اگر اٹلی کے انجام سے بچنا ہے
صاف دکھائی دیتا ہے کہ بلاول دانش مند بھی ہیں اور صاحب مطالعہ بھی
حضرت خواجہ خضر چلتے چلتے صحرا میں جا پہنچے اور حیران ہوئے۔ سوچا کہ یہاں تو سمندر لہریں لیا کرتا تھا، یہ خشکی کہاں سے آگئی؟یہی سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھے تو ان کا سامنا ایک چرواہے سے ہو ا۔ اس کی بکریاںخاردار جھاڑیوں سے الجھی ہوئی تھی اور وہ خود چیتے کی مانند دائیں سے بائیں دیکھتا تھاکہ مبادا کوئی درندہ اس کے ریوڑ کو نہ آلے۔ حضرت خواجہ نے اسے متوجہ کیا اور پوچھا، اے گلہ بان! یہ سرزمین تو پانیوں کی سرزمین تھی، یہاں مچھیرے جال پھیلاتے اور نا خدا کشتیاںچلایا کرتے تھے، یہاں خاک کب سے اڑنے لگی؟
گڈریے نے نگاہ اٹھائی ،دھوپ سے بچنے کے لیے ہاتھ کا چھجا آنکھوں پر رکھا اورغور سے حضرت خواجہ خضر کی طرف دیکھا پھر کہا، اے اجنبی! تم سے کچھ بھول ہوئی ۔ یہ دیار تو پانی کی ایک ایک بوند کو ترستا ہے اور ایسا آج سے نہیں زمانوں سے ہے۔ حضرت خواجہ خضر نے یہ سنا، ایک آہ سردبھری اور آگے بڑھ گئے۔ دوران سفر پھر ایک مقام ایسا آیا جس نے انھیں حیرت سے دوچار کیا۔
یہ ایک پر فضا مقام تھا، ہری بھری پہاڑیوں پر پھول بوٹے بہار دیتے تھے اور نیلی جھیل کو چھو کر چلنے والی ہوائیں جسم و جاں کو معطر کرتی تھیں۔ انھوں نے یاد کیا کہ ابھی ہزار برس ہی تو ہوتے ہیں جب میں یہاں سے گزرا اور اس مقام کو بے آب و گیاہ ریگستان پایا ، سبزہ و آب نے یہاں کیسے جگہ بنا لی؟ بس، یہی سوال انھوں نے کسی مقامی سے پوچھا تو اس سے ٹھٹھا اڑایا اور کہا کہ یہ مقام تو ازل سے ایسا ہی ہے، مجھے لگتا ہے تم راہ بھول چکے ہو۔ حضرت نے یہ جواب بھی صبر کے ساتھ سنا ، اﷲ کی قدرت کا سوچ کر سجدے میں جا گرے اور کچھ ایسا سوچا، قرآن میں جس کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے کہ یہ وقت کا اتار چڑھاؤ ہے جسے ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اپنی حالیہ پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری کے ذہن میں بھی کچھ ایسی ہی بات تھی۔
بلاول نوجوان آدمی ہیں۔ زندگی اور سیاست کے بارے میں ان کا تجربہ؛ تجربہ کار، پرانے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے سیاست دانوں کی نسبت یقیناً کم ہے لیکن صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ دانش مند بھی ہیں اور صاحب مطالعہ بھی ۔ ان کا شمار اُن اہل بصیرت میں بھی کیا جاسکتا ہے جوٹھوکر پر ٹھوکر کھاتے چلے جانے سے بہتر سمجھتے ہیں کہ سنبھل کر چلا جائے۔ شاید یہی سبب ہے کہ عین اس وقت جب کورونا کی مصیبت سے نمٹنے کے لیے حکومت کی ناقص حکمت عملی پر اس کے لتے لیے جارہے ہیں، انھوں نے احتیاط کے دامن کو تھاما اورکہا یہ وقت عمران خان پر تنقید کرنے اور الزام لگانے کا نہیں، مل کر کام کرنے کا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے مخاطبین بلاول کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا ان کے نانا کا؟
اللہ بخشے، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہمارے بہت پڑھے لکھے، ذہین اور سمجھ دار سیاست داں تھے ۔ ہماری بساطِ سیاست کی وہ پہلی اور اب تک کی آخری شخصیت ہیں جن کے بارے میں کسی تردد کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ وہ آئے، انھوں نے دیکھا اور فتح کرلیا لیکن یہی پے درپے اور فوری کامیابیاں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئیں۔ ۱۹۷۷ء کے انتخابات کے بعد جب پر شور احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو ایک مرحلے پر حزب اختلاف کے قائدین بالخصوص سردار عبدالقیوم خان اور بعض دیگر کو محسوس ہوا کہ ان کی تحریک غلط رخ پر جارہی ہے کیونکہ پاکستان قومی اتحاد ہی کے چند قائدین نہیں چاہتے کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ان کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کے درمیان مفاہمت ہو سکے۔
مولانا کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے سردار قیوم اپنے ہم خیال ساتھیوںسے مشورے کے بعداِن سے ملے اور انھیں بتایا کہ صورت حال خطر ناک ہوگئی ہے کیوں کہ اتحاد کے چند لیڈروں کی نیت میں فتور آچکا ہے ۔ وہ مفاہمت کا ہر امکان ختم کر دینا چاہتے ہیں۔
اس صورت حال میں ضروری ہو گیا ہے کہ فریقین کے درمیان معاہدہ فوراًہو جائے، اس لیے بہتر ہوگا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ فوری طور پر رابطہ کرکے ان سے مولانا مفتی محمود اور دیگر رہنماؤں کی ملاقات کا بندو بست کیا جائے۔ مولانا کوثر نیازی نے ہاٹ لائن پر بھٹو صاحب سے رابطہ کیا اور انھیں صورت حال سے آگاہ کر کے ان لوگوں سے ملاقات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے یہ کہہ کر مولانا کوثر نیازی کی درخواست مسترد کر دی کہ چھوڑو یار! یہ لوگ تو ویسے ہی مجھ سے ملاقات کے لیے تڑپتے رہتے ہیں۔
کورونا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بلاول کی بے چینی اور حکومت کے ساتھ تعاون کی پیش کش پر فوری طور پر یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا اِس پیش کش کا حشر بھی وہی ہوگا جو سردار عبدالقیوم والی پیش کش کا ہوا تھا یا اس بار ہم نئی تاریخ رقم کریںگے؟ آزمائش کے اس مرحلے پر اگر پرانی پامال راہوں پر چلنے کے بجائے ہم لوگوں نے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا تو اٹلی کے انجام سے بھی بچ جائیں گے اورآنے والے دنوں میں زندگی کے کچھ ایسے روشن پہلوبھی ہمارے منتظر ہوں گے جن کے خواب دیکھتے دیکھتے ہمارے بزرگ قبرستانوں میں جا سوئے۔دوسری صورت میں ہڑپہ ،موئن جوداڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات اور ان کی کہانیوں میں ایک کہانی کا اضافہ اور ہوجائے گا۔