ناغہ سسٹم
کبھی گوشت کا ناغہ ہوا کرتا تھا، منگل اور بدھ کے دنوں میں گوشت کی دکانیں بند رہتی تھیں.
کبھی گوشت کا ناغہ ہوا کرتا تھا، منگل اور بدھ کے دنوں میں گوشت کی دکانیں بند رہتی تھیں اور پھر جمعرات کو جب قصاب اپنی دکانیں کھولتے تو بے شمار گاہک دکانوں پر جمع ہوجاتے، ایک طرف گاہکوں کا رش تو دوسری طرف مکھیوں کی بھنبھناہٹ ، آج کل بھی یہی دو دن ناغے کے مختص ہیں، مہنگائی ہونے کے باوجود وہی پرانا حال ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کے ناغوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، سی این جی کے ناغوں نے بھی بے حد شہرت پائی، سی این جی گاڑیوں میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ گاڑیاں، رکشے، چھوٹے بڑے ڈبوں اور ایک ایک کمرے کے مکان اورکھولیوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں کہ بغیر ایندھن کے چل نہیں سکتے، لہٰذا ڈرائیور حضرات اپنے دوست احباب کے ساتھ صبح و شام ان بے مصرف گاڑیوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں اور جب ناغہ ختم ہوا تو دوڑے سی این جی اسٹیشن کی طرف، گاڑیوں کی قطاروں کے درمیان سے راہ گیروں کا چلنا مشکل ہوگیا کہ راستہ تو یہ گاڑیاں روک لیتی ہیں، گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کے لیے مزید مشکلات کہ کس طرح اس جم غفیر سے اپنی گاڑی کو نکالیں، اگر متبادل راستہ اختیارکیا جائے تو گلیوں میں لگائے جانے والے بیریئر راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ کیا کریں بیریئر بھی حفظ ماتقدم کے تحت لگانے ضروری ہیں کہ آج کے دور میں زیست کو گزارنا بھی کٹھن ترین کام ہوچکا ہے۔
چونکہ سانسیں اﷲ کی دی ہوئی ہیں، اگر انسان کے اپنے اختیار میں ہوتیں تو ہر شخص اپنی سانسوں کو اس وقت تک اٹھا کر رکھ دیتا جب تک کہ زندگی گزارنا سہل نہ ہوجاتی اور پھر دوبارہ سے چین کے دن بسر کرتا، لیکن اچھا ہی ہوا، ورنہ تو شہرکا شہر اور ملک کا ملک مردہ نظر آتا، چونکہ مسائل میں تو ہر شخص مبتلا ہے، کوئی آسودہ حال نہیں، جس سے پوچھیے وہ اپنے دکھوں، محرومیوں کی گٹھڑی کھول کر آپ کے سامنے پیش کردے گا۔ بے شک انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ہے، جب سی این جی کا ناغہ نہیں ہوا کرتا تھا تب بھی ناخوش تھا اور اب بھی ہے کہ اس دنیا کے لوگ اسے خوش و خرم نہیں دیکھ سکتے ہیں، ہمارے ملک میں تو یہ بیماری وبائی شکل اختیار کرگئی ہے کہ اچھی اور کامیاب زندگی کوئی بسر نہ کرسکے اور جنھیں تھوڑی بہت یا بظاہر خوشیاں میسر ہیں ان کے سکھ کو برباد کرنے کے لیے، حاسدوں اور دشمنوں کی کمی نہیں۔
ناغہ کرنے کی کہانی بڑی پرانی ہے۔ چڑیا گھر کے منتظمین بھی ناغہ کرنے کے حق میں ہیں، وہاں بھی عرصہ دراز سے ناغے کی کہانی چل رہی ہے، فیملی کے لیے دن مخصوص ہیں، باقی ناغوں کے دن ہیں، اسی طرح پارکوں میں بھی ناغے چلتے ہیں، کئی پارک ایسے ہیں جہاں خاندان کے ساتھ ہی مرد حضرات جاسکتے ہیں، تنہا مردوں کے لیے دوسرے دن ہیں، جب وہ آزادی کے ساتھ ان پارکوں اور باغات کا رخ کرسکتے ہیں۔
ناغہ کرنے والوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور لے دے کر ''کے ای ایس سی'' کی طرح واٹر بورڈ میں بھی ناغہ سسٹم کا طریقہ رائج کردیا گیا ہے، کے ای ایس سی کے ادارے نے لوگوں کو کچھ کم تنگ کیا تھا کہ آئے دن کی لوڈ شیڈنگ جو ایک قسم کا ناغہ ہی تھا اس ناغے نے صبح و شام کا چین و سکون لوٹ لیا تھا، بے شمار کام لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ صنعتی ترقی کا زوال کے ای ایس سی ہی کے مرہون منت ہے، تعلیمی نظام بھی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہوتا ہے، اندھیری راتوں میں سر راہ لوٹنے والوں کی چاندی ہوجاتی ہے، ہر راستہ چلنے والے سے چھینا جھپٹی مشکل کام نہیں ہے، ایک ٹی ٹی کا ہی تو کمال ہے، جب بے چارہ معصوم شخص اپنی جیبیں خالی کر دیتا ہے۔ ان دنوں کچھ جگہوں کی اسٹریٹ لائٹس دوبارہ سے روشن ہوگئی ہیں، اب یہ سیاست دانوں اور ان کی پارٹیوں کا کارنامہ ہے یا کے ای ایس سی کا، ورنہ جس وقت لائٹ ہوتی بھی تھی، اس وقت بھی شاہراہوں اور گلیوں کے الیکٹرک پول میں نصب ہونے والے بلبوں کو بند کردیا جاتا تھا تاکہ لوٹ مار آسانی کے ساتھ ہوسکے۔
پاکستان ہندوستان کی جنگیں بھی مشہور ہیں اور جھڑپیں بھی، آئے دن چھیڑ خانی ہوتی ہی رہتی ہے، بالکل اسی طرح ان دنوں کے ای ایس سی اور واٹر بورڈ کی نوک جھونک اور بحث و مباحثہ منظر عام پر آگیا ہے، مسئلہ واجبات کا ہے، دونوں اداروں کا آپس کا معاملہ ہے لیکن شہری ان اداروں کی جنگ میں چکی کے پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں، پانی کا مسئلہ شدید بحران اختیار کرچکا ہے، بدعنوانی افسران کرتے ہیں اور سزا عوام کو ملتی ہے۔ اپنی تعیشات زندگی کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو اجاڑنے میں یہ ادارہ پیش پیش رہا ہے، پانی ہے تو زندگی ہے، ''بقر عید'' مسلمانوں کا ایک بڑا تہوار اور مذہبی فریضہ ہے۔ قربانی سنت ابراہیمی کی یاد اور اﷲ کی خوشنودی اور حکم آوری کا ذریعہ بن جاتی ہے، انسان بے چارہ ہر طرح سے مہنگائی کے ہاتھوں قربان ہوتا ہے لیکن اس بار بقر عید کے موقع پر کراچی میں پانی غائب کردیا گیا اور ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی۔ یہ ملی بھگت ہوتی ہے چونکہ اگر پانی واٹر بورڈ کے پاس نہیں ہے تو پھر یہ ٹینکر والے چاند سے پانی لے کر آتے ہیں؟
واٹر بورڈ میں تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں وہ تو اچھا برا سمجھ سکتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں اور خواہ کوئی کتنی ہی مغلظات بک ڈالے، جلاؤ گھیراؤ کا معاملہ درپیش ہو، افسران بالا پر مقدمات چلیں، بات پولیس، تھانے اور کچہری تک پہنچ جائے لیکن پانی پانی ہر گز نہیں ہوتے ہیں، نہ شرم سے اور نہ گرمی سے، چونکہ پیسہ اتنا کمالیا ہے کہ گھر سے لے کر گاڑی اور دفتر میں اے سی موجود ہوتا ہے، پھر کیوں پانی پانی ہوں۔
پانی نہ ہونے کی وجہ سے شہری ٹینکر ڈلوانے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس موقع سے ان دونوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور ٹینکر کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا اور اب سنگل ٹینکر 1200 سے 1500 تک اور پورا ٹینکر تین سے چار ہزار تک بک رہا ہے۔ اور زمانے سے یہی حال ہے، لوگ تکلیف اٹھاتے اٹھاتے تنگ آچکے ہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ہے۔ عید کے موقع پر اور وہ بھی جانور کی قربانی کے وقت پانی نہ ہونے کی وجہ سے کیا حال ہوا ہوگا، اس اذیت کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس سے گزرتے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد واٹر بورڈ نے اس مسئلے کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ گوشت کے ناغوں کی طرح پانی کا بھی ناغہ کردیا جائے۔ واٹر بورڈ نے تو اب اعلان کیا ہے کراچی کے بیشتر علاقوں میں جس میں گلستان جوہر بھی شامل ہے، ایک دن چھوڑ کر ہی پانی آتا ہے اور کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب پانی کے قطرے قطرے کے لیے مکین ترس جاتے ہیں اور پھر لاچار ہوکر واٹر ٹینکر کو صدائیں لگانی پڑتی ہیں، جن کے پاس پیسہ نہیں تو وہ بے چارے دور دور سے پانی لے کر آتے ہیں، کچھ منرل واٹر پر گزارا کرتے ہیں، پانی کے کین خریدتے ہیں، اس امید کے سہارے کہ پانی ایک دو روز میں ضرور آجائے گا، یہ وقتی مشکلات ہیں لیکن یہ وقتی نہیں دائمی مشکلات بنتی جا رہی ہیں۔
واٹر بورڈ والوں کا اس ضمن میں یہ کہنا ہے کہ مختلف علاقوں میں پانی کا ناغہ رہے گا، مثال کے طور پر جس دن گلشن اقبال کا پانی بند رہے گا اس دن کسی دوسرے علاقے میں پانی پہنچایا جائے گا، 4 گھنٹے بجلی کی بندش کے باعث روزانہ مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی بند رہے گی اور جس کا اعلان ہر روز کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہریوں کو سزا نہیں دینی چاہیے، واجبات کا مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہوسکتا ہے۔ سزا تو دے چکے ہیں واٹر بورڈ والے، لیکن ابھی سزا کے دن پورے نہیں ہوئے ہیں۔ جیلوں سے قیدی رہا ہوجاتے ہیں لیکن پانی اور بجلی کے مارے لوگوں کی سزاؤں میں عید کے دنوں میں بھی کمی نہیں کی جاتی ہے۔