتایا کہ کیرالہ اور تامل ناڈو جیسے اردو سے پرے سمجھے جانے والے علاقوں کے غیر مسلم طالب علم بھی غالب اکیڈمی (دلی) میں اردو لکھنا پڑھنا سیکھ رہے ہیں۔

انا دہلوی کہتی ہیں ماضی میں اردو ہندوستان کی عدالت اور کچہریوں میں راجتی رہی، جواہر لعل نہرو اور پھر اندرا گاندھی کے زمانے میں اردو کو نظراندازکیا گیا، پھر بی جے پی اقتدار میں آئی، تو ہندی کو اور بڑھاوا دیا گیا۔ انا کے بقول ہندوستان میں لوگ اردو گھروں میں اور قرآن کی تعلیم سے سیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی انگریزی کا زور ہے۔ اگر آج ہندوستان کے بچے اردو سے دور ہو رہے ہیں، تو انا دہلوی اس میں گھر والوں کی غفلت کو دوش دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ مختلف زبانیں سیکھنے میں کوئی برائی نہیں، جتنی زبانیں آئیں، اتنا اچھا ہوگا۔ انا دہلوی کا خیال ہے کہ اگر صرف پانچ جماعتیں ٹھیک سے اردو پڑھا دی جائے، تو بچے کو زبان آجائے گی۔ علی گڑھ میں پڑھنے والے بچے اردو اور سلیقہ سیکھتے ہیں۔

ہم نے جب اس بابت استفسار کیا کہ کہا جاتا ہے کہ آج ہندوستان میں اردو کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ لکھنؤ جیسے شہر میں لفظ مسجد تک ہندی رسم الخط میں لکھا جانے لگا ہے۔ تو انہوں نے اس سے قطعی لاعلمی ظاہر کی اورکہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایسا ہے، کیوں کہ دین کا معاملہ تو خالص عربی و فارسی اور دین کے شناوروں کے سپرد ہے۔ ہندوستان میں اردو کے مشاعرے میں اگر ہندی زبان کا بینر آویزاں ہوگا، تو اس کے ساتھ اردو میں بھی لازمی درج ہوا ہوگا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ کیفی اعظمی جیسے شاعر کی بیٹی ہونے کے باوجود شبانہ اعظمی اپنے مکالمے رومن میں لکھ کر یاد کرتی ہیں، تو انہوںنے اس بات سے لاعلمی ظاہر کی۔

''اردو یا ہندی کتب میں سے کون سی زیادہ فروخت ہوتی ہیں؟'' تو اُن کا جواب تھا کہ اپنی کتابیں بیچتی نہیں، چناں چہ سوال یوں کیا کہ دونوں میں سے کون سی زیادہ شایع ہوتی ہیں؟ تو بتایا کہ ''ہندی کی کتابیں باقی نہیں بچتیں، جب کہ اردو کی کچھ رہ جاتی ہیں۔''

انا دہلوی شعر وسخن کے اس سفر کے باوجود خود کو ایک ادنیٰ شاعرہ تصور کرتی ہیں کہ ہم تو اپنے بزرگوں کو شعر نذر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ شعر نذر تو اپنے برابر والوں کو کیا جاتا ہے، ہم تو بڑوں سے صرف دعائیں لیتے ہیں، بڑوں کے برابر میں بھی بیٹھنے کی جرأت نہیں کرتے، وہ بلاتے ہیںکہ آؤ اِدھر بیٹھو۔ بٹوارے اور ہجرت کا موضوع چِھِڑا تو بتایا کہ بہت سے رشتے داروں نے اِس نگری کُوچ کیا، جس میں ان کے مرحوم ماموں بھی شامل تھے، جب کہ انا دہلوی کی نانی نے ہجرت نہیں کی کہ 'اپنی سرزمین چھوڑنے کی ہماری تو ہمت ہی نہ ہوئی۔' انا کے بزرگ کہتے تھے کہ مر جائیں گے، مگر اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے۔

انا دہلوی کا خیال ہے کہ غزل تادیر زندہ رہنے والی صنف ہے۔ اسی لیے انہوں نے وقتی شاعری کے بہ جائے غزل میں زیادہ طبع آزمائی کی۔ کہتی ہیں کہ گیت، قطعات اور دیش کے واسطے بہت لکھا، لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ وقتی نوعیت کے موضوعات ہیں۔ ہندوستان میں گجرات اور ممبئی کے لسانی مسئلے پر شاعری لکھی گئی، لیکن یہ موضوعات کتنے دن کے تھے، مگر غزل زندہ رہے گی، جیسے غالب کی غزل آج بھی تازہ ہے۔ اشعار کی آمد ہو تو رات، آنکھوں میںگزرتی ہے، جس پر والدہ کی ڈانٹ بھی پڑتی ہے۔ غالب و میر کی دل دادہ ہیں، اس کے بعد بشیر بدر پسندیدہ شاعر ہیں۔

مشاعروں کے آغاز میں انہوں نے کئی بار نعت پیش کی ہے، لیکن مشاعروں میں درمیان میں نعتیہ شاعری پڑھنے کو وہ بے ادبی تصور کرتی ہیں کہ 'اس موقع پر احترام کا تقاضا یہ ہے کہ باوضو اور باادب ہو کر بیٹھا جائے، مگر بہت سے شاعر جوتیاں بھی نہیں اتارتے اور نعتیں پڑھنے لگتے ہیں، یہ درست نہیں۔ کہتی ہیں کہ رب نے اپنے لیے 'تو' کا لفظ استعمال کیا ہے جب کہ اپنے محبوب کے لیے' 'آپ' کہا ہے۔'

انا دہلوی بتاتی ہیں کہ 15 سال پہلے کراچی آئی، تو اخبار میں ایک مسجد میں خودکُش بم دھماکے کی خبر تھی، جس کی وجہ سے عالمی مشاعرہ تین روز کے لیے موخر ہوا۔ انہیں افسوس ہے کہ یہاں سب مسلمان ہیں، لیکن ان میں اتحاد کی کمی ہے، تب ہی مسائل ہیں۔ کہتی ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان میں بہت ایکا ہے اور ان کے نماز روزے پر کوئی پابندی نہیں۔ ہندوستان کا عام ہندو معتدل ہے۔ صرف 'آر ایس ایس' سے جڑے ہوئے لوگ ہی کٹّر ہیں۔'

انا دہلوی اب باورچی خانے سے لے کر خانہ داری تک تمام امور خوب نمٹا لیتی ہیں، اگرچہ گھر میں ملازمہ بھی ہے۔ شادی سے پہلے ایسا نہیں تھا اور چائے بھی انہیں بیٹھے بیٹھے ملتی تھی۔ رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد شوہر کی خواہش تھی کہ ہنڈیا روٹی وہ خود کریں، چناں چہ 6 جنوری 2008ء کو اپنی نئی زندگی شروع کی تو سرتاج کی یہ منشا بھی نبھائی۔ شریک حیات نے انہیں ایک مشاعرے میں پسند کر کے شادی کی پیش کش کی تھی، یوں تو وہ انجینئر تھے، لیکن انا دہلوی کہتی ہیں کہ میں نے انہیں بھی ''شاعر'' بنا دیا۔ انہیں مشاعروں میں اپنا کلام پڑھنے کے لیے دیتی، ان کے نام سے کلام کا مجموعہ بھی شایع ہوا، انہیں ایوارڈ بھی ملا، لیکن شاید وہ میری شناخت اور پہچان سے ہی زیادہ دل چسپی رکھتے تھے۔ پھر تلخیوں نے بڑھتے بڑھتے فاصلوں کی صورت اختیار کر لی اورنتیجہ علیحدگی کی صورت میں نکلا۔'

انا دہلوی ہندوستان، پاکستان اور بنگلا دیش کے عوام کے آزادانہ میل جول کی پرزور حامی ہیں، انہیں لگتا ہے کہ حالات شروع سے برصغیر کے عوام کی مرضی کے خلاف چلے آرہے ہیں اور انتہا پسند آج تک دشمنی کے الاؤ پر اپنے مفادات کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ اگر پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش ایک ملک ہوتے تو دنیا بھر میں کوئی ہماری ہم سری نہیں کر سکتا تھا۔ انا دہلوی کہتی ہیں کہ گھر کی محبت تو فطری ہوتی ہے۔ ہندوستان سے یہاں آنے والے بھی اپنے پرکھوں کی زمین کو نہیں بھلا سکے۔ ان کی والدہ پاکستان کا پھیرا لگانے کے لیے روتی رہتی ہیں، لیکن ان کا پاسپورٹ زائد المیعاد ہو چکا ہے۔

نئی فلمیں پسند نہیں، پرانی فلمیں دیکھتی ہیں کہ ان کی زبان، کہانی، موسیقی اور گیت عمدہ ہوتے تھے۔ دلیپ کمار، مدھو بالا، شبانہ اعظمی کی کلاکاری دل لبھاتی ہے، لتا منگیشکر، محمد رفیع اور کشور کمار کی گائیکی کی معترف ہیں۔ آتا جاڑا اور جاتی سردی پسند ہے۔ شہروں میں دلی کے علاوہ بنگلور بھاتا ہے۔ پاکستان میں صرف کراچی اور حیدرآباد ہی دیکھا ہے۔ کتابیں شاعری کی ہی زیادہ پسند ہیں۔

٭''محبت لے کے آئی ہوں، محبت لے کے جاؤں گی''



انا دہلوی کہتی ہیں کہ شاعر تو لوگوں کو بانٹنے کا کام کر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے وہ بھی نفرتیں مٹانا چاہتی ہیں۔ پاکستان آنے کے لیے شدید اصرار تھا اور خود ان کی بھی خواہش تھی، کیوں کہ انہیں یہاں آکر بہت خوشی ہوتی ہے۔ انا دہلوی کہتی ہیں کہ ''مجھے تو ہندوستان میں پاکستان اور پاکستان میں ہندوستان محسوس ہوتا ہے۔'' کراچی میں 'ساکنان شہر قائد' کے عالمی مشاعرے میں انہوں نے برجستہ یہ چار مصرعے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھی کہے؎

عقیدت کی طلب ہم کو، عقیدت لے کے جاؤں گی
کراچی تیری گلیوں سے یہ دولت لے کے جاؤں گی
سمندر میں چلو ہم پھینک آتے ہیں عداوت کو
محبت لے کے آئی ہوں، محبت لے کے جاؤں گی

۔۔۔

٭اردو اور ہندی کی پانچ کتب شایع ہو چکیں



اب تک انا دہلوی کی کُل پانچ کتب شایع ہو چکی ہیں، جس میں تین ہندی، جب کہ دو اردو کی ہیں۔ 1996ء میں پہلی کتاب ''رنگ انا'' (اردو) آئی، جس کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں عمرے کی سعادت بھی حاصل کی، پھر امریکا اورخلیجی سمیت مختلف یورپی ممالک کے چکر لگے، کئی جگہوں کے دو، تین سے زائد پھیرے لگے۔ پہلی کتاب منصۂ شہود پر آنے کے تقریباً دو سال بعد دوسرا مجموعہ ''موسم پیلے پھولوں کا' اور پھر تیسری تصنیف ''پہچان'' ہندی میں شایع ہوئی۔ چوتھی کتاب تین برس قبل''اُس کے نام کی آدھی زندگی'' اردو میں جب کہ پانچویں کتاب ''تم بِن'' ہندی میں منظر عام پر آئی۔ اب ان کی چھٹی کتاب بہ عنوان ''پہچان'' آنے کو ہے، جو اردو زبان میں ہے۔ یہ انہیں اپنی تمام تصانیف میں سب سے زیادہ پسند ہے۔

۔۔۔

٭کراچی پچھڑتا ہوا لگا!

''15 برس بعد کراچی آئیں تو کیسا لگا؟'' اس سوال پر انا دہلوی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ 'انہیں تو کراچی پچھڑتا ہوا لگا، پہلے ایسا نہ تھا۔ انہیں لگتا ہے کہ یہاں ترقی نہیں ہو رہی، پندرہ برس بعد تو کراچی میں بہت زیادہ فرق آنا چاہیے تھا، جو دکھائی نہیں دیتا، جب کہ انہیں لگتا ہے کہ اس عرصے میں دلی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ کہتی ہیں کہ پاکستان ابھی زیادہ نہیں گھومیں، لیکن ہوٹل کا ایک ملازم جو پنجاب سے ہے، کہہ رہا تھا کہ پنجاب دیکھیں گی تو آپ کو لگے گا کہ آپ پاکستان سے باہر ہیں۔

۔۔۔

٭''اب آگے مودی کیا کرے گا؟''

ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے انا دہلوی کہتی ہیں کہ وہ کم ضرور ہیں، مگر کم زور نہیں، کسی سے دبنے اور ڈرنے کا بھی سوال نہیں۔ وہاں کا مسلمان اسلام کے لیے جان دے بھی سکتا ہے اور لے بھی سکتا ہے۔ جب ان سے آج ہندوستانی مسلمان کے بڑے مسئلے کا سوال کیا تو کہا ''اب آگے مودی کیا کرے گا؟'' بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت کے بعد یو پی اور دیگر ریاستوں کے مقامی چناؤ میں کام یابی کے سوال پر انا دہلوی نے کہا کہ مودی سرکار نے کسانوں اور عام لوگوں کو لالچ دے کر جتوایا ہے۔ انا کا خیال ہے کہ چناؤ میں جس کی ہوا چل جائے، تو بس وہی جیتتا ہے۔ آج نریندر مودی وزیراعظم ہیں، لیکن اگر انہوں نے کام نہ کیے، تو پھر ان کے ساتھ 'کچھ بھی' ہو سکتا ہے۔ ہندوستان کے نڈر عوام چناؤ میں خوب محاسبہ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں موہن داس گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی تک، کسی کو بھی مسلمان نے نہیں مارا۔ انا دہلوی سیاسی طور پر وہ خود کو 'کانگریس' کے قریب سمجھتی ہیں۔ دلی میں 'عام آدمی پارٹی' کے اروند کیجریوال کی فتح کو وہ پرانی سیاسی جماعتوں سے ناپسندیدگی کا نتیجہ قرار دیتی ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ناتجربے کاری کی بنا پر کیجریوال کے ٹھیک سے کام کرنے میں رکاوٹیں آرہی ہیں، سابق وزیراعلیٰ دلی شیلا ڈکشت اس دشت کی جانی مانی تھیں، اس لیے انہوں نے وہاں بہت کام کرائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں