بالکل ممکن ہے
کورونا اور اس کے ہمہ جہت اثرات سے نمٹنے کے لیے سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔
DADU:
دنیا خوف میں مبتلا ہے، کاروبار زندگی تھم گیا ہے، زیادہ تر ملکوں کے اسکول اور کاروباری مراکز بند کر دیے گئے ہیں، درآمد اور برآمدکا سلسلہ رک چکا ہے، پیداواری اور کاروباری مراکز کی بندش سے بیروزگار ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
کروڑوں لوگ روزگار پر نہیں جارہے ہیں، پاکستان کی برآمدات بھی رک چکی ہیں، تیل کی قیمتوں میںکمی کا فائدہ تحلیل ہوگیا ہے، بیروزگاری کے باعث سیاسی اور سماجی مسائل اور افراتفری جنم لے رہی ہے۔ دنیا سے آنیوالی خبروںسے ہر آدمی خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ اسپتالوں اور سڑکوں پر لڑائی کے مناظر عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم جیسے پسماندہ ملکوں کی معیشت کا انحصار ترقی یافتہ معیشتوں پر ہوتا ہے۔
تیار مال ترقی یافتہ ملکوں میں جاتا ہے جب کہ مصنوعات کی تیاری کے لیے خام مال اور مشینری بھی وہیں سے آتی ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ ملکوں میں دکانیں، ہوٹل، مالز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، بینک اور انشورنس کمپنیوں نے سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔ ملازمین کو چھٹیاں دے دی گئی ہیں یا انھیں گھر بیٹھ کر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کئی ملکوں کی حکومتیں اپنے بیروزگار ہونیوالوں کی مالی مدد کررہی ہیں۔ ان میں ہانگ کانگ سب سے آگے ہے جو اپنے شہریوں کو نقد رقوم دے رہا ہے تاکہ وہ ان سے کھانے پینے کی اشیا خرید سکیں۔
کرایہ دارں سے کرایہ لینے میں وقفہ کیا جارہا ہے تاکہ لوگ بے گھر نہ ہوسکیں۔ یہ وبا ثابت کررہی ہے کہ دنیا کی کس حکومت کا ویژن دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اچھا ہے اور کون سی حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے موثر اور بہتر اقدامات کررہی ہے۔
ہمارے یہاں چونکہ زیادہ عرصہ تک آمریتیں مسلط رہی ہیں لہٰذا میڈیا اتنا آزاد نہیں ہے جتنا اسے ہونا چاہیے۔ صحافیوں کے اندر یہ خوف ہمیشہ رہتا ہے کہ کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک کسی مشکل میں ہوتا ہے تو اصل حقائق سامنے نہیں آپاتے۔ وقت گزر جانے کے بعد عام شہری کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے کون سی خبریں پوشیدہ رکھی گئی تھیں اور اصل حقائق کیا تھے۔لہٰذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کیے بغیر انھیں اعتمادمیں لیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ آنے والے دنوں میں انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمارے ملک کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کی شکار تھی وہ مستقبل میں مزید مسائل کا شکار ہونے والی ہے۔ حقائق سے باخبر کرنے سے مایوسی نہیں پھیلے گی۔ ہمارے وزراء کو یہ بیانات دینیبند کردینے چاہئیں کہ معیشت بحران سے نکل آئی ہے اور 2020 بحالی اور ترقی کا سال ہوگا۔ اس امر پر بھی تکرار کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سارے ملک کو چند لوگ یا خاندان لوٹ کر کھا گئے ہیں۔
یہ کہنا بھی ختم کردیا جائے کہ جو ہمارا مخالف ہے یا جو ہم سے اختلاف کرتا ہے وہ وطن دشمن ہے، لوگوں کی حب الوطنی پر شک کرنے کے رویے پر بھی نظر ثانی کرلی جائے تو بہتر ہوگا۔ جب ہم اپنے اندر یہ سب کچھ کرنے کی جرأت پیدا کرلیں گے تو ہم لوگوں کے سامنے حقائق آشکار کرنے سے نہیں گھبرائیں گے اور لوگوں کو یہ بتا سکیں گے کہ اس وبا نے امریکا، جاپان،چین اور یورپ میں بدترین کساد بازاری پیدا کردیہے۔
چین جو دنیا میں ترقی کا انجن تصور کیا جاتا ہے وہاں ترقی کی شرح کم ترین سطح پر آگئی ہے اور جس سے اسے 2.7 کھرب ڈالر کا نقصان ہوگا اور نقصان کا یہ حجم برطانیہ کی کل مجموعی پیداوار کے برابر ہے۔ عالمی سطح پرتجارت اور سیاحت میں غیر معمولی کمی واقع ہوچکی ہے جس میں مزید گراوٹ متوقع ہے۔ عوام کو باخبر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ دنیا کی بڑی معیشتیں بحران سے جلد نہیں نکل پائیں گی۔ چین امریکا، جنوبی کوریا، فرانس، جاپان، جرمنی اور اٹلی کی کساد بازاری سے 2020 میں عالمی معاشی ترقی کی متوقع شرح 2.3 % سے گر کر محض 1.2% رہ جائے گی۔
یہ تمام منفی عوامل بتانے کے بعد لوگوں کو یہ اچھی خبر بھی سنائی جائے کہ چین نے بڑی حد تک اس وبا پر قابو پالیا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی معیشت بحالی کی طرف گامزن ہونے والی ہے ۔عین ممکن ہے کہ مکمل بحالی کا عمل ایک سال میں مکمل ہوجائے۔ تاہم، اگر عالمی سطح پرمعیشت کساد بازاری اور مندی کا شکار رہے گی تو چین کو معیشت کی بحالی کا مکمل فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کی ترقی کا غالب انحصار برآمدات پر ہوتا ہے جس میں بڑا اضافہ نہیں ہوسکے گا۔
حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے اندر اس وبا کو روکنے اور معیشت پر اس کے پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے اسے کیاکرنا چاہیے؟ جب ملک کی معاشی صورتحال بہت زیادہ خراب ہوتو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کچھ کرنے کے امکانات بھی کم رہ جاتے ہیں۔ تاہم، وقت ضایع کیے بغیر حکومت چند درج ذیل اہم فیصلے کرے تو بہتر ہوگا:
-1 کورونا وائرس میں مبتلا ہر مریض کے خاندان کو اس کی مکمل صحت یابی اوربحالی تک کم از کم 20 ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جائیں۔
-2 کورونا وائرس میں مبتلا کم مالی وسائل رکھنے والے جن مریضوں نے سرکاری سہولت نہ ہونے کی وجہ سے نجی اسپتالوں میں علاج کرائے ہیں انھیں اس کا مکمل معاوضہ ادا کیا جائے۔
-3 کورونا وائرس کی جانچ اور معیاری تشخیص کی بلامعاوضہ اور معیاری سہولت ہرعلاقے میں مہیا کی جائے۔
-4 جو کاروباری ادارے، دکانیں، ہوٹل بند ہیں یا بند کرادیے گئے ہیں ان کے نقصانات کم کرنے کے لیے انھیں ٹیکس اور محصولات میں رعایت فراہم کی جائے اور آسان شرائط پر بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں۔
-5 حکومت بنیادی شرح سود کو کم کرکے 6 فیصد پر لائے تاکہ کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو۔
-6 صنعتی اور زرعی شعبے کی نمایندہ انجمنوں کی مشاورت سے ایک بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے کیونکہ موجودہ اعلانات ناکافی ہیں۔
-7 تیل اور گیس میں ہونے والی غیر معمولی کمی کا 100 % فائدہ حکومت خود نہ اٹھائے بلکہ اس کا کم از کم 80% فائدہ عوام اور معیشت کو منتقل کیا جائے۔ ایسا کرنے سے عام آدمی مہنگائی کا مقابلہ کرسکے گا، پیداواری اخراجات میں کمی سے معاشی عمل کچھ تیز ہوگا اور تیزی سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں کچھ کمی واقع ہوگی۔
اب سوال یہ اٹھے گا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں حکومت کو جو رقم خرچ کرنی پڑے گی وہ کہاں سے آئے گی؟ یہ بھی دلیل لائی جائے گی کہ مالیاتی خسارہ غیر معمولی ہے، ٹیکس اور محصولات کے اہداف کا حصول ممکن نہیں نیز مالیاتی اداروں اور بینکوں سے قرضے بھی نہیں لیے جاسکتے تو پھر ان اقدامات کے لیے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے کیا جائے؟
ملک کے عوام اور معیشت کو ریلیف دینے کی راہ میں یقیناً کافی مالی مشکلات حائل ہیں لیکن اس کے باوجود ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ بس اس کے لیے سیاسی عزم اور قومی جذبے کی ضرورت ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ڈیم فنڈ کا بڑا چرچا تھا۔ اس فنڈ میں تمام سرکاری محکموں اور اداروں حتیٰ کہ مسلح افواج کی طرف سے بھی عطیات دیے گئے تھے۔ سب سے پہلے تو ڈیم فنڈ میں جو رقم جمع ہے وہ کورونا فنڈ میںفوری طور پر منتقل کردی جائے۔ تمام سرکاری اور ریاستی ادارے رضاکارانہ طور پر اپنے بجٹ میں کٹوتی کے ذریعے اس فنڈ کے لیے سرمایہ فراہم کریں۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ افسروں کی قیمتی رہائش گاہوں کی اگر فوری نیلامی ممکن نہیں تواسے بڑے بینکوں کے پاس رہن رکھ کر کم سود پر قرضہ حاصل کیا جائے۔ اس وبا کے خلاف حکومتی سطح پر بہترین اور شفاف کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ عالمی امدادی ادارے حکومت کی مالی مدد کرسکیں۔
کورونا اور اس کے ہمہ جہت اثرات سے نمٹنے کے لیے سب کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن رکاوٹ صرف سیاسی عزم کی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ قوم میں اعتماد اور ملک میں استحکام پیدا کرنے کے لیے تمام صوبوں، سیاسی قوتوں، میڈیا، عدلیہ اور انتظامیہ کو ساتھ لے کر چلے ، محاذ آرائی سے گریز کرے اور ایک کے بعد دوسرا محاذ نہ کھولے۔ یہ قومی،علاقائی اور بین الاقوامی بحران ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے داخلی طور پر متحد ہونا ضروری ہے۔
لیکن کیا یہ سب ہونا ممکن ہے؟ عوام کا احساس اور سیاسی عزم موجود ہوتو ایسا ہونا بالکل ممکن ہے۔