قومی یکجہتی
ضروت اس امر کی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت یک جان ہو کر حکومت کا ساتھ دے تا کہ حکومت یکسوئی سے اس عفریت کا مقابلہ کر سکے۔
ہمارے شاعر حضرات بھی نجانے کب کس موڈ میں ہوتے ہیں کہ کوئی ایسی بات کر جاتے ہیں جو دل کے قریب ہوتی ہے، ایک شاعر کے بقول مجنوں کو صرف دو ہی عذاب لاحق تھے، ایک لیلیٰ کے وصال کا دوسرا اس کے ہجر کا۔ ایک اردو شاعر نے بھی جو اپنی بے تکی اور مزاحیہ شاعری کی وجہ سے مشہور تھا، یہی بات کہی ہے۔ اس نے جب محبوب کا تصور کیا تو اس کا سارا مزاح اور بے تکا پن جاتا رہا ۔استاد امام دین گجراتی نے کہا کہ
دوہی گھڑیاں عمر بھر میں مجھ پر گزری تھیںکٹھن
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
لیکن افسوس اس بات کا ہے، آج کل کے ترقی یافتہ دور میں کسی شاعر کو ہماری حکومت کا حال بیان کرنے کی تحریک نہیں ہوئی حالانکہ اس پر ایک نہیں کئی عذاب گزر رہے ہیں ۔ یہ عذاب کسی نے لاحق نہیں کیے بلکہ یہ اس حکومت نے خود بڑی محنت کے بعد اپنے آپ کو لگائے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ایک سرکاری ادارہ اگر حکومت کی بات مانتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی حکومت کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور جو ادارہ نہیں مانتا وہ تو مخالف اقدام کرتا ہی ہے ۔ نیب جس کا رعب داب بڑے سے بڑے حکمران سے بھی زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے ،کئی ایسے معاملات کو ہاتھ میں لینے کے بعد ان میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے حکومت کے احتساب کے عمل کوشدید جھٹکا لگا ہے۔
آٹے اور چینی کے بحران کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے وزیر اعظم نے ان کی سرکوبی کے لیے جو اعلانات کیے تھے، معلوم یوں ہوتا ہے کہ وہ اس سے دستبردار ہو گئے ہیں اور اس دستبرداری نے کئی بڑوں کے کردار کو خواہ مخواہ مشکوک بنا دیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تفتیش کے بعد بے گناہ ہو جاتے لیکن ان کواپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور وہ عوام کی نظر میں مجرم بن گئے ہیں۔ اس شک کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ اس بحران میںمعاملات اتنے شفاف نہیں تھے اور دال میں کچھ کالا ضرور تھا جو کئی چہرے سیاہ کر سکتا تھا لیکن معاملہ ٹھپ ہو گیا۔
بقول حکومت کے نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔ نیب نے ملک کے سرکردہ سیاستدانوں کو کسی نہ کسی الزام میں گرفتار کر لیا جس میں زیادہ تعداد نواز لیگ کے سرکردہ لیڈروں کی تھی جن میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ احسن اقبال اور سعد رفیق وغیر شامل ہیں جب کہ ان سیاستدانوں کے ساتھ سرکاری افسروں کی بھی شامت آگئی اوروہ بھی جیل پہنچا دیے گئے لیکن نیب کا یہ کام بھی الٹا پڑ گیا۔
اب یہ صورتحال ہے کہ نیب کو اپنی ساکھ بچانے کی فکر ہے کیونکہ جن سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو احتساب کے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کی گئی وہ اس شکنجے سے آزاد ہو گئے ہیں اور جن حکومتی سودوں کو مشکوک قرار دیکر ان پر الزامات لگائے گئے تھے نیب، اعلیٰ عدالتوں میں ان کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ اس طرح حکومت کے لیے کئی پریشانیاں خود سرکاری ادارے پیدا کر رہے ہیں، یہ برے وقت کی علامت ہے۔ یہ صورت کچھ کم تشویشناک نہیں ہے کہ اوپر سے عالمی وباء کی وجہ سے ملک بھر میں متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسکی وجہ سے حکومت پر موثر اقدامات کے لیے دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم نے گزشتہ روزایک صحافتی گروہ سے ملاقات میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے بعدحکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے انھیں آگاہ کیا انھوں نے شاید اس تنقید کا جواب دینے کی کوشش کی جو ان پر قوم سے خطاب کی وجہ سے ہو رہی ہے اور ملک بھر میں وہ تنقید کی زد میں ہیں ۔ حکومت پر مختلف حلقوں کی جانب سے دبائو اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ اس پر ایک تنکے کی بھی گنجائش نہیں تھی لیکن یہ وبائو تو لگتا ہے کہ پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ حکومت پر پہلے جو دبائو تھے وہ اس کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے تھے لیکن کورونا کی وباء کی قدرت کی جانب سے ایک عذاب ہے جو پوری دنیا پر نازل ہوا ہے اور بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے پاس اس سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔
پاکستان تو ان ترقی یافتہ ملکوں کے سامنے کچھ بھی نہیں، ہمارے پاس تو وسائل کی انتہائی کمی ہے، اسپتال اول تو کم ہیں اور جو ہیں ان میں مطلوبہ سہولیات اور مشینری موجود نہیں ہے، ہم کس کس بات کو روئیں کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی اور ایسے نمائشی کام کرتے رہے جن پر ان کی واہ واہ ہوتی رہے اورمیرے جیسے صحافی ان کو داد دیتے رہیں لیکن اب جب اسپتالوں کی ضرورت آن پڑی ہے تو یہ بات سنائی دے رہی ہے کہ نئے اسپتال بنانے بہت ضروری تھے، خدا کرنے ہمیں اب بھی عقل آجائے اور ہم عوام کے لیے نئے اسپتال اور اسکول بنالیں۔
اس مشکل وقت میں حکومت کی اپوزیشن کی جانب سے سب سے مثبت ردعمل کا اظہار اگر کسی نے کیا ہے تو وہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو ہیں جو اپنے ہم عصروں پر بازی لے گئے، ایسے ہی جیسے ان کی پارٹی کے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات کر کے ملک بھر میں نمایاں کارکردگی کا اعزاز اپنے نام کیاہے ۔ بلاول بھٹو نے مشکل وقت میں وزیر اعظم اورحکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، انھوں نے وزیر اعظم کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت حکومت پر تنقید کا نہیں بلکہ ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔
بلاول بھٹو کے اس ردعمل کا حکومت نے خیر مقدم کیا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اس مشکل وقت میں عوام کی مدد کو آتیں لیکن انھوں نے اس قدرتی آفت میں بھی سیاست جاری رکھی ہوئی ہے اورحکومت کوہدف تنقید بنایا ہوا ہے، صرف جماعت اسلامی واحد پارٹی ہے جس نے عوامی رابطہ مہم شروع کر کے عوام کو آگاہی فراہم کرنے علاوہ اپنے زیر اہتمام چلنے والے فلاحی اداروں کو حکومت کے سپرد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس وقت ضروت اس امر کی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت یک جان ہو کر حکومت کا ساتھ دے تا کہ حکومت یکسوئی سے اس عفریت کا مقابلہ کر سکے۔ قومی یکجہتی وقت کی ضرورت ہے ۔