حکمرانوں کا نصب العین
آج کی اس دنیا میں چینی ریاست کا انداز سب سے جدا ہے اتنے بڑے ملک کو صرف ایک سیاسی جماعت نے متحد کر رکھا ہے
تیس اپریل 2005 بیجنگ کے نوے لاکھ باسیوں کو ان کے موبائل فون پر ایک تحریری پیغام موصول ہوا یہ پیغام محکمہ پولیس کی جانب سے بھیجا گیاتھا پیغام میں لکھاتھا۔ آپ اپنی حب الوطنی کا اظہار عقلی انداز سے کریں غیر قانونی مظاہروں میں شرکت نہ کریں ،کوئی مسئلہ کھڑا کرنے سے اجتناب کریں، فساد سے اجتناب کرکے ہماری مدد کریں اور قانون شکنی سے احتراز کرکے قوم سے محبت کا ثبوت دیں ۔ یہ پیغام اہل بیجنگ کو ان کے جاپانی حکومت کے خلاف مسلسل مظاہروں کے بعد ارسال کیاگیا تھا جو انھوں نے جاپان میں ایسی درسی کتب کی اشاعت پر کیے تھے جن میں 1930 کے عشرے میں جاپانیوں کے چین میں ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ نہیں کیاگیا تھا۔ یہ مظاہرین چینی حکام کی شہہ پر ہی نکلے تھے لیکن اب وقت آگیا تھا کہ بس بہت ہو چکا کا اعلان کیاجائے ۔
آج کی اس دنیا میں چینی ریاست کا انداز سب سے جدا ہے اتنے بڑے ملک کو صرف ایک سیاسی جماعت نے متحد کر رکھا ہے اور یہ جماعت سارے سیاسی اقتدار پر اجارے کے ساتھ اپنے دفتروں کے باہر کھڑے ہوکر یہ نعر ہ بھی لگاتی ہے کہ ہمار انصب العین عوام کی خدمت ہے۔ انگلستان کے بادشاہ ہنری اول کو اس کی تاجپوشی کے بعد یہ نصیحت کی گئی کہ'' تم خدا کے خادموں کے خادم ہو ان کے آقا نہیں، تم لوگوں کے محافظ ہو ان کے مالک نہیں '' یہ ہے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کے سیاست دانوں،حکمرانوں کا نصب العین اورکردار جس کی وجہ سے ان کے عوام تمام عذابوں ، مصائب ، تکلیفوں اور مسائل سے آزاد ہیں اور دوسری طر ف ہمارے سیاست دان اور حکمران ہیں جو اپنے ملک اور اپنے عوام سے بے نیاز بے پروا صرف اور صرف بیانات ، بیانات کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ہماری پنجابی فلموں کے ہیرو اور ولن گرج دار آواز کے ساتھ ہل ہل کر ڈائیلا گ بولا کرتے تھے جسے عرف عام میں ''بڑھکیں'' کہاجاتا ہے ۔ بڑھکیں پنجابی فلموں کا وطیرہ اور شان تھیں جب ہیرو یا ولن بڑھک مارتا تھا تو سارا ہال تالیوں سے گونجنے لگتا تھا ۔ آہستہ آہستہ وہ نامور ہیرو اور ولن اللہ کو پیارے ہوتے چلے گئے اور سنیما ہال اجڑتے چلے گئے پھر ایک بہت لمبا وقفہ آگیا قوم نے جس مشکل اورتکلیف میں یہ وقفہ گزارا وہ قوم ہی جانتی ہے پھرعوام کی خوش قسمتی کہ انہیں سیاست دانوں کی شکل میں ماضی کے پنجابی فلموں کے ہیرو اور ولن وافر مقدار میں اور باآسانی دستیاب ہونے لگ گئے، دیکھتے ہی دیکھتے قوم ماضی کے ہیرو اور ولن کو بھول ہی گئی ۔ پہلے قوم کو یہ تفریح میلوں سفرطے کرکے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر بلیک سے ٹکٹ خرید کر حاصل ہوتی تھی لیکن اب انہیں اتنی آسانی ہوگئی ہے کہ ٹی وی کھولیں دوچار چینلز آگے پیچھے کریں۔ بڑھکیں ہی بڑھکیں سننے کو نصیب ہوجاتی ہیں ۔ کوئی ڈرون حملوں پر بڑھکیں ماررہا ہوتاہے کوئی راتوں رات بجلی ، گیس،پانی کے مسئلوں کوحل کرنے کی بڑھکیں مار رہا ہوتا ہے ۔ کوئی ملک کو چند ہفتوں میں پیرس بنانے کی بڑھکیں مار رہا ہوتاہے، کوئی نیٹو سپلائی روک دینے کی بڑھکیں ماررہاہوتاہے کوئی دھرنے کے ذریعے حکومت کوختم کرنے کی بڑھکیں ماررہاہوتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ کچھ اینکرز حضرات اور تجزیہ نگار انتہاپسندوں کے حق میں بولنے میںاس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ کیا سے کیا کردیں ۔
ایک بات تو طے ہے کہ پوری دنیا میں ایک کام ہم سے زیادہ کوئی اور اچھا کر ہی نہیں سکتا ہے اور وہ ہے باتیں بنانا اور کرنا۔ کسی اورکام میں ہوں نہ ہوں اس کام میں تو ہم نے مہارت حاصل کر ہی لی ہے اس کام میں ہم ان گنت ترقی کی منزلیں طے کرچکے ہیں۔ ہمارے سیاست دان اورحکمران زبانی جمع خر چ کیے بغیر تو چین سے سوہی نہیں سکتے ۔ کنفیوشیس نے کہا ہے کہ ''میری بدقسمتی یہ نہیں کہ لوگ مجھے نہیں جانتے بلکہ یہ ہے کہ میں لوگوں کو نہیں جانتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں بننے والی حکومتیں عوام کو درپیش عذابوں مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت ، انتہا پسندی ، دہشت گردی ، بدامنی، توانائی اور پانی کا بحران ، بنیاد پرستی ، رجعت پرستی ان سب سے نجات دلانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرتیں ، عوام کو مایوسی کی دلدل سے نکال باہر کردیتیں ۔ لیکن افسوس صد افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا ظاہرہے جب آپ کا ارادہ ہی نہیں ہوگا تو مسائل سے نجات کیسے ملے گی ۔کیونکہ ارادہ ہی آپ کو منزل تک پہنچاتا ہے وہ ہی آپ کو راستہ دکھاتا ہے وہی آپ میں ہمت ، حوصلہ ، لگن ،جستجو ،سمجھ بوجھ پیدا کرتاہے ۔ ماہرین نفسیات متعدد تجربات کے ذریعے یہ حقیقت ثابت کرچکے ہیں کہ انسانی جسم جس چیز کے متعلق سوچتاہے اور جس چیز پر کامل اور مکمل یقین رکھتاہے انسان وہ چیز حاصل کر سکتاہے ۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے معروف فلسفی اور نفسیات دان ولیم جیمز جنھیں جدید زمانے کا سب سے عظیم مفکر سمجھا جاتاہے کہتے ہیں '' کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے لیے یقین ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتاہے یقین کے بغیر کامیاب نتیجے کا تصورعبث ہے اوریہ ایک بنیادی حقیقت ہے ۔'' شاید آپ نے جنگی پناہ گزینوں کی وہ ولولہ انگیز داستان سنی ہوجو ایک نہایت مشکل راستے کے ذریعے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے چونکہ انہیں پیدل چلنا تھا اس لیے انھوں نے اس امر پر بہت زیادہ غورکیا کہ وہ اپنے ساتھ ایک ماں اور اس کی چھوٹی بچی کو لے جاسکتے ہیں۔ بالآخر انھوں نے اس بچی کو بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیاجسے ان میںشامل طاقتور مردوں نے اٹھانا تھا مسلسل 3 دن وہ نہایت ہی مشکل کے عالم میں چلتے رہے اور ان کاراستہ مزید دشوار سے دشوار گزار ہوتا گیا۔ بالاخر ایک بوڑھے آدمی کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اسے یہیں مرنے دیں اور اپنا سفر جاری رکھیں۔ شاید اس طرح وہ بچ سکیں بادل نخواستہ اور افسوس کے عالم میں قافلہ آگے بڑھنے لگا لیکن اچانک ماں نے اپنی ننھی بچی کو اٹھایا اور بوڑھے شخص کے پاس واپس چلی گئی ۔ اس نے نہایت آہستگی کے ساتھ اپنی بچی بوڑھے آدمی کے بانھوں میں دے دی اور سکون سے کہا تم اس طرح اپنی ذمے داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے اب میری بچی کو اٹھانے کی تمہاری باری ہے پھر وہ ماں مڑی اور قافلے کے پیچھے روانہ ہوگئی تھوڑی دیر بعد انھوں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں وہ بوڑھا شخص نظر آیاجو نہایت ثابت قدمی سے ان کے پیچھے آرہاتھا اور بچی اس کے بازئوں میں نہایت آرام سے بیٹھی تھی ۔
دنیا کی تاریخ رقم کرنے والے ایک عظیم مورخ سے جب یہ پو چھا گیا کہ اس نے تاریخ عالم سے کیا سبق حاصل کیا تو اس نے محض یہ جواب دیا '' جب بہت زیادہ اندھیرا ہوجاتاہے تو پھر ستارے چمکنے لگتے ہیں '' کوئی چیز ناممکن نہیں بس ارادے اور یقین کی ضرورت ہے ۔ اس وقت جتنی سنجیدگی کی ضرورت ہے کبھی نہ تھی لہذاحکومت پاکستان پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، اے این پی ، مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر آج ہی ارادہ کرے کہ ملک اورعوام کو درپیش عذابوں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانی ہے اور عوام کو طاقتور،خوشحال، بااختیار بنانا ہے تو پھر دیکھیں یہ ناممکن کام کس طرح ممکن ہوتا ہے کیونکہ کوئی کام نا ممکن نہیں۔خدارا نان ایشو پر وقت برباد مت کریں۔