’’مقابلہ‘‘
کورونا اپنی تمام تر تباہیوں اور اندیشوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا درد بانٹنے اور ہر حال میں مسکرانے کا جودرس دے رہاہے۔
TURBAT:
دنیا بھر سے آنے والی خبروں سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ اس وقت ہر قوم اور ہر ملک مل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنا رہے ہیں بلکہ اپنے لوگوں کو اس سے لڑنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
اس جنگ کو ہر طرح کے اختلافات سے اوپر اُٹھ کر لڑنے کی ضرورت ہے کہ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم باقی کی ساری دنیا سے مل کر اس آفت کا مقابلہ کرسکتے ہیں، سو اس وقت اپنی حکومت اور دوست ملکوں کے ساتھ ساتھ نریندر مودی ، صدر ٹرمپ اور اسرائیلی حکومت کے کسی نمایندے کی بات بھی دھیان سے سننی چاہیے کہ یہ معاملہ میرا یا تمہارا نہیں بلکہ ''ہمارا'' ہے۔
یہ خطرہ دنیا کی سات ارب سے زیادہ آبادی کے لیے ایک جیسا سنگین ہے، بلاشبہ سائنس،ٹیکنالوجی اور معیشت کے اعتبار سے مضبوط اور ترقی یافتہ ممالک بہتر حفاظتی تدابیر اختیا ر کرنے کی پوزیشن میں ہیں، اسی وجہ سے اُن کی ذمے داری میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اُمید کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی اس ذمے داری کو نبھانے کی کوشش کریں گے ۔
پچھلے دنوں میں نے عمران خان ، نریندر مودی ، طیب اردوان، ڈونلڈ ٹرمپ اور جسٹین ٹروڈوسمیت بہت سے ملکوں کے سربراہوں کی تقریریں سنی ہیں، ہر ایک نے احتیاطی تدابیر کی پابندی کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ سب سے زیادہ ضروری بات حوصلے ا ور ہمت کو برقرار رکھنے کی ہے کہ ایسا نہ کیا تو ہم اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کا راستہ صاف کرنیوالوں کی صف میں شامل ہوجائینگے ۔ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ ہر حکومت اپنے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
ابھی ابھی میں ڈونلڈٹرمپ کی ایک پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا جس میں کچھ لوگ اس کے پیچھے متوجہ اور مودّب کھڑے تھے یہاں تک تو یہ منظر بہت عام اور دیکھا بھالا تھا مگر دل کو چھونے والی بات یہ تھی کہ جب ٹرمپ کورونا کے بارے میں اپنی بات ختم کرکے پیچھے ہٹا تو اس کے بعد اس موضوع سے متعلق چار نمایندہ لوگوں نے اپنے کام کی بریفنگ دی اور اس سارے عرصے کے دوران ٹرمپ انھی کی طرح خاموش ، متوجہ اور مودّب کھڑا رہا ۔
میری رائے کبھی اس آدمی کے بارے میں اچھی نہیں رہی لیکن ایک سنجیدہ قومی مسئلے کے حوالے سے اُس نے جس سنجیدگی اور تہذیب کا مظاہرہ کیا، اُس پر بھی حیرت یوں ہوئی کہ اس کے ساتھ ''خوشگوار'' کا اضافہ بھی ہوگیا ا سی طرح بھارتی وزیراعظم نے 22 مارچ کو لگائے جانے والے جنتا کرفیو کے بارے میں جس طرح سے بات کی اور اس روز شام کے پانچ بجے پانچ منٹ تک پوری قوم کو اُن ڈاکٹروں ، معاون عملے اوراس ابتلا میں کام کرنے والوں سرکاری ملازمین اور دیگر لوگوں کی تنظیم اور تحسین کا درس دیا، وہ بہت ہی عمدہ اور قابلِ تعریف بات تھی بلاشبہ جو لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس وائرس سے متاثرہ لوگوں کی خدمت او ر اُن کا علا ج کرر ہے ہیں، وہ بے حد تعریف اور حوصلے کے ساتھ ساتھ اس بات کے بھی حقدارہیں کہ انھیں ہر وہ حفاظتی سامان مہیا کیا جائے جس کی انھیں ضرورت پڑسکتی ہے۔
عمران خان اور دیگر سرکاری نمایندوں کو بھی چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کے ساتھ ہونے والی ماضی کے جھگڑوں اور مسائل کو ایک طرف رکھ کر نہ صرف خود ان کے ساتھ کھڑے ہوں بلکہ عوام کی طرف سے بھی اُن کو شکر گزاری ، احسان مندی اور محبت کا پیغام دیں کہ اس طرح سے اُن کا دل اور کارکردگی دونوں بڑھیں گے ۔
دوسری اور بہت اہم بات یہ ہے کہ کس طرح کے لاک ڈائون یا دیگر بندشوں کے باعث جو لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے اُن کی مدد کے لیے کوئی ایسی پالیسی وضع کی جائے کہ جس میں ملک کا معاشی اعتبار سے ہر باوسیلہ شخص جو رضا کارانہ طور پر شامل ہو، یہ صورتِ حال ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ اگر بلدیاتی نظام اس وقت موجود اور برسرِ عمل ہوتا تو اس مہم کو بہت آسانی اور کامیابی سے چلایا جاسکتا تھا کہ کسی مخصوص اور محدود علاقے میں کسی قسم کی متوقع گڑبڑ یا بے ایمانی پر نسبتاً آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے لیکن یہ وقت چونکہ کسی قسم کی بحث میں پڑنے کا نہیں اس لیے ضرور ی ہے کہ مطلوبہ وسائل کے اندر رہ کر کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ اس طرح سے بے روزگار ہونے والے اور کم وسیلہ لوگوں کو دیوار سے نہ لگایا جائے اور باعزت اور شفاف طریقوں سے اُن کی ممکنہ مدد کی جائے اور اُس صورتِ حال سے بچا جائے جس میں شاعر کو یہ کہنا پڑا تھا ۔
''مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے اور بھوک تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی۔''
Social Distancing یعنی معاشرتی علیحدگی یا فاصلے کے ضمن میں بھی ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا تعلق جسمانی فاصلے تک محدود رہے اور یہ فاصلہ جذبات میں پیدا نہ ہو بلکہ دیکھا جائے تو یہ وقت ہے جب ہم جذباتی فاصلوں کو کم اور ایسے بہت سے رشتوں کی تجدید کرسکتے ہیں جو دنیا کی بھیڑ میں یا تو ٹوٹ پھوٹ رہے تھے یا نہ چاہتے ہوئے بھی نظر انداز ہو رہے تھے کہ ہم جسمانی طور پر دور رہتے ہوئے بھی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے دوسرے لوگوں سے قریب تر ہوسکتے ہیں کہ یہ وائرس کم از کم اس سے ہمیں نہیں روکتا۔ فیس بُک پر بہت سے اداروں کی طرح اس طرح کے اعلانات دیکھنے میں آرہے ہیں کہ وہ روزانہ ایک بہت بڑی تعدادمیں لوگوں کو کھانا کھلائیں گے، انفرادی سطح پر بھی بہت سے لوگ اس کا اہتمام کر رہے ہیں، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ یہ کام متعلقہ سرکاری اداروں کے تعاون سے مل کر کیا جائے تاکہ اس کا اثر زیادہ اور بے قدری یا زیاں کم سے کم ہو۔
کسی ضرورت مند کی ہر وقت مدد ہی اصل میں انسانیت اور تہذیب کا اصل مقصد ہے جو ہمیں دیگر جانداروں سے ممتاز اور ممیزکرتا ہے۔ بشریات کی ماہر مارگریٹ میڈکی یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انسان کے مہذب اور معاشرتی جانور ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب اُس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹتی ہے تو اُس کے ساتھی اُس کا علاج اور مرمت کرکے اُسے دوبارہ صحت مند زندگی گزارنے کے قابل بناتے ہیں جب کہ دیگر جانور اپنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کی وجہ سے جیتے جی مرجاتے ہیں۔ کورونا کے حملے میں بھی بنی نوع انسان کو اسی اصول کے تحت اجتماعی طور پر اپنے آپ کو جوڑ کر رکھنا ہوگا۔
سو آیئے کورونا سے بچائو ، اس کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل اور اس کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ہر اُس شخص کی بھی توقیر اور تحسین کریں جو کسی نہ کسی طرح سے اس ضمن میں اپنا فرض نبھا رہا ہے اور حوصلے اور اُمید کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اس مشکل منزل کو طے کریں کہ یہ ویکسین کی طرح سے اُس ویکسین سے کم نہیں جو تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد اس مرض کے شافی علاج کی طرح سامنے آئے گی۔
کورونا اپنی تمام تر تباہیوں اور اندیشوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا درد بانٹنے اور ہر حال میں مسکرانے کا جو درس دے رہا ہے، آیئے اس راستے کو اپنائیں ایک ہاتھ میں دعا اور دوسرے میں دوا کو لے کر اس میدانِ جنگ میں اُتریں اور یاد رکھیں کہ رب کریم اپنی صبر اور شکر کرنے والی مخلوق کو کبھی کسی ایسے امتحان میں نہیں ڈالتا جس کا وہ مقابلہ نہ کرسکے اور جس میں وہ بالآخر کامیاب نہ ہو۔